پاکستان

بلوچستان: ریاستی جبر کو للکارتی عوامی مزاحمت

سبحان عبدالمالک

حکمران طبقہ ریاست کے وجود کو اس لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ ریاست شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرتی ہے۔کہنے کوتویہ اس لئے ضروری ہے کہ تمام شہری آئین و قانون کا احترام کریں، مگر درحقیقت ریاست انسان کے جان و مال کو تحفظ دینے کے لیے نہیں بلکہ اس وقت وجود میں آئی جب سماج کی طبقات میں تقسیم ہوئی۔

ریاست کا کام جبر کے ذریعے اقلیتی بالادست استحصالی طبقے کی اکثریتی استحصال زدہ طبقے پر حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے منظم جبر کرنا ہے۔طبقاتی معاشرے میں آئین و قوانین بھی حاکم طبقہ ہی اپنے طبقاتی مفادات کوتحفظ دینے کے لیے بناتا ہے۔آئین کی بالادستی سے مراد غریبوں اور مظلوموں پر امیر سرمایہ داروں، جاگیرداروں،جرنیلوں اور ججوں کی بالادستی ہے،لیکن یہاں ریاست محض محکوموں پر آئینی بالادستی قائم کرنے تک اتفاق نہیں کرتی،بلکہ اس سے بڑھ کر لوگوں کو اغواء کرکے قتل کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔دوسرے لفظوں میں ریاست ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے۔

پاکستان کے اس کٹھن سماج میں ریاست اور غنڈہ گرد گروہوں میں امتیاز کرنا مشکل ہوتا جا رہاہے۔زمینوں پر ناجائر قبضے، سمگلنگ کے علاوہ سندھ، بلوچستان اور پختونخوا میں ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کرنے اور ماورائے عدالت قتل میں ریاستی اہلکار ملوث ہیں۔

پاکستانی ریاست کا وجود برطانوی سامراج کے خلاف کسی قومی آزادی کی تحریک یا انقلاب کے نتیجے میں عمل میں نہیں آیا،بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراج کے مفادات کے لیے برصغیر کے خونی بٹوارے کے ذریعے مختلف قوموں کی تقسیم اور جبری الحاق کے نتیجے میں عمل میں آیاتھا۔سامراج کا گماشتہ مقامی حکمران طبقہ تاریخی طور پر اس قدر پسماندہ، بدعنوان اور نااہل تھا کہ سماج کو یکساں بنیادوں پر ترقی دینے اور جدید قوم بنانے کی صلاحیت سے مکمل عاری تھااور ہے۔

سامراجی مفادات کے ذریعے جبر کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ریاست کو اپنا وجودبرقرار رکھنے کے لیے روز اول سے ہی محنت کشوں اور محکوم قومیتوں پر جبر کی ضرورت تھی،وہ جبر آج تک جاری ہے۔صنعتی ترقی کے بجائے مذہب کی بنیاد پر مصنوعی پاکستانی قوم کو بنانے کے عمل میں بڑے پیمانے پر قومی جبر کا آغاز کیا گیا اورتمام قوموں کی زبان اور ثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔پاکستان کے وجود میں آتے ہی اس جبر کے خلاف قومی تحریکوں کا آغاز بھی ہو گیا۔

بلوچستان میں پہلی فوج کشی 1948 میں ہوئی، دوسری 70 کی دہائی میں بھٹو حکومت نے کی، تیسری فوج کشی کا پرویز مشرف نے آغاز کیا،جو آج تک جاری ہے۔اب تک ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا ہے۔

لوگوں کو لاپتہ کرنے کا آغاز بلوچستان سے ہوا،جہاں ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو اٹھایا گیا اور بیشتر کی مسخ شدہ لاشیں ورثاء کو ملیں، ایک بڑی تعداد کی بغیر کسی شناخت کے بھی تدفین کی گئی۔ اب یہ سلسلہ وباء کی طرح سارے ملک میں پھیل چکا ہے۔جہاں ظلم کی انتہا ہو، وہاں لاش مل جانا بھی ایک نعمت تصور کیا جاتا ہے،کیونکہ لاش کے ملنے سے انتظار کی وہ اذیت ختم ہو جاتی ہے،جو لا پتہ افراد کے ہزاروں خاندان اس وقت برداشت کر رہے ہیں۔ وہ جی رہے ہیں،نہ مر رہے ہیں۔ وہ مائیں جن کی اپنے پچوں کے انتظار میں آنکھیں سفید ہو گئی ہیں، وہ بچے جو روز ماں سے سوال کرتے ماں بابا کہاں ہیں؟ وہ گھر کیوں نہیں آتے؟وہ بہنیں جو اپنے بھائیوں کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں،جو آج بھی اسلام آباد میں احتجاج کر رہی ہیں، جنہیں ریاستی غنڈوں کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ خاموشی اختیار کریں،انکے وہ پیارے غدار تھے،جن کے بارے میں سوال کرنے وہ دو ہزار میل سفر کر کے آئی ہیں۔جو لوگ انکے بارے سوال کر رہے ہیں وہ سب بھی غدارہیں۔حالانکہ انکے بڑے سادہ سے مطالبات ہیں۔وہ مانگ رہے کہ اگر انکے پیاروں نے کوئی جرم کیا ہے تو انھیں عدالت میں پیش کیا جائے۔جن کو دوران حراست تشدد کے دوران قتل کر دیا ہے، انکے بارے میں گھروالوں کو بتا دیا جائے تاکہ کم از کم انکی انتظار کی اذیت تو ختم ہو۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لمبے عرصے سے احتجاجی مظاہرے، دھرنے،اور لانگ مارچ ہوتے رہے ہیں،جن کو جبر کے ذریعے اور وعدوں کے ذریعے ختم کیا جاتا رہا ہے۔لاپتہ افرد کے علاوہ گزشتہ پانچ سالوں میں بلوچستان میں طلبہ،محنت کشوں اور خواتین کے احتجاجی مظاہروں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔یہ احتجاجی مظاہرے بلوچستان کے نوجوانوں اور محکوم عوام میں مسلح جدوجہد سے سیاسی جدوجہد کی جانب شعور کا سفر تھا، جس کو ریاست نے جبر کے ذریعے کچلتے ہوئے ان کو بھی پہاڑوں پر دھکیلنے کی کوشش کی۔بلوچ نوجوانوں اور خواتین نے صبر کے ساتھ ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں جاندار اظہار کیاجو ماضی قریب و بعید میں چلنے والی تحریکوں کا معیاری اظہار ہے۔

بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس تحریک نے پاکستانی ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔پرامن تحریک میں اکثریت خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے، اور اس کے خلاف بربریت نے ریاست کا چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔اس تحریک نے نہ صرف بلوچ قوم کو متحد کیا ہے،بلکہ پاکستان سمیت ساری دنیا کے باشعور نوجوانوں اور محنت کشوں کی ہمدردیاں اور حمایت حاصل کی ہے۔تحریک نے بالخصوص پشتون اور بلوچ مظلوموں کو بڑی حد تک یکجا کیا ہے۔اس تحریک نے جہاں پاکستانی ریاست کے کردار کو بے نقاب کیا ہے، وہاں بلوچستان کے سرداروں کا کردار بھی بے نقاب کیا ہے،جو اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں اور تحریک کو سازش کا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔بلوچ خواتین نے جرأت،حوصلے اور بہادری کا جو مظاہرہ کیا ہے،اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ سیکڑوں مسلح حملوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اتنی بوکھلاہٹ کا شکار نہیں کیا ہے جو اس پرامن تحریک نے کیا ہے۔

ریاست لاپتہ افراد کا جواز مسلح تحریک کو قرار دیتی ہے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے تمام افراد مسلح جدوجہد کا حصہ تھے،تو پھر بھی اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ کسی فرد کو لاپتہ کیا جائے یا قانون کے سامنے پیش کئے بغیر ہی قتل کر دیا جائے۔کارپوریٹ میڈیا بھی ریاست کی زبان بولتے ہوئے انفرادی دہشتگردی کو ریاستی دہشتگردی کے جواز کے طور پر پیش کر رہا ہے۔وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں،یا سمجھنا نہیں چاہتے کہ ریاستی جبر استحصالی نظام کو برقرار رکھنے،مقامی سرمایہ دار طبقے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کے خلاف عوامی مزاحمت کو کچلنے کے لیے کیا جاتا ہے، جبکہ انفرادی دہشتگردی ریاستی جبر، وسائل کی لوٹ مار اور پسماندگی کے خلاف انتقام کا اظہار ہوتا ہے اورلاشعوری ردعمل ہوتاہے۔سوشلسٹ انفرادی دہشتگردی کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ سامراجی جبر اور لوٹ کے خلاف لاشعوری ردعمل کو شعوری عمل میں تبدیل کیا جائے،کیونکہ لاشعوری رد عمل کو سامراجی ریاستیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔بھارتی زیر انظام جموں کشمیر اور بلوچستان میں ریاستی جبر جن انتہاؤں کو چھو رہا ہے، وہاں نوجوانوں کو کوئی بھی طاقت اسلحہ فراہم کرے گی تو وہ آسانی سے لینے کو تیار ہوتے ہیں۔اسی بندوق کو یہ ریاستیں بیرونی مداخلت کا الزام لگا کر جبر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔بلوچستان میں انڈین مداخلت کا الزام لگا کر نہتے بلوچوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جبکہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج پاکستان کی مداخلت کا الزام لگا کر کشمیری عوام کا قتل عام کر رہی ہے۔ریاستی جبر کے خلاف انفرادی حملوں سے نفرت اور انتقام کی آگ تو بجھ جاتی ہے،لیکن ریاست کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوتی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر جبر کا جواز مل جاتا ہے۔ ریاست مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیموں سے کئی گنا زیادہ جبر کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انفرادی دہشتگردی کو ریاستی جبر اور قوموں کے حق خود ارادیت کی مخالفت کے جواز کے طور پر پیش کیا جائے۔

موجود تحریک اگر اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب نہیں بھی ہوتی،تو اس تحریک نے پاکستان میں بسنے والی محکوم قومیتوں، محنت کشوں، طالب علموں اور خواتین کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔پشتون تحفظ موومنٹ کے بعد یہ دوسری تحریک ہے،جس نے ریاست کے خوف کے بت کو توڑا ہے۔بلوچستان کے محکوم عوام کو ریاستی جبر سے نجات انسانی حقوق کی تنظیمیں یا اقوم متحدہ نہیں دلا سکتی ہے،بلکہ ان کی اپنی پرامن سیاسی جدوجہد اور دنیا بھر کے محنت کشوں سمیت پاکستان میں بسنے والی دیگر قوموں کے محنت کشوں، استحصال زدہ مظلوم پرتوں کی حمایت اور جڑأت کے ذریعے محکومی سے نجات ممکن ہے۔اقوام متحدہ کے مبصرین جو ریاست کی اجازت کے بغیر بلوچستان جا نہیں سکتے ہیں،وہ بلوچوں کے قتل عام کو کیسے روک سکتے ہیں؟وہ ادارہ جو فلسطین کے بچوں کا قتل عام نہیں روک سکا،بلوچستان کے عوام کا قتل عام کیسے روکے گا؟اقوام متحدہ انہی سامراجی طاقتوں کا محافظ ادارہ ہے،جن کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کو برقرار رکھنے کے لیے بلوچوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔

ریاست کے معاشی،سیاسی اور معاشرتی بحران میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،حکمران طبقہ کی جانب سے جمہوری آزادیوں پر مزید حملے کیے جائیں گے۔اس کے علاوہ محنت کشوں پر قومی اداروں کی نجکاری اور مہنگائی کے وار مسلسل جاری ہیں،جن کے خلاف بھی بکھری ہوئی تحریکیں موجود ہیں۔اس وقت وسائل کی لوٹ کھسوٹ، ریاستی جبر اور محنت کشوں پر معاشی حملوں کے خلاف بلوچستان، پختونخوا،پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان اور جموں کشمیر سمیت ملک بھر میں چھوٹی بڑی تحریکیں موجود ہیں۔جمہوری اور معاشی مسائل کے گرد ابھرنے والی ان تحریکوں کو انقلابی پروگرام کے ذریعے جوڑتے ہوئے ہی ملک گیر عوامی جدوجہد کو پڑے پیمانے پر منظم کیا جا سکتا اور نجات کا متبادل حل دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ریاستی جبر کو شکست دی جا سکتی ہے،بلکہ سرمایہ دارنہ نظام کی نمائندہ ریاست کو انقلاب کے ذریعے شکست دے کر جبر کی بنیادوں کو مٹایا جا سکتا ہے۔ ان حالات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے جن میں انسان،انسان کا استحصال کرتا ہے اورایک قوم دوسری قوم پر جبر کرتی ہے۔تمام قوموں کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کو تسلیم کرتے ہوئے رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔مزدور ریاست ہی تمام شہریوں کے جمہوری اور معاشی حقوق کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔

Subhan Abdul Malik
+ posts

سبحان عبدالمالک طالبعلم رہنما ہیں اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق ضلعی چیئرمین رہ چکے ہیں۔