لاہور (جدوجہد رپورٹ) پیرکے روز ایک اسرائیلی وفد نے ریاض میں اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی کے ایک اجلاس میں شرکت کی ہے۔
’رائٹرز‘ نے ایک عینی شاہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ تین اسرائیلی اہلکاروں کو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے 45 ویں اجلاس میں اسرائیل کی کرسیوں پر بیٹھے دیکھا گیا ہے۔ تاہم حکام نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
دوسری جانب ایک یہودی غیر منافع بخش نیوز سروس’جے این ایس‘ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے کے اجلاس میں شرکت کیلئے اتوار کو ایک سرکاری اسرائیلی وفد پہلی بار سعودی عرب پہنچا ہے۔
ایک اور اسرائیلی اہلکار نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ وفد میں وزارت خارجہ کے بین الاقوامی تنظیموں کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور پیرس میں بین الاقوامی تنظیموں کے سفیر شامل تھے۔
عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیل کی وزارت تعلیم کے ایک مندوب اور اسرائیل کی نوادرات کی اتھارٹی کے سربراہ نے بھی اس اجتماع میں حصہ لیا۔
سعودی حکومت نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان اور یونیسکو نے بھی اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
مسلم دنیا کا پاور ہاؤس سمجھا جانے والا سعودی عرب اسلام کے مقدس ترین مقامات کا گھر ہے، جہاں اسرائیلی حکام کی عوامی سطح پر نمائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ تاہم دونوں فریقیوں کے درمیان خفیہ روابط ہمیشہ رہے ہیں، جو جزوی طور پر ایران کے مشترکہ خوف کی وجہ سے بنائے گئے تھے۔
امریکہ اپنے روایتی حلیف ریاض پر اسرائیل کے ساتھ معمول کے معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ اسی طرح کے معاہدوں پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ اس معاہدے کو ابراہیمی معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔