پاکستان

کشمیر کی تحریک اور خواتین کی جدوجہد

ریخانہ اختر

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں تقریباََپچھلے 5 ماہ سے بجلی کے بلوں میں بے جا ٹیکسزکے خلاف اور آٹے پر سبسڈی کی بحالی کے لیے مختلف شہروں میں پر امن احتجاج اور دھرنے دیے جا رہے تھے۔ صورتحال اس وقت ایک اہم موڑ اختیار کر گئی جب گزشتہ ماہ عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کی طرف سے بل نہ جمع کروانے کی تحریک شروع ہوئی۔ اس فیصلے کو بھرپور عوامی پذیرائی ملی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سول نافرامانی کی یہ تحریک پوری ریاست کے چپے چپے میں پھیل گئی۔ پانچ ستمبر کو مظفرآباد، راولاکوٹ، کوٹلی،میرپور اور دیگر علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے شٹرڈؤن اور پہیہ جام ہڑتال کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے منظم کیے اور بجلی کے بلوں کو جلایا اور دریا برد کیا گیا۔

عامیانہ سوچ اس جاندار تحریک کو سازش اور کسی مخصوص ایجنڈے کی کارفرامائی قرار دے رہی ہے۔ لیکن درحقیقت اس خطے میں دہائیوں سے چلا آ رہا معاشی جبر،بیروزگاری اور اشرافیہ کی لوٹ ماروہ عوامل تھے جس نے اس خطے کے محکوم عوام کو اس ظالم نظام کے خلاف باہر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور کیا۔

18 لاکھ کشمیری اس چمن زار کو خیر باد کہہ کر روزگار کے لیے مشرق وسطیٰ اور یورپ میں جلاوطن ہونے پر مجبور ہیں۔ علاج معالجہ کی سہولیات انتہائی ناقص،غیر معیاری اور تقریباََ ناپید ہیں۔ سڑکیں اور دیگر انفراسٹکچرکھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ خواتین نہ تو جلاوطنی اختیار کر سکتی ہیں اور روزگار تو نہ ہونے کے برابر ہے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کر کہ بھی گھروں میں بیٹھی ساری عمر گزار دیتی ہیں۔

اس صورتحال میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 9 روپے سے بڑھا کر 23 روپے فی یونٹ کر دی گئی اور ٹیکسز کی اتنی بھرمار ہے کہ بجلی کی قیمت سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ آٹے کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے اور سونے پہ سہاگا یہ کہ آٹے کی شدید قلت ہے اور لوگ کئی کئی دنوں تک آٹے کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ 3 ہزار میگاواٹ سے زاہد بجلی پیدا کرنے والے اس خطے کی ضرورت صرف 400 میگاواٹ ہے۔جو ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ مفت بجلی تو دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

محنت کش عوام کی ہر تحریک کی طرح اس تحریک میں لوگوں کا جوش وخروش اتنا زیادہ ہے کہ کسی بھی دھرنے میں نعرے لگاتے نوجوان ایسے لگتے ہیں جیسے کوئی تہوار یا جشن منایا جا رہا ہے۔ محنت کش عوام جب اپنی نجات کے لیے نکلتی ہے تو ہر تعصب، ہر جبر اور مشکل کو چیر کر ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے اس وقت کشمیر میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔بچوں کے لیے تو جیسے یہ ایک میلا لگا ہوا ہے جہاں وہ اپنے نعروں اور ترانوں سے نئی دھنیں تخلیق کر رہے ہیں۔

تاہم بے حس حکمران اس تحریک کا پہلے تو مذاق اڑاتے رہے اور اب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ یہ حکمران پاکستانی حکمران اشرافیہ کے تنخوادار کلرک سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ان کے اسلام آباد میں بیٹھے آقا آئی ایم ایف کی غلامی میں اپنے عوام پر جبرو استحصال کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔بجلی اور پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے آگے سجدہ ریز ہیں لیکن سامراجیوں نے انکی گریہ زاری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور یہ جبر اور وحشت سے لوگوں کو خاموش کروانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

مطالبات پر کسی قسم کا ردعمل دینے کی بجائے مظفرآباد میں بیٹھے حکمرانوں نے کریک ڈاؤن کا حکم نامہ جاری کیااور دھرنوں کو اکھاڑنے اور قیادت کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس عمل نے تحریک کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ دھرنے دوبارہ لگادیے گئے ہر وارڈاور محلے کی سطح پر عوامی ایکشن کمیٹیاں بنناشروع ہوگئی۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی مطالبات کی یہ تحریک سماج کی تمام تر پرتوں میں اپنی جڑیں بنا چکی ہے۔

اکتوبر کے آغاز میں صورتحال اور بھی دلچسپ ہو گئی جب حکومت نے اکتوبر کے بل بھیجے۔لوگوں نے دھرنوں میں بل جمع کرا کر انکو آگ لگادی اور کئی علاقوں میں بلوں کو دریاؤں کے سپرد کرتے ہوے پاکستان کی طرف روانہ کر دیا۔

اس کے ردعمل میں حکومت نے کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔دھرنے اکھاڑ دیے گئے اور کئی متحرک افراد کو گرفتار کیا گیا اور مختلف علاقوں میں متحرک لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔عوام کو حراساں کرنے کے لیے پنجاب پولیس منگوانے کی افواہیں اڑائی گئیں۔ہراساں کرنے کے لیے سوشل میڈیاپرکئی طرح کے حکومتی احکامات جاری کیے تاکہ خوف و ہراس پھیلا کر ریاستی رٹ بحال کی جا سکے۔لیکن ان اقدامات نے بغاوت کے شعلوں کو ہوا دینے کا کام کیا۔عوامی ایکشن کمیٹی نے میٹنگ کر کہ احتجاج کے دائراہ کا ر کو وسیع کرنے کا پورا لائحہ عمل دیا۔ جس کے تحت 5 اکتوبرکو پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال، 10 اکتوبر کو خواتین اور بچوں کے احتجاج اور 17 اکتوبر کو طلبہ احتجاج کی کال دی گئی۔

5 اکتوبر کا احتجاج کشمیر کی تاریخ کا سب سے کامیاب احتجاج تھا۔لوگوں کے جذبے اور حوصلے بلند تھے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کے تحریک اپنے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ تاہم ابھی نئے افق کھلنا باقی ہیں بالخصوص محنت کش طبقے کی شمولیت تحریک کی کامیابی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ تحریک کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے کہ ابھی تک منظم محنت کش طبقے کو تحریک میں شامل کرنے کے لائحہ عمل کا فقدان ہے۔ریاست کی اصل طاقت منظم محنت کش طبقہ ہے جو تمام تر ریاستی امور چلاتا ہے۔تاہم اس تحریک کو محنت کش طبقے کی ایک خاموش حمایت حاصل ہے۔ تحریک کے اگلے مرحلے پر فیصلہ کن فتح کے لیے محنت کش طبقے کی عملی حمایت درکار ہو گی۔

بروز منگل 10 اکتوبرکشمیر کی تاریخ میں پہلی بار عام گھریلو خواتین،طالبات،محنت کش خواتین جو تمام تر معاشی مشکلات کو براہ راست برداشت کرتی ہیں عملی طور پر اس تحر یک کا حصہ بنیں گی اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں گی۔چند ماہ پہلے تک کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کشمیر کی خواتین اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکلیں گی۔خود شاید کال دینے والے بھی یہ نہ جانتے ہوں گے وہ ایک تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔مگر تحریکوں کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں جو افراد کے انفرادی فیصلوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ کئی رجعتی عناصر کوسڑکوں پر نکلی، حق مانگتی محنت کش خواتین شایدپسند نہ آئیں۔فتوے بھی نازل ہوں گے۔ مگر سماج کی نصف آبادی کو ایک طرف رکھ کر سماج میں کوئی تبدیلی لانا دیونے کا خواب ہے۔

1917ء کے انقلاب روس کا آغاز بھی خواتین کے ایک مظاہرے سے ہوا تھا۔ حالیہ دور میں افغانستان میں تعلیم کے لیے کوڑے کھاتی اور موت کی سزائیں پاتی خواتین بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔کشمیر کی تحریک بھی اسی طبقاتی لڑائی کی ایک کڑی ہے جو لڑی جا رہی ہے۔ جب راولاکوٹ سے دھرنا اکھاڑا گیا تو سب سے پہلے اس دھرنے میں پہنچنے والی جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی انقلابی خواتین نے دوبارہ دھرنا شروع کیا تھا۔ جو اس خطے کی خواتین کی بہادری اور سیاسی شعور کی غمازی کرتا ہے۔

ہمارے گھروں میں کھانے پکاتی،کپڑے دھوتی، بچے پالتی اور زندگیوں کو ترتیب دینے والی یہ مخلوق بھی عقل رکھتی ہے،اور طاقت بھی۔مہنگائی جب ناقابل برداشت حد سے بڑھ جائے توسب سے پہلے چولھے انکے ہی بجھتے ہیں۔آٹا خریدنا بس سے باہر ہو تو بچے ان کے آگے ہی بلکتے ہیں۔

خواتین نے دہائیوں یہ ناانصافیاں دیکھی ہیں۔انکی ساری بیماریاں اس غیر منصفانہ سرمایہ دارانہ نظام کی ہی دی ہوئی ہیں۔ یہ سماج کی تخلیق کار ہیں۔یہ ریاست میں برابر کی ٹیکس دھندہ شہری ہیں۔ اپنے مرد محنت کشوں کے شانہ بشانہ لڑنا ان کا بنیادی حق ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں کی مشترکہ لڑائی ہے۔یہ ایک استحصالی نظام کے خلاف عام عوام کی لڑائی ہے۔جس میں مرد وزن دونوں شامل ہیں۔پھر کون جانے کہ تحریک میں انکی شمولیت تحریک کو کس مقام پر لے جائے گی۔ کشمیر کی خواتین کی یہ لڑائی اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہوئے پورے جنوب ایشیاکی خواتین کے لیے جدوجہد کی راہ متعین کرے گی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts