تاریخ, دنیا

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں!

لال خان

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے دورہ برطانیہ کے دوران برطانوی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں برطانوی پارلیمنٹ کے قائد حزب اختلاف اور لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کوربن پر زہریلے سیاسی حملوں کی انتہا کر دی ہے۔ ا س نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”مغربی جمہوریتوں کی اقدار کے مطابق ان ممالک کا کوئی لیڈر (وینزویلا کی) سوشلسٹ حکومت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوسکتا۔“ پومپیو نے لیبرپارٹی کے لیڈر کی جانب سے وینزویلا میں نکولس مادورو کی بائیں بازو کی حکومت (جس کے درپے امریکی و یورپی سامراج ہیں) کی حمایت کو قابل نفرت اور کراہت آمیز قرار دیا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کے دائیں بازو کے رجعتی حکمران ونسٹن چرچل نے خصوصی ”اینگلو امیریکن رشتے“ کا مفروضہ پیش کیا تھا۔ اس کے پیچھے حقیقت یہ تھی کہ دوسری عالمی جنگ تک برطانوی سامراج تاریخی طور پہ اپنا بین الاقوامی اقتصادی و عسکری غلبہ کھوچکا تھا۔ اس میں سامراجی تسلط کو قائم رکھنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی تھی۔ جنگ کی تباہی اور خستہ حالی نے اس کا زوال مکمل کر دیا تھا۔ برطانوی افواج میں بغاوتیں ہو رہی تھیں۔ نوآبادیات میں سپاہیوں اور محنت کشوں کی سرکشیاں اور آزادی کی تحریکیں بھڑک اٹھیں تھیں۔ جنگ کے معاشی بوجھ نے داخلی مہنگائی، غربت اور انتشار میں اضافہ کردیا تھا۔ عوام میں بائیں بازو کے نظریات‘حتیٰ کہ انقلابی سوشلزم کے رحجانات بھی تیزی سے پنپ رہے تھے۔ برطانوی سامراج کے زوال کا باقاعدہ اعلان 1945ء کے انتخابات میں اپنی سامراجی سلطنت کے ناقابل تسخیر ہونے کا زعم رکھنے والے حکمرانوں کی ذلت آمیز شکست کی صورت میں ہوا۔ ان انتخابات میں ونسٹن چرچل کی قیادت میں برطانوی حکمران طبقات کی روایتی (کنزرویٹو) پارٹی کی شکست درحقیقت برطانوی سامراج کے تاریخی جاہ و جلال، رعونت اور شاہانہ وحشت و غرور کی شکست تھی۔ برطانوی عوام نے محنت کشوں کی روایتی (لیبر) پارٹی کو بھاری اکثریت سے فتح مند کیا۔

دوسری طرف امریکہ براہِ راست جنگ کا شکار نہیں تھا لیکن وہاں جنگی ایمرجنسی کے قوانین لاگو تھے۔ جن کے تحت امریکی محنت کشوں کی محنت کا بھرپور استحصال کیا گیا۔ اس بے پناہ سرمائے کو پہلے جنگ اور پھر مارشل پلان وغیرہ کے ذریعے تباہ حال یورپ اور جاپان جیسے خطوں کی تعمیر نو میں کھپایا گیا۔ جنگ کی بربادیوں اور اس کے بعد کے نئے بین الاقوامی ماحول نے سرمایہ داری کی شرح منافع کو بحال کر کے اسے ایک نئی زندگی دی۔ امریکی سرمایہ داری کو بے پناہ عروج حاصل ہوا جس کے زور پہ امریکہ نئے عالمی سامراج کے طور پر ابھرا۔ برطانوی سامراج کا سورج غروب ہو رہا تھا اور امریکہ کا چڑھ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکمران اپنی رعونت اور طاقت کے نشے میں یورپی بالخصوص برطانوی حکمرانوں اور ریاستوں کی جانب حقارت آمیز رویہ رکھتے ہیں۔

دائیں سے بائیں: مائیک پومپیو اور جیرمی ہنٹ

مذکورہ بالا دورے میں ہی چین کی کمپنی ’ہواوے‘ (Huawei) کی 5G ٹیکنالوجی کی جانب برطانوی حکومت کے مثبت رویے پر پومپیو نے انہیں ایسے ڈانٹا ہے جیسے کوئی بڑا افسر اپنے ملازم سے پیش آتا ہے۔ لیکن امریکی حکمرانوں، جن میں ٹرمپ انتظامیہ کے لوگ سرفہرست ہیں، کی بڑھکیں بھی خالی خولی ہیں۔ آج امریکی سامراج کی طاقت اور غلبہ اندر سے انتہائی کھوکھلا ہو چکا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیرمی کوربن برطانیہ کی قدامت پرستانہ سیاست کا پہلا اپوزیشن لیڈر ہے جس نے امریکی جارحیتوں کی اس حد تک مخالفت اور مذمت کی ہے۔ وہ خود کو علی الاعلان سوشلسٹ گردانتا ہے۔ آج جب سوشلزم کی مذمت میں کارپوریٹ میڈیا ہر وقت منہ سے جھاگ نکالتا ہے‘ کوربن نے سوشلزم کے نام پر ہی لیبر پارٹی کی قیادت اور پھر جو مقبولیت حاصل کی ہے وہ پچھلی کئی دہائیوں سے اس پارٹی کے کسی لیڈر کو حاصل نہیں ہوسکی۔

یہ درست ہے اُس کی مجوزہ پالیسیاں انقلابی سوشلزم کی بجائے بائیں بازو کی اصلاح پسندی پر مبنی ہیں جس کی اپنی محدودیت اور تضادات ہیں لیکن اس کے باوجود وہ نجکاری کی بھرپور مخالفت، امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانے اور ہر فرد کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے اہم شعبوں کی نیشنلائزیشن کی بات کر رہا ہے۔ عراق اور افغانستان میں لاکھوں لوگوں کے قتل عام میں شریک ٹونی بلیئر جیسے لیڈر تو لیبر پارٹی کو اس حد تک دائیں طرف لے گئے تھے کہ کنزرویٹو پارٹی کا ہی ایک حصہ معلوم ہونے لگی تھی۔ لیکن کوربن کا پارٹی کی قیادت میں آنا اس کے دوبارہ بائیں جانب جھکاؤ کی غمازی کرتا ہے۔ لیبر پارٹی دوبارہ تیزی سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ اور مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ برطانوی محنت کش طبقے اور نوجوانوں میں کوربن خاصا مقبول ہے۔ یہ کیفیت سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی گزشتہ کئی دہائیوں کی نیولبرل پالیسیوں سے عوام میں پائی جانے والی نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے تک اس صورتحال کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

لیکن پومپیو کے کوربن پر اس حملے نے نہ صر ف حکمران طبقات کی اپنی سفارتی اقدار کی دھجیاں اڑا دی ہیں بلکہ یہ بھی واضح ہوا ہے کہ برطانوی حکمران کس حد تک امریکی سامراج کے کاسہ لیس ہیں۔ اسی پریس کانفرنس میں برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے بھی اپنے آقاؤں کی تقلید کرتے ہوئے لیبر پارٹی اور اس کے رہنماؤں کوربن اور جان میکڈونل پر بھونڈی قسم کی تنقید کی۔ بائیں بازو کے ان دونوں لیڈروں نے نہ صرف وینزویلا بلکہ فلسطین اور جولین اسانج کے مسئلے پر بھی سامراجیوں سے کھل کے ٹکر لی ہے۔ اسی بدولت کوربن کو وہ مقبولیت ملی ہے کہ نوجوانوں کا جم غفیر لیبر پارٹی میں داخل ہو رہا ہے۔

دائیں سے بائیں: جیرمی کوربن اور جان میکڈونل

مائیک پومپیو نے کچھ امریکی لیڈروں کو بھی نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ درحقیقت برنی سینڈرز کو نشانہ بنا رہا تھا جس نے سوشلزم کا نام امریکی سیاست میں عام کر دیا ہے اور اگلے سال ایک عوامی پروگرام پر الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔ کوربن کی طرح وہ بھی کوئی انقلابی سوشلسٹ نہیں بلکہ ایک اصلاح پسند ہے اور خود کو ”جمہوری سوشلسٹ“ کہلانا پسند کرتا ہے لیکن ہر شہری کے لئے مفت علاج، سستی تعلیم، ماحول دوست صنعت اور ’ایک فیصد امیروں‘ کا سیاست اور معیشت پر غلبہ توڑنے کی بات کر رہا ہے اور خوب مقبولیت بھی پا رہا ہے۔ اگر اسے الیکشن لڑنے کا موقع ملتا ہے تو اس کی جیت کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے اسی امریکہ میں سوشلسٹ ہونے کا الزام کسی کی تحقیر اور تضحیک کے لئے لگایا جاتا تھا۔ آج سروے بتا رہے ہیں کہ 60 فیصد سے زیادہ امریکی نوجوان سرمایہ داری سے بیزار ہیں اور سوشلزم کی طرف مثبت رویہ رکھتے ہیں۔

سرمایہ داری کے گڑھ سمجھے جانے والے ممالک میں یہ تبدیلیاں جو دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ایک چوتھائی صدی بعد رونما ہو رہی ہیں‘ سماجی نفسیات اور عمومی سوچ میں رونما ہو رہی تبدیلیوں کی غمازی کرتی ہیں۔

وینزویلا پر امریکہ کی فوجی جارحیت سارے لاطینی امریکہ میں سامراج مخالف جنگ کو بھڑکا سکتی ہے۔ بلکہ امریکہ سمیت پوری دنیا میں سامراجیت اور اس کے نظام کی مخالفت میں نئی لہریں اٹھیں گی۔ ویت نام کی جنگ میں امریکی سامراج کی شکست فاش میں امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں کی مسلسل ایجی ٹیشن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1968ء میں پورے امریکہ میں جنگ مخالف تحریک ابھری تھی۔ آج ٹرمپ اور اس کے وحشی قسم کے حواری (جان بولٹن اور مائیک پومپیو جیسے لوگ) دوبارہ جارحیتوں کا بازار گرم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ وینزویلا، شام، نکارگوا، بولیویا، کیوبا یا ایران کے جو بھی داخلی مسائل ہو‘ ان میں سامراجی مداخلت مزید بربادیاں ہی لا سکتی ہے۔ لیکن ڈرانے دھمکانے والے جس طاقت کے آسرے اچھل رہے ہیں وہ اندر سے کھوکھلی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے برطانیہ کی طرح آج کا امریکی سامراج بھی مسلسل زوال پذیر ہے۔

افتخار عارف کے بقول

یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں!

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔ وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔