نقطہ نظر

سرمایہ دارانہ سماج کا پاگل پن

التمش تصدق

انسان کیا سوچتا ہے،اس سوچ کا تعین وہ خود نہیں حالات کرتے ہیں۔جو سوچیں انسان کو پریشان کر رہی ہیں،وہ اس کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں،بلکہ ان حالات کی پیداوار ہیں،جن میں وہ زندگی بسر کر رہا ہے۔موجودہ سماج میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثریتی انسان غیر انسانی ماحول، معاشی مشکلات اور سماجی گھٹن کی وجہ سے مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہیں۔محض محنت کش طبقہ ہی نہیں بلکہ سارے سماج کی ہی کیفیت پاگل خانے جیسی ہے۔جنگی جنون ہو یا نسل پرستی یا مذہبی انتہا پسندی،یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے پاگل پن کا کھلا اظہار ہے۔فلسطین میں معصوم بچوں کا قتل عام یا سمندر میں ڈوبتے ہوئے انسانوں کی موت کا تماشا دیکھنا پاگل پن نہیں تو اورکیا ہے؟

سرمایہ دار طبقے کو منافعوں کی ہوس پاگل کر دیتی ہے۔یہ حکمران طبقہ منافع کی ہوس میں ماحولیاتی تباہی کی صورت میں اسی کشتی میں چھید کر رہا ہے،جس میں وہ خود بھی سوار ہے۔اسی پاگل پن کا اظہار پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ سے لے کر اب تک بیشمار جنگوں اور جانہ جنگیوں میں ہو چکا ہے۔ حکمران طبقے نے منڈیوں پر قبضے کی لڑائی میں کروڑوں انسانوں کے خون کی ندیاں بہائیں۔حکمران طبقہ اور اس کی نمائندہ ریاستیں اپنے معاشی اور عسکری مفادات کے لیے جنگوں میں ایٹم بم استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے،جس کا بڑے پیمانے پر استعمال اس کرہ ارض پر ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے حکمران طبقہ جنگیں کیوں کرتا ہے؟ جب اسے معلوم ہے کہ موجودہ جدت کے عہد میں عالمی جنگ کی صورت میں کرہ ارض سے زندگی ہی ختم ہو جائے گی،تو اس میں اس کا کیا فائدہ ہے؟حکمران طبقہ کی سوچ کا تعین بھی وہ خود نہیں بلکہ یہ نظام کرتا ہے،جس نظام میں وہ حکمران طبقہ ہے۔نظام کے تضادات اور تقاضے انہیں وہی کرنے پر مجبور کرتے ہیں،جو اس نظام کی سامراجی ریاستوں کی ضرورت ہے۔
سرمایہ دارنہ نظام کی بنیاد نجی ملکیت پر قائم ہے۔نجی ملکیت کے تنازعات اور تضادات ہی ہیں،جو خاندان سے لے کر ریاستوں کی سطح پر اپنا اظہار کر رہے ہیں، کیوں کہ خاندان نجی ملکیت کے تحفظ کرنے والا بنیادی یونٹ ہے اور ریاست اس ملکیت کے تحفظ کا مرکزی ادارہ ہے۔اس لیے اس نظام میں افراد کے تعلقات ہوں یا ریاستوں کے مشترکہ مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔جہاں مفادات متضاد ہوں وہاں تنازعات اور تضادات سماج کی نچلی سطح پر انفرادی لڑائی جھگڑوں کی صورت میں اپنا اظہار کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر قومی اور عالمی جنگوں کی صورت میں اظہار کرتے ہیں۔

اس پاگل پن کا کیا علاج ہے؟ نجی ملکیت پر مبنی نظام میں پروان چڑھانے والی سوچ انفرادیت اور خود غرضی پر مبنی ہوتی ہے۔اس لیے حکمران طبقے کی دانش ہر اجتماعی مسئلے کا بھی انفرادی حل تجویز کرتی ہے۔بڑھتے ہوئے نفساتی امراض کے خلاف حکمران طبقہ اگر کوئی اقدامات کرے گا تووہ زیادہ سے زیادہ ذہنی امراض کے ہسپتال قائم کرے گا،جہاں ڈاکٹر مریضوں کا سکون آور ادویات کے ذریعے علاج کرنے کی کوشش کریں گے۔ماہرین نفسیات مریض کو مثبت سوچ رکھنے کا مشورہ دیں گے۔جب کسی فرد کو دو دن بعد گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور راشن کے پیسے ادا کرنے ہوں اور اس کے پاس پیسے نہ ہوں تو وہ کیسے مثبت سوچ سکتا ہے؟فیکٹری میں مشینوں کے شور میں کام کرنے والا مزدور کیسے مثبت سوچ سکتا ہے؟ قرض کے بوجھ میں دبا ہو اشخص کیسے مثبت سوچ سکتا ہے؟جنگ کی آگ میں جلنے والے انسان کیسے مثبت سوچ سکتے ہیں؟ہر ایک انسان کو روند کر آگے بڑھنے کی لڑائی میں مصروف شخص کیسے مثبت سوچ سکتا ہے؟منافعوں کی ہوس میں اندھا انسان کیسے مثبت سوچ سکتا ہے؟منڈی کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اپنے طبقے سے نیچے گرنے والا انسان کیسے مثبت سوچ سکتا ہے؟

حکمران طبقے کے دانشور حکمرانوں طبقے کے جنگی جنون اور پاگل پن کو کنٹرول کرنے کے لیے امن کانفرنسوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ جنگ کے مہلک اثرات سے آگاہ کرتے ہیں،لیکن جنگوں کو جنم دینے والے نظام کے خلاف ایک لفظ بھی ادا کرنے سے قاصر ہیں۔یہی صورتحال ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے ہے، جس سے آگاہی کے لیے ماحولیاتی بحران کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس تباہی کا ذمہ دار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کی بجائے تمام انسانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے،اور حل کے طور پر انفرادی اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔یہ ایسا ہی علاج ہے،جیسے کوئی فرد معاشی مشکلات کی وجہ سے پریشان ہو اورمشکلات کو ختم کیے بغیر نشہ آور ادویات کے ذریعے اس پریشانی کو ختم کیا جائے۔اس سماج میں پائے جانے والے زیادہ تر نفسیاتی مسائل کا تعلق حیاتاتی نہیں بلکہ سماجی ہیں۔

سماجی تبدیلی کے بغیر تبلیغ کے ذریعے نہ تو حکمرانوں کو جنگوں سے روکا جا سکتا ہے اورنہ ہی ماحولیاتی بربادی سے باز رکھا جا سکتا ہے۔انفرادی طور پر کسی انسان کا ذہنی توازن بگڑ جائے،تو وہ خود کو اور دوسرے چند لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے،جبکہ حکمران طبقہ اپنے ساتھ ساتھ نسل انسانی کو بھی اجتماعی خودکشی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔سرمایہ دارانہ سماج کے پاگل پن کا خاتمہ انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت اور منافعوں کی ہوس پرمبنی نظام کا خاتمہ کر کے کیا جا سکتا ہے۔اشتراکی سماج ہی انسان دوست ماحول مہیا کر سکتا ہے،جہاں انسان، انسان کا دشمن نہیں ہو گا،جہاں مذہبی، لسانی اور قومی تعصب نہیں ہو گا۔جہاں کوئی ملک، کوئی ملکیت اور کوئی سرحد نہیں ہو گی، جس کے لیے لڑا جائے۔جہاں تعلیم، علاج،روزگار، مکان ہر انسان کو دستیاب ہو گا۔جہاں کوئی انسان امیر کوئی غریب نہیں ہو گا۔جس وجہ سے نہ کوئی احساس کمتری اور نہ احساس برتری جیسے نفسیاتی مرض کا شکار ہو گا۔تب ہی انسان مثبت سوچ سکتا ہے۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔