مارکسی تعلیم

مارکس کے خطوط

(ذیل میں مارکس کے بعض مختصر خطوط شائع کئے جا رہے ہیں۔ یہ خطوط علیحدہ علیحدہ پہلے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان خطوط میں کارل مارکس بعض ایسے سوالات بارے اپنا موقف بیان کرتا ہے جو آج بھی مزدور طبقے اور اس کی قیادت کے لئے انتہائی اہم ہیں: مدیر)

نیو یارک میں ویڈیمیر کے نام خط

لندن،
5 مارچ 185۔

جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، جدید معاشرے میں طبقوں کے وجود یا ان کے مابین جدوجہد بارے دریافت کرنے کا سہرا کسی صورت میرے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ مجھ سے بہت پہلے بورژوا تاریخ دان اس طبقاتی جدوجہد کے تاریخی ارتقا جبکہ بورژوا معیشیت دان طبقوں کی معاشی بنت بارے بیان کر چکے تھے۔

میں نے جو نیا کیا وہ یہ ثابت کرنا تھا:
۱)کہ طبقوں کا وجود پیداوار میں ارتقا کے دوران مخصوص تاریخی مرحلے سے جڑا ہوتا ہے،
۲)کہ طبقاتی جدوجہد لازمی طور پر پرولتاری آمریت کا راستہ ہموار کرتی ہے،
۳) کہ یہ پرولتاری آمریت ہی تمام طبقوں کے خاتمے اور غیر طبقاتی سماج کے قیام کی جانب جانے کے لئے ایک عبوری مرحلہ ہے۔

نیو یارک میں بولٹ کے نام خط (ایک اقتباس)

محنت کش طبقے کی سیاسی جدوجہد کا حتمی مقصد،یقینی طور پر، اپنے طبقے کے لئے سیاسی طاقت کا حصول ہے،اور اس کے لئے ضروری ہے کہ محنت کش طبقے کی ایک تنظیم موجود ہو جو ایک مخصوص حد تک بڑی ہو چکی ہو،اور یہ تنظیم معاشی جدوجہدوں کے نتیجے میں پنپ کر سامنے آئی ہو۔

دوسری جانب، ہر وہ تحریک جس میں محنت کش طبقہ ایک طبقے کے طور پر حکمران طبقے کے مقابل آئے اور باہر سے حکمران طبقے پر دباو کے ذریعے اسے مجبور کرے، وہ سیاسی تحریک ہے۔

مثال کے طور پر،کسی ایک فیکٹری یا کسی ایک شعبے میں روزانہ کے اوقات کار میں کمی کے لئے کسی ایک سرمایہ دار کے خلاف ہڑتال وغیرہ واضح طور پر ایک معاشی جدوجہد ہے۔

دوسری جانب، آٹھ گھنٹے کام وغیرہ کے لئے چلنے والی تحریک کو قانونی شکل دینا ایک سیاسی تحریک کے مترادف ہے۔ اس طرح سے علیحدہ علیحدہ معاشی جدوجہدوں کے بطن سے ہر جگہ ایک سیاسی تحریک جنم لیتی ہے،یعنی، طبقاتی تحریک پیدا ہوتی ہے،جس کا مقصد ہوتا ہے اپنے مفادات کو عمومی شکل میں لاگو کرنا، ایک ایسی شکل میں لاگو کرنا جو عمومی بھی ہو اور سماجی طور پر طاقت کی حامل بھی ہو۔

ایسی تحریکیں اس بات کی متقاضی ہوتی ہیں کہ ان تحریکوں کے جنم لینے سے پہلے ایک مزدور تنظیم موجود تھی،جبکہ جس حساب سے یہ تحریکیں چلیں گی اسی حساب سے یہ تنظیم بھی ترقی کرے گی۔


ہامبرگ میں مقیم بلوس کے نام

1877میں جرمنی کے شہر گوتھا میں جرمن سوشل ڈیموکریٹس کی مشہور کانگرس ہوئی جہاں سیاسی رہنما دہرنگ کے حامیوں نے کافی شور و غوغا کیا۔ 30 اکتوبر نومبر6، 1877 کو لکھے گئے ایک خط میں بلوس نے مارکس سے پوچھا کہ کیا جرمنی میں پارٹی کارکنوں سے وہ اور اینگلز ناراض ہیں۔اس حقیقیت کا ادراک کرتے ہوئے کہ جرمن مزدور مارکس اور اینگلز کی تحریریں پہلے کی نسبت زیادہ توجہ سے پڑھ رہے ہیں، بلوس نے اپنے خط میں لکھا کہ سوشل ڈیموکریٹک ایجی ٹیشن کا نتیجہ ہے کہ وہ دونوں جرمنی میں اس قدر مقبول ہیں جس کا وہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ ذیل میں مارکس کا جوابی خط پیش کیا جا رہا ہے:

لندن۔


10 نومبر 1877۔

میں (بہ الفاظِ ہینے) ’ناراض نہیں‘،نہ ہی اینگلز غصے میں ہے۔ ہم دونوں شہرت بارے رتی برابر پروا نہیں کرتے۔اس کا مثلاََایک ثبوت یہ ہے کہ شخصیت پرستی سے بیزاری کی وجہ سے میں نے کبھی اجازت نہیں دی کہ انٹرنیشنل سے وابستگی کے دوران، مختلف ملکوں سے مجھے موصول ہونے والے تعریفی خطوں کی کبھی بھی تشہیر نہیں کی،نہ کبھی ایسے خطوں کا جواب دیا۔ ہاں اگر کبھی ایسا کیا بھی تو اس کا مقصد سرزنش کرنا تھا۔

جب میں اور اینگلز پہلی بار خفیہ ’کیمونسٹ سوسائٹی‘ کے رکن بنے تو یہ ٹھان لی کہ ہر اس چیز کو تنظیم کے دستور سے ختم کر دیں گے جس کے نتیجے میں اتھارٹی بارے توہم پرستانہ یقین پیدا ہوتا ہو(بعد ازاں لاسال نے اپنا اثر و رسوخ ہماری ان کوششوں پر پانی پھیرنے کے لئے استعمال کیا)۔

(یہ خط پہلی بار 1908 میں شائع ہوا۔ خفیہ کیمونسٹ سوسائٹی سے اس خط میں مراد’لیگ آف دی جسٹ‘ہے۔جون 1847 میں مارکس اور اینگلز نے اس تنظیم کا دستور لکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب لیگ سے وابستہ حلقوں نے اس دستور کا جائزہ لے لیا تو لیگ کی دوسری کانگرس میں اس کی جانچ پڑتال ہوئی اور آخر کار یہ دستور 8 دسمبر1847 کو مظور کر لیا گیا)۔

(انگریزی سے ترجمہ: فاروق سلہریا)

 

Roznama Jeddojehad
+ posts