پاکستان

موت حکمران بانٹ رہے ہیں، زندگی ہم چھین کر لیں گے

التمش تصدق

معمول کے ادوار میں جب محنت کش طبقہ خاموشی سے حکمران طبقے کا ظلم و جبر برداشت کر رہا ہوتا ہے حکمران طبقہ خود کو دیوتا تصور کرنے لگتا ہے۔وہ محنت کشوں کا استحصال کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے اس کی طاقت کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ غلاموں میں یہ جرأت کہاں ہے کہ وہ ہمارے سامنے سر اٹھا سکیں۔عام حالات میں محکوم طبقے پر بھی حکمران طبقے کے نظریات غالب ہوتے ہیں۔محنت کش طبقہ خود کو حکمران طبقے کی دولت اور ریاست کے مقابلے میں حقیر، کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے۔جبر و استحصال اور محرومیوں کو مقدر سمجھ کر برداشت کرتا ہے،لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے،ظلم حد سے جب بڑھتا ہے تو بغاوت ہوتی ہے۔وہ بغاوت حکمران طبقے کی ریاست،ان کی سیاست، ان کے نظریات، اخلاقیات اور نفسیات کے خلاف ہوتی ہے، جو غربت اور محرومی کو محنت کشوں کا مقدر قرار دیتی ہے۔غلام مزید غلامی سے انکار کر دیتے ہیں۔ان میں اپنے ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں گزشتہ 5 ماہ سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور آٹے کی سبسڈی کی بحالی کے لیے جاری تحریک نے نوجوانوں، محنت کشوں، خواتین،طلبہ، کسانوں اور سماج کی دیگر پرتوں نے جس شعور، اِستقامت، حوصلے اور صبر کا مظاہرہ کیا،اس کی مثال خطہ کی تاریخ میں ماضی میں نہیں ملتی ہے۔عوام نے حکمران طبقے کے انفردایت اور خود غرضی پرمبنی نظریات اور تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے اشتراکی فکرو عمل کے ذریعے حکمران طبقے کی تحریک کے خلاف ہر سازش کا ناکام بنایا۔ریاست کی جانب سے گرفتاریوں اور اشتعال انگیزی کے باوجود محنت کش عوام نے صبر کا مظاہرہ کیا۔مفت بجلی کی مانگ کرنے والے محنت کشوں نے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر کے مفت بجلی چھین کر لی ہے،جس سے محنت کشوں میں اپنی طاقت کا احساس پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے ابھی تک ریاست اور حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔

اس تحریک نے جہاں محنت کش عوام کی پوشیدہ انقلابی صلاحیتوں اور اِجتماعی طاقت کا اظہار کیا ہے، وہاں حکمران طبقے کا تاریخی طبقاتی کردار اور محنت کش طبقے کے حوالے سے حقارت آمیز رویہ بھی آشکار کیا ہے۔پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیر اعظم انوار الحق کا کہنا ہے مفت بجلی نہیں موت مل سکتی ہے۔سابق وزیراعظم فاروق حیدر صحافی کے تحریک کے حوالے سے سوال پر غصے سے آگ بگولا ہو گئے اور صحافی سے حقارت آمیز لہجے میں سوال کیا کہ کون سی تحریک؟ کیا یہ تحریک آزادی کشمیر ہے؟ کیا یہ تحریک پاکستان ہے؟ آٹے اور بجلی کی تحریک لیے کہتے ہیں تحریک ہے۔سابق اور موجودہ وزیر اعظم کے ان بیانات سے حکمران طبقے کا محنت کشوں کے حوالے سے رویہ واضح ہوتا ہے۔فاروق حیدر کو روٹی اور بجلی کا مسئلہ معمولی اور چھوٹا لگتا ہے،بلکہ کوئی مسئلہ ہی نہیں لگتا۔ انہیں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے لاکھوں باسی پاگل لگ رہے ہیں،جو بجلی اور سستے آٹے کے لیے سڑکوں پر ہیں۔

یہ محض فاروق حیدر کی سوچ کا اظہار نہیں ہے،بلکہ اس طبقے کی سوچ کا اظہار ہے،جس کے لیے واقعی،روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج، روزگار اور بجلی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوں کے ان کو یہ سب دستیاب ہے۔ جب محنت کش عوام ان مسائل کے لیے احتجاج کرتے ہیں،تو یہ ان کو فروعی مسائل نظر آتے ہیں۔ان کو محنت کشوں کی جدوجہد کے مقاصد چھوٹے محسوس ہوتے ہیں۔یہ حکمران طبقے کا تاریخی کردار ہے۔ انقلاب فرانس کے دوران ملکہ نے مشیروں سے دریافت کیا کہ یہ لوگ کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟ ملکہ کو بتایا گیا کہ ان کے پاس روٹی نہیں ہے،تو ملکہ کا کہنا تھا روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں۔جو ضروریات حکمران طبقے کے لیے معمولی ہیں،محنت کش طبقہ ان بنیادی ضروریات کے لیے سمندر میں ڈوب کے مرتا ہے، عرب کے تپتے صحراؤں میں عمر بھر جلتا ہے،خود کشی کرتا ہے، گردے بیچتا ہے اور یہاں تک کہ بچوں کو بھی فروخت کرنے پر مجبورہوتا ہے۔

حکمران طبقے اور محنت کشوں کے لیے آزادی کے معنی اورمفہوم مختلف ہے۔حکمران طبقے کے لیے آزادی سے مراد زمین کے ٹکڑے کا حصول ہے۔محنت کشوں کے لیے آزادی ان کی بنیادی ضروریات زندگی سے آزادی ہے۔ان حکمرانوں کے لیے مذہبی فرقہ وارانہ فسادات ہی تحریک آزادی اور تحریک پاکستان ہے، جس میں غریبوں کا لہو پانی کی طرح بہایا گیا۔اس حقیقی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ سے یہ حکمران جان بوجھ کر نظریں چراتے ہیں،جو جموں کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے طرف سے لگائے گئے ٹیکسوں کے خلاف تھی۔ وہ تحریک کسانوں اور مزدوروں کی تھی،جن میں ہندو،مسلم، سکھ سب شامل تھے۔اس وقت بھی جموں کشمیر کے کسانوں نے مالیہ دینے سے انکار کر کے سول نافرمانی کی تھی۔ ویسے ہی آج بل جمع کروانے سے انکار کر کے کی گئی ہے۔موت یہ نظام اور یہ حکمران طبقہ بانٹ رہا ہے اور زندگی ہم محنت کش چھین کر لیں گے۔

 

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔