پاکستان

اونگھتے کان اور جرس کی پکار

قمر الزماں خاں

ماضی کے کنٹرولڈ ‘جمہوری عمل’ اور 10 انتخابات کے بعد پاکستان میں جمہوری، انسانی حقوق اور آزادیاں بڑھنے کی بجائے سلب ہوتے ہوتے سکڑتی جا رہی ہیں۔ اب تو ماضی جیسا کنٹرولڈ "آزادانہ” انتخابی عمل بھی ممکن نہی رہا ہے بلکہ 2023 میں تو علم نجوم کے بغیر ہی ہر کسی کو پتا چل گیا ہے کہ اگلی حکومت’ کس کی، کس قسم کی اور کتنے اختیارت کی حامل ہو گی۔ پاکستانی جمہوریت کی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ پانچ سال کے لئے منتخب ہوتی ہے اور وزیر اعظم کو درمیانے سالوں میں ہی چلتا کر دیا جاتا ہے۔

آج پاکستان میں قومی اکائیاں اور مرکز مختلف قطبین پر ہیں۔ ایک طرف مقتدرہ کی پوری کوشش ہے کہ 18 ویں ترمیم میں مانے گئے صوبائی حقوق پھر سے واپس مرکز کے پاس چلے جائیں، وجہ مالی کنٹرول ہے۔ اس نکتے پر اقتدار کی بارگینگ اور بلیک میلنگ کی جاتی رہی ہے۔ حکمران طبقہ قومی حقوق کو دل سے تسلیم نہیں کرتا لہذا اب 18 ویں ترمیم کی سرجری پر نون اور پنڈی ایک پیج پر نظر آ رہے ہیں۔ بلوچستان اور وزیرستان کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا تک ممکن نہیں رہا۔ بھائیوں بیٹوں کی لاشیں اٹھانے والی مائیں، بہنیں، حریت پسند خواتین تربت سے چلی اور کوہساروں میں رواں دواں ہیں۔ ان کو انصاف، حق، عدل اور بنیادی حقوق چاہئے۔۔۔۔یہ کہیں ہوں گے! تو ان کو ملیں گے۔ ان کا قافلہ سوکھے دہن سے نحیف آوازوں مگر طاقت ور خیالات کے نعرے بلند کرتا نامعلوم منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا’ گن پوائنٹ پر "آزاد” ہے۔

کشمیر اور فلسطین میں مظالم پر بات ہو سکتی ہے مگر پاکستان کی مظلوم قوموں کے حقوق کی بات غداری قرار دی جاتی اور اس کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔

"منتخب” ایوانوں کے جمہوری سپیکرز اور چیئرمین’ غیر جمہوری طرز سے منتخب ہوتے ہیں تاکہ ایوانوں میں "آوازوں” کو دبانے کے لئے پپٹ بنائے جا سکیں۔ اس جمہوریت سے فیض یاب ہونے والے ارب پتی، وڈیرے، سردار، کارٹیل، لینڈ مافیاز چھڑی سے کھینچی لائن پر چلنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

اس نظام کی ترقی اور انتظامی اہلیت کی انتہاء یہی ہے کہ عام انسان کو پینے کے لئے نہ صاف پانی میسر ہے، حتی کی خریدنے پر بھی دودھ کی جگہ ہلاکت خیز کیمیکل ملتا ہے۔ چینی، کھاد، چاول، آٹا، ادویات کی قیمتوں اور سپلائی پر مافیاز کنٹرول ہے۔

پاکستان معاشی میدان میں عملی طور پر سامراج کی کٹھ پتلی بن چکا ہے۔ روزمرہ استعمال کی کئی اشیاء کے نرخ تک ائی ایم ایف کے آفیشلز طے کرتے ہیں۔

پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیز پر بنیادی کنٹرول کسی بھی "منتخب” پارلیمنٹ کا نہیں ہوتا بلکہ یہ سب بیرون ملک (مغربی، خلیجی اور مشرقی سامراجی طاقتیں) طے ہوتا اور غیر منتخب قوتیں عمل درآمد کراتی ہیں۔ اس طبقاتی اور کنٹرولڈ انتخابی عمل میں "منتخب” ان طوطوں سے کوئی پوچھنے کی زحمت تک نہیں کرتا کہ "امن اور جنگ” کی وارداتوں میں ان کی رائے کیا ہے۔ چالیس سال بعد کلاسیفائیڈ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کی پالیسیز کا تعین کون، کیوں اور کس طرح کرتا رہا ہے۔

پاکستانی مدرسوں کو سعودی عرب کے پیسے سے’ مخصوص عقاید پر چلانے، فتوی سازی، جہاد یا فساد کے معاملات کی نظریاتی نگرانی دین کے ٹھیکے دار کرتے ہیں۔ جب کہ سامراجی جنگوں، خانہ جنگیوں، پراکسی فسادات، تجارت، سرمایہ کاری، غیر ملکی اجارہ داریوں کی لوٹ مار کے لئے ملکی اداروں کی نج کاری سمیت سامراجی پالیسیوں کی تکمیل کے لئے سی آئی اے سے آئی ایم ایف تک پالیسی ساز ہوتے ہیں۔ ہمالیہ سے اونچی دوستی کے لئے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں پر بنیادیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ پہلے پہل شاہ ایران کی مضبوطی کے لئے خطہ بلوچستان کی پس ماندگی کو تازہ سانس نہ لینے دی جاتی تھی۔ اس دوران 23 مارچ اور 14 اگست کو جس آزادی، خوشحالی اور ترقی کے گیت گائے جاتے ہیں اس کی عملی تعبیر کے لئے کرنے کو کچھ نہ تھا اور نہ ہی اب بھی ہے۔

پھر یہ الیکشن، چناؤ، پارٹیاں، پارلیمنٹ، انٹرا پارٹی ڈرامے، جمہوری انتقام کے فسانے، لیول پلیئنگ فیلڈ کے ترانےعوام اور ان کی رائے کا تمسخر اڑانے کے سوا کیا ہے ؟ اسٹیبلشمنٹ کے جال اور ان پر بدل بدل کر دل و جان سے سیاسی بٹیروں کے جھنڈوں کا بیٹھنا اس پیار بھرے تھیٹر کے بدلتے مناظر طرح ہے۔ کچھ بھی حیران کن نہیں ہے۔ حتی کہ سنسنی اور تجسس کے لئے کسی بھی کٹھ پتلی کو جیل میں ڈال دیا جانا’ یا "تماشے” کے بے جان مناظر میں جان ڈالنے کے لئے کسی ‘پتلی’ کی جان لے لینا’ یہ سب ہی "کھیل کی سالمیت” کا حصہ ہیں۔

تاریخ کے سیاہ ادوار کتنے بھی طویل ہوں ان کا انت لازم ہے۔سکرپٹ، کردار، حالات،واقعات پھر ان کے نتائج اور ان نتائج کے کروڑوں انسانوں پر اثرات۔ ہمیشہ سب کچھ قائم و دائم نہیں رہ سکتا۔ نہ جبر و سازش اور نہ ہی تسلیم و رضا۔ نہ وابستگی کے لئے من گھڑت کہانیوں کا طلسم اور نہ ہی بے معنے جذبات کی رو میں بہہ جانے والی قربانیاں۔

مقابلہ سخت سہی’ مگر ‘فریب کے پیام بروں’ کے خلاف برس ہا برس سے پنپنے والی سخت سوچیں’ اذہان سے نکل کر سڑکوں کا رخ کر رہی ہیں۔ سڑکیں’ جہاں ازل سے حقیقی "رزم گاہیں” تشکیل پاتی ہیں۔ اسمبلیوں کی مفاہمت گاہوں میں کی جانے والی سازشوں کا تدارک انہی سڑکوں پر ممکن ہے جہاں مزاحمت کاروں کی ایک کھیپ نیم زندہ’ ضمیروں کو کچوکے لگاتی، درد کے گیتوں سے روحوں کے تار ہلاتی، سوئے جزبوں کو جگاتی ہوئی عازم سفر ہے۔ "سڑک کی رزم گاہیں آباد کرو” کی جرس بج رہی ہے۔ یہ تب تک بجتی رہے گی جب تلک اونگھتے کانوں کی سماعت جاگ نہ جائے۔

Qamar Uz Zaman Khan
+ posts

قمر الزماں خاں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین  کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں اور ملکی سطح پر محنت کشوں کے حقوق کی طویل جدوجہد کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔وہ تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے پرچم تلے مزدور تحریک میں سرگرم ہیں۔