مظفر آباد (حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹیوں، انجمن تاجران، ٹرانسپورٹرز اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام مکاتب فکر کا مرکزی اجلاس مظفر آباد میں منعقد کیا گیا۔ ہفتہ کی شام شروع ہونے والا یہ طویل ترین اجلاس 10 گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس میں تمام 10 اضلاع پر مشتمل 30 رکنی مرکزی عوامی کمیٹی قائم کر دی گئی، جو تحریک کے مستقبل کے حوالے سے قیادت کے فرائض سرانجام دے گی۔ بل بائیکاٹ مہم کو پورے پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر تک پھیلانے کا اعلان کیا گیا۔ مظفر آباد ڈویژن میں بھی رواں ماہ سے بجلی کے بل جمع نہیں کروائے جائیں گے۔ جب تک مطالبات تسلیم نہیں ہوتے بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے گا۔ تمام اضلاع اور تحصیل صدر مقامات پر احتجاجی دھرنے دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ان احتجاجی دھرنوں میں سیاہ جھنڈے لہرائے جائیں گے اور شرکا دھرنا سیاہ پٹیاں پہنیں گے۔
مظفر آباد میں اجلاس کی میزبانی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی مرکزی انجمن تاجران کے سیکرٹری جنرل اور مظفر آباد شہر کی انجمن تاجران کے صدر شوکت نواز میر نے کی۔ شوکت نواز میر کو مظفر آباد ڈویژن کے تمام مکاتب فکر کا اعتماد حاصل تھا۔ اجلاس میں طویل بحث مباحثہ کے بعد متفقہ طور پر درج ذیل لائحہ عمل کا اعلان کیا گیا:
٭ تمام ضلعی اور تحصیل ہیڈکوارٹرز میں دھرنے جاری رہیں گے اور جہاں نہیں لگے ہوئے وہاں دھرنے دئیے جائیں گے۔ ان دھرنوں میں سیاہ جھنڈے لہرائے جائیں گے اور سیاہ پٹیاں پہنی جائیں گی۔
٭ مطالبات کی منظوری تک بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
٭ تمام اضلاع اور تحصیل صدر مقامات پر ایک ہی وقت میں ایک روز پریس کلبوں کے سامنے علامتی احتجاج کیا جائے گا۔
٭ محلہ، وارڈ، یونین کونسل، تحصیل اور ضلعی کی سطح پر عوامی کمیٹیاں بنا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک میں شامل کیا جائے گا۔ یہ کمیٹیاں عوام کو بل جمع نہ کروانے کی ترغیب دیں گی اور کنکشن کٹنے سے ہر شہری کو تحفظ فراہم کریں گی۔
٭ دیہی، یونین کونسل اور تحصیل سطح پر جلسے منعقد کئے جائیں گے اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو متحرک کیا جائے گا۔
٭ دس اضلاع میں ایک روز مشعل بردار ریلیاں منعقد کی جائیں گی۔
٭ مطالبات نہ مانے جانے کی صورت اگلے مرحلے میں حکومتی اوقات کار کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں غیر معینہ مدت تک صبح 5 بجے سے دن 2 بجے تک ہرطرح کی تجارتی اور سفری سرگرمیاں بند کر دی جائیں گی۔ دن 2 بجے سے رات 12 بجے تک شہر کھولے جائیں گے اور ٹرانسپورٹ چلائی جائے گی۔
٭ ہر دو صورتوں میں تحریک کو پرامن رکھا جائے گا اور عوام کو رضاکارانہ طور پر طے کردہ لائحہ عمل پر عملدرآمد کیلئے قائل کیا جائے گا۔
٭ خواتین کی احتجاجی تحریک میں متحرک شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے اور انہیں سپیس فراہم کی جائے گی۔
٭ تمام شہری اور ان کے نظریات تحریک کیلئے مقدم ہونگے۔ کسی قسم کا اختلافی نعرہ نہیں لگایا جائے گا۔ تقاریر، انٹرویوز اور ہر طرح کی تحریک سے متعلق گفتگو کو چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کے گرد مرکوز رکھا جائے گا۔
٭ تحریک میں شامل کوئی بھی فرد تنہا کسی حکومتی شخصیت سے مذاکرات نہیں کرے گا، صرف مقرر کردہ کمیٹی کو ہی مذاکرات کا اختیار ہو گا۔ مطالبات کی منظوری تک تحریک کو ہرصورت میں جاری رکھا جائے گا۔
٭ تنہا پرواز کرنے، چھپ کر مذاکرات کرنے، اختلافی نعروں اور گروہی اختلافات کو ہوا دینے والا فرد تحریک کا دشمن تصور کیا جائے گا۔
٭ اپنے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کیلئے پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے شہریوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ٹریڈ یونین قیادتوں سے حمایت اور یکجہتی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
٭ ریاستی جبر اور تشدد کے ذریعے تحریک کو کچلنے کی کوشش کی گئی تو پورے آزاد کشمیر میں بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے گا، نیلم جہلم سمیت منگلا ڈیم کے سوئچ یارڈ پر قبضے کی کال دی جائے گی۔
اجلاس میں طویل بحث کے بعد درج ذیل چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کیاگیا:
٭ آٹا اور دیگر اشیا خوردونوش پر فوری سبسڈی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے نیز محکمہ خوراک میں کرپشن کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
٭ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کو لوڈ شیڈنگ فری زون قرار دیتے ہوئے منگلا اور نیلم جہلم کی پیداواری لاگت پر ٹیکس فری بجلی فراہم کی جائے۔
٭ اشرافیہ بالخصوص حکمران طبقہ کو میسر غیر ضروری مراعات اور شاہ خرچیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
٭ منگلا، نیلم جہلم، گلپور، کروٹ ہولاڑ سمیت خطہ میں بجلی کے ہائیڈل منصوبہ جات کا حق ملکیت تسلیم کرتے ہوئے، حاصل شدہ آمدن سے خطہ کو حصہ دیا جائے۔
٭ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اس لئے اسے ٹیکس اور ڈیوٹی فری ریاست قرار دیا جائے۔
٭ نیلم جہلم منصوبہ سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلہ پر فی الفور عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
٭ منگلا ڈیم کی تعمیر کے دوران کئے گئے تمام وعدوں پر فوری عمل کیا جائے، نیز رٹھوعہ ہریام پل کا تعمیراتی کام فوری مکمل کیا جائے۔
٭ طلبا یونین کو فی الفور بحال کر کے الیکشن کروائے جائیں۔
٭ بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کا تعین کرتے ہوئے ان کو فی الفور فنڈز فراہم کئے جائیں۔
٭ قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی فوری بحالی یقینی بنائی جائے اور مختص فنڈ میں اضافہ کیا جائے۔
٭ کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں سپیشل کمیونیکیشن کے علاوہ دیگر سیلولر کمپنیوں کے نیٹ ورک کی فراہمی کوبھی یقینی بنایا جائے۔نیز انٹرنیٹ کی 4 جی سروس کا معیار بہتر کیا جائے۔
٭ سیاحت کے فروغ کے لئے غیر ملکی سیاحوں پر عائد تمام پابندیاں فوری ختم کی جائیں۔