لاہور (پ ر) ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف) کی جانب سے اسلامیہ یونیورسٹی واقعہ کی تحقیقات میں طلبہ نمائندگان کو شامل کرنے، ذمہ داران کو قرار واقعی سزائیں دینے سمیت دیگر مطالبات کئے ہیں۔
آر ایس ایف کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں طالبات کے جنسی استحصال اور ہراسانی کے سینکڑوں کیس منظر عام پر آنے سے پتا چلتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو دہائیوں سے بے اختیار کیے جانے، طلبہ یونین پر پابندی اور مقابلہ بازی پر مبنی امتحانی نظام کے کس قدر مکروہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات پورے ملک کی یونیورسٹیوں میں اب معمول بن چکے ہیں جن سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا بھیانک کردار بھی بے نقاب ہو رہا ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام خصوصاً امتحانات اور گریڈنگ کا طریقہ کار ایسے عناصر کو وہ طاقت اور اختیار فراہم کرتا ہے جس کے بلبوتے پر وہ طلبہ کی زندگیوں سے کھیلتے چلے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی ترسیل کا بھی مکمل جال بچھا ہوا ہے جس میں ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامی و قانونی مشینری کے لوگ ملوث ہیں۔ آئے روز کسی تعلیمی ادارے سے ایسے دلخراش واقعات کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں۔ تھوڑا شور ڈلتا ہے، کچھ کاروائی ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ خبر دب جاتی ہے اور مجرمان مزید اعتماد سے اسی طرح اپنا چلن جاری رکھتے ہیں۔ جبکہ متاثرہ بچے بچیاں جذباتی و نفسیاتی طور پر تباہ ہو جاتے ہیں۔
مذہبی بنیاد پرست عناصر ایسے واقعات کو خواتین کی تعلیم کی مخالفت کے غلیظ پراپیگنڈہ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ کئی بچیوں کو ان کے والدین یونیورسٹیوں سے نکال لیتے ہیں یا داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی سے قبل بلوچستان یونیورسٹی میں بھی طالبات کو ہراساں کرنے کے منظم نیٹ ورک کا انکشاف ہو چکا ہے جس میں انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکار شامل تھے۔ لیکن کوئی خاطر خواہ کاروائی اور احتساب نہیں ہو سکا۔ طلبہ کو ان تعلیمی اداروں میں روزانہ کی بنیاد پر ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایچ ای سی کا حال یہ ہو چکا ہے کہ طلبہ اگر ہولی منانے جیسی کوئی تفریحی سرگرمی کا انعقاد خود سے کرتے ہیں تو اس پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے تاکہ تعلیمی اداروں کے ماحول کو مزید مذہبی بنیاد پرستی، رجعت اور گھٹن کا شکار کیا جا سکے۔
یونیورسٹی ملازمین، انتظامیہ اور ریاستی اہلکاروں سے لے کر طاقت کے اعلیٰ ایوانوں کے کارندوں، سرمایہ داروں اور سیاسی اشرافیہ تک ایک منظم شکل میں جنسی استحصال اور بلیک میلنگ کے اس وحشیانہ نظام کا حصہ ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے جبر اور استحصال کی نفسیات کے تعفن نے پورے سماج کو جنسی و نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود حکمران طبقات اور ریاست کے نمائندوں کی جانب سے جنسی زیادتی و استحصال کے واقعات کو خواتین کے پردے اور لباس کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ عورت انسان نہیں بلکہ جنس ہے جسے چادر و چار دیواری میں قید کر دینا چاہئے۔ اس طرح کے قابل مذمت بیانات ماضی قریب میں عمران خان کی طرف سے بھی دئیے جاتے رہے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ طالبان اور حکمران طبقات کے بیشتر لوگوں کی سوچ میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حالیہ واقعے اور ایسے دوسرے واقعات کے تناظر میں ہم مطالبہ کرتے ہیں:
٭ تحقیقات اور تفتیش میں طلبہ کے منتخب نمائندگان کو شامل کیا جائے۔
٭ معاملے کو افراد کی نجی زندگیوں کے معاملات سے جوڑنے کی رجعتی روش ترک کی جائے اور جرم کے سماجی پہلو پر توجہ مرکوز کی جائے۔
٭ تمام تر تحقیقات کو شفاف بنایا جائے اور ہر مرحلے کی رپورٹ میڈیا کے سامنے رکھی جائے۔
٭ تحقیقات کے نتائج اور مجموعی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔
٭ ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سخت ترین سزائیں دی جائیں۔
٭ ہراسانی کی روک تھام کے لئے ہر تعلیمی ادارے میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائے جن میں طلبا و طالبات کی مکمل اور فیصلہ کن شمولیت ہو۔
٭ طلبہ یونین پر پابندی ختم کی جائے اور یونین انتخابات کو شیڈول جلد از جلد جاری کرتے ہوئے ہر سطح پر فیصلہ سازی میں طلبا و طالبات کو شامل کیا جائے تاکہ ایک شفاف، صحت مند اور ترقی پسندانہ تعلیمی نظام کی راہ ہموار ہو سکے۔