نقطہ نظر

’ماضی کے متاثرین تاحال بے یارومدد گار ہیں، نیا ملٹری آپریشن کوئی قبول نہیں کرے گا‘

حارث قدیر

ڈاکٹر فیض اللہ جان کہتے ہیں کہ ’’ماضی کے آپریشنوں کی وجہ سے خیبر ایجنسی میں تیرہ اور دیگر علاقوں سے بے دخل کئے گئے لوگ آج بھی آئی ڈی پی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بحالی کے نام پر ہر خاندان کو ایک ایک خیمہ اور کچھ راشن دے کر تباہ حال علاقوں میں جبری طور پر بھیجا جا رہا ہے۔ بنوں میں آج بھی لوگ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ماضی کے تلخ تجربات کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم نے لوگوں میں شعور بیدار کر دیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ آپریشن ہوگا تو سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوگا۔ جب تک گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ختم نہیں ہوتی، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بائیں بازو کو اس آپریشن کے خلاف کراچی، لاہور ، راولپنڈی جیسے شہروں میں احتجاج منظم کرکے آپریشن کی مخالفت کرنی چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر فیض اللہ جان پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے صدر ہیں۔ گزشتہ دنوں ‘آپریشن عزم استحکام ’ کے حوالے سے ’جدوجہد‘ نے ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہاہے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے آپریشن ‘عزم استحکام’ کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہ کس نوعیت کا آپریشن ہو گااور کن علاقوں میں آپریشن کئے جانے کا امکان ہے؟

فیض اللہ جان: پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن جہاں تک میں نے اس کے بارے میں جانا ہے، انہوں نے کسی خاص علاقے کا ذکر نہیں کیا۔ لوگوں کا خیال یہی ہے کہ یہ آپریشن خیبر پختونخوا کے افغانستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی اضلاع وزیرستان، کرم ایجنسی اور خیبر ایجنسی میں ہونے کے امکانات ہیں۔ جس طرح اس تخریب کاری اور حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم ) نے لوگوں کو متحرک کیا اور ا ن میں شعور کو بیدار کر لیا ہے، اس کی وجہ سے حکومت کیلئے آپریشن کا آغاز کرنا بھی مشکل نظر آرہا ہے۔ اسی پریشر کے نتیجے میں حکومت نے اپنا موقف بھی تبدیل کر لیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ اس قسم کا آپریشن نہیں ہوگا، جیسے ماضی کے آپریشن تھے۔ میں نے کرم ایجنسی کا نام اس لئے لیا کہ وہاں کے لوگ شروع دن سے طالبان کے بھی خلاف ہیں اور ملٹری آپریشن کے بھی سخت خلاف ہیں۔ انہوں نے طالبان کو بھی بہت ٹف ٹائم دیا ہے۔ اس وجہ سے میرے خیال میں یہ لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ اگر آپریشن ہوگا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان مقامی کمیونٹی کو ہوگا۔

ابھی تک مکمل کنفیوژن ہے کہ یہ آپریشن ہو گا بھی یا نہیں اور اگر ہو گا تو کس نوعیت کا ہوگا اور کن کن علاقوں میں ہوگا۔ اگر ہم واقعاتی ثبوت بھی دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ اس کا زور شمالی اور جنوبی وزیرستان، ٹانک، ڈی آئی خان، لکی مروت اور بنوں تک کے علاقوں تک ہو سکتا ہے۔ لکی مروت میں بھی پچھلے کافی دنوں سے تخریب کاری کے واقعات ہو رہے ہیں۔ مقامی لوگ اس پر قائل نہیں ہیں کہ یہ طالبان کی طرف سے ہو رہا ہے اور فوجی آپریشن اس حوالے سے کوئی مثبت کردار کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس لئے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آپریشن ایسے ہی ہوگا یا نہیں۔

ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن کئے گئے ہیں ان کے اثرات پختونخوا میں کیا پڑے ہیں اور لوگ کیسے متاثر ہوئے ہیں؟

فیض اللہ جان: ماضی میں جتنے بھی آپریشن ہوئے ان کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ کل بھی باڑے کے اندر نوجوانوں نے ایک موٹر سائیکل ریلی نکالی اور اس آپریشن کی مخالفت کی ہے۔ آپریشن کی وجہ سے خبیر ایجنسی میں تیرہ اور دیگر علاقوں سے جن لوگوں کو بے دخل کیا گیا تھا وہ آج تک آئی ڈی پی کیمپوں کے اندر کسمپرسی کی زندگی گزر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس ان کو واپس بھیجنے کا کوئی منصوبہ یا گراؤنڈ ورک موجود ہی نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں بحالی کے حوالے سے کوئی سرگرمیاں ہوئی ہیں، لیکن اس میں بھی جو ایک خاندان واپس اپنے آبائی علاقوں میں جاتا تھا تو اسے ایک خیمہ اور کچھ راشن دیا جاتا تھا۔ تاہم جب وہ لوگ اپنے علاقوں میں گئے تو ان کے آبائی گھر مسمار پڑے ہوئے تھے۔ یہ کس قسم کی بحالی ہے کہ لوگوں کے عرصہ دراز سے بنے ہوئے گھر مسمار کر دیئے گئے اور اب انہیں ایک خیمہ اور کچھ راشن دے کر واپس اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

ایک اور المیہ یہ تھا کہ یہ بحالی جبری طور پر کی جا رہی تھی۔ یہ بات بھی نہیں ہے کہ لوگ واپس نہیں جانا چاہتے، لیکن وہ اس حالت میں نہیں جانا چاہتے، جس طرح انہیں بھیجا جا رہا تھا۔ لوگوں کو پابند کیا گیا کہ وہ ہر صورت راشن وصول کریں گے اور پھر بائیومیٹرک بھی کروائیں گے ۔ لوگ بائیومیٹرک کروا کر خیمہ اور راشن وصول کر لیتے تھے، لیکن وہ سب کچھ وہیں پھینک کر واپس آجاتے تھے۔ اس طرح وہ دوبارہ معمول کی زندگی شروع ہی نہیں کر سکتے۔ بنوں کے علاقے باکا خیل میں آج بھی لوگ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں واپس جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی ہے۔ اگر وہ واپس چلے بھی جائیں تو ان کا روزگار ختم ہے اور گھر مسمار ہو چکے ہیں۔ اس لئے از سر نو زندگی شروع کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں۔ یوں لوگوں کا آپریشن کی مخالفت کرنا ان کی مجبوری بن چکی ہے۔ اس لئے ماضی کے آپریشنز کے اثرات ابھی تک موجود ہیں اور یہ صرف آئی ڈی پی کیمپوں تک محدود نہیں ہیں۔

خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا شہر پشاور ہے، جو صوبائی دارالحکومت بھی ہے۔ ان آپریشنز کی وجہ سے پشاور اور اس کے نزدیکی شہروں کوہاٹ وغیرہ پر بہت بوجھ پڑا ہے۔ جن لوگوں کو بے دخل کیا جاتا ہے وہ انہی علاقوں میں آجاتے ہیں۔ پہلے سے زیادہ گنجان آباد شہروں میں زندگی گزارنے کے وسائل گیس اور بجلی وغیرہ پہلے سے آباد لوگوں کیلئے بھی ناکافی ہیں۔ اس وجہ سے یہ نقل مکانی ان شہروں کیلئے ایک بھیانک بوجھ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں میں بھی اس آپریشن کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

آپریشن ‘عزم استحکام’ کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے۔ کون کون سے سیاسی رجحانات اس کے خلاف ہیں اور ان کا موقف کیا ہے؟

فیض اللہ جان: تمام سیاسی پارٹیاں اور سول سوسائٹی کے تمام گروہ اس آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پورے صوبے میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس کی حمایت کررہا ہو۔ اے این پی شروع دن سے ایسے آپریشنز کی مخالفت کرتی آئی ہے اور ابھی بھی کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک پارٹی سمجھی جاتی تھی، وہ صوبے کے اندر آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں ۔ گو کہ مرکز میں بیٹھ کر وہ اس پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جمعیت علماء اسلام (ف) ایک ایسی بڑی جماعت ہے جو پہلی مرتبہ آپریشن کی مخالفت میں سامنے آئی ہے اور وہ اس کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔ تاہم پی ٹی ایم کا اس سب میں بہت ہی کلیدی کردار ہے۔ انہوں نے ان آپریشنز کے خلاف فضاء ہموار کی ہے۔ حال ہی میں رزمک میں پی ٹی ایم نے ایک بہت بڑا جلسہ کیا۔ اس جلسہ میں انہوں نے کھل کر اس آپریشن کی مخالفت کی۔

اس سے قبل بھی جب عمران خان وزیراعظم اور جنرل فیض حمید کور کمانڈر پشور تھے، تو اس وقت تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ساتھ ان کی ڈیل ہو رہی تھی کہ ان لوگوں کو افغانستان سے پاکستان میں منتقل کیا جائے گا۔ اس وقت پی ٹی ایم ہی کی وجہ سے اولسی پاثون کے نام سے ایک تحریک بن گئی تھی اور لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ وزیرستان سے لے کر سوات، بونیر، باجوڑ تک لوگ کسی بھی ممکنہ ڈیل کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ سے کم از کم عسکریت، دہشت گردی اور ملٹری آپریشنز کے حوالے سے لوگوں میں بڑا شعور بیدار ہوا ہے۔ لوگ اب اس پر قائل نہیں ہوتے کہ یہ کوئی دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوگا۔ لوگ اب سمجھ چکے ہیں کہ یہ ساری جنگ کس چیز کی ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتوں پر عوام کا پریشر ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ آپریشن کی حمایت کرے۔ تمام جماعتوں کے ووٹر اور سپورٹر اس کے سخت مخالف ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعدپختونخوا میں دہشت گردوں کی دوبارہ آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس میں کس حد تک کمی آئی ہے اور اس کی ممکنہ وجوہات کیا ہیں؟

فیض اللہ جان: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آمدو رفت کا قصہ تھا اور ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ طالبان کے اقتدار کے بعد ان کی یہاں آمد کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ افغانستان کے طالبان کی سپورٹ بیس اور لاجسٹک بیس بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے وہ علاقے ہیں جو افغانستان کی سرحد سے متصل ہیں۔ یہی علاقے ان کے لانچ پیڈز تھے اور یہی ان کی پناہ گاہیں تھیں اور ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ لوگ افغانستان میں تھے اور پاکستان نہیں آرہے تھے، یا طالبان کے اقتدار کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان پر جب طالبان کا قبضہ ہو گیا تو ڈیورنڈ لائن کے دوسری طرف کا علاقہ بھی ان کے قبضے میں آگیا۔ پہلے ان کی پناہ گائیں اس طرف تھیں اور اب انہیں ایک اور جگہ مل گئی ہے۔ پہلے افغان طالبان اِن کے مہمان تھے اور اب ٹی ٹی پی اُن کے مہمان ہیں۔

میں ذاتی طور پر ان میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کی آئیڈیالوجی ایک ہی ہے۔ ابھی تک کوئی ایسا بیان بھی نہیں آیا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے لاتعلقی اختیار کی ہو۔ البتہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ افغان طالبان کاجو نام نہاد امیر المومنین ہوتا ہے، وہ ہمیشہ ٹی ٹی پی کا بھی امیر المومنین ہوتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ان دونوں میں کوئی فرق ہے، بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی جسم کے دو ہاتھ ہیں۔ یہ دونوں ساتھ ہوں تو ان کی دہشت گردی قائم رہ سکتی ہے۔ ان میں سے ایک ہاتھ بھی کٹے تو یہ افغانستان میں بھی کمزور ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں اپنا قبضہ جمائے رکھنے کیلئے ٹی ٹی پی کو بھی یہاں رکھا جائے گا۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان اور خصوصاً کابل پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے حوصلے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

پاکستان کے حکمرانوں کو اسی سے سبق لینا چاہیے تھا ، لیکن جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا توپاکستان کا کور کمانڈر سرینہ ہوٹل کابل میں چائے کی پیالی ہاتھ میں لے کر مسکرا رہا ہوتا ہے۔ انہوں نے خود دہشت گردوں کو پیغام دے دیا کہ آپ نے ایک اور سپر پاور کو افغانستان کے اندر شکست دے دی ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ وہ دوسری مرتبہ ایک سپر پاور کو افغانستان کے اندر شکست دے رہے ہیں۔ پاکستان تو سپر پاور بھی نہیں ہے، وہ ان کیلئے ایک سافٹ ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ اسی کے اثرات ہیں ۔

ان دونوں میں ہمیں کوئی فرق نہیں کرنا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی آمد شروع ہوئی۔ وہ پہلے سے یہیں پر تھے اور ابھی تک موجود ہیں۔ جب تک ریاست کی دوغلی پالیسی رہے گی کہ کچھ گڈ اور کچھ بیڈ طالبان ہیں، تو یہ سلسلہ میرے خیال میں جاری رہے گا۔

یہ الزامات بھی عائد کئے جا رہے ہیں کہ سوات سے تو دہشت گرد واپس چلے گئے ہیں لیکن سابق فاٹا میں ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

فیض اللہ جان: سوات سے طالبان چلے نہیں گئے ، وہ ایک تذویراتی پلان کے تحت ری لوکیٹ ہوئے۔ جب فیض حمید یہ ڈیل کر رہے تھے، اس وقت طالبان سوات میں آگئے تھے، لیکن جب سوات سے نکلے تو چترال میں افغانستان کے ملحقہ پاکستان علاقوں میں چلے گئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے خاندان یہاں سوات کے اندر ہیں۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ان کو مکمل طور پر نکال دیا گیا تھا۔ ڈیورنڈ لائن(پاکستان اور افغانستان کو الگ کرنے والی سرحد) پر انہوں نے فینسنگ کر دی ہے۔ سرحد کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک فوج نے800قلعے بنائے ہیں، تقریباً ہر سٹریٹیجک پوائنٹ پر ان کا ایک کنٹونمنٹ بھی ہے۔ اس لئے میرے لئے تو یہ ایک معمہ ہے کہ کس طریقے سے اور کس راستے سے یہ طالبان افغانستان سے آرہے ہیں۔، مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ادھر ہی تھے اور یہ ادھر ہی ہیں، یہ کہیں سے نہیں آرہے ہیں۔

ماضی میں ریاست کی گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی جا ررہی ہے۔ موجودہ وقت پختونخوا میں ریاستی پالیسی کیا نظر آتی ہے اور کیا موجودہ آپریشن بھی طالبان کے مخصوص گروہ کے خلاف ہی ہوگا؟

فیض اللہ جان: پہلے بھی گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی تھی اور یہ پالیسی ابھی بھی جاری ہے۔ مجھے نہیں لگ رہا اور کوئی شواہد بھی نہیں ہیں کہ اس پالیسی کو ختم کیا گیا ہے۔ یہ پالیسی بدستور جاری ہے۔

آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے بائیں بازو کا موقف کیا ہے اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات تجویز کئے جا سکتے ہیں؟

فیض اللہ جان: بائیں بازو کا ہمیشہ سے ایک واضح موقف رہا ہے کہ وہ اس جنگ کو بھی اور اس سے قبل ہونے والی جنگوں کو بھی سامراجی جنگوں کا ایک حصہ قرار دیتے تھے اور ابھی بھی اسے ان کا ایک تسلسل ہی گردانتے ہیں۔ بائیں بازو کے مختلف حلقوں کے درمیان مشترکہ الائنس بن سکتا تھا اور اس کی کوششیں اب بھی جاری ہیں، لیکن ریاست کے ان آپریشنز کی وجہ سے ان کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ مختلف علاقوں کے لوگ اپنے مسئلوں کے اندر جکڑے جاتے ہیں اور وہ اپنے علاقے سے باہر دوسرے علاقوں کے مسائل سے جڑ نہیں پاتے۔

پی ٹی ایم نے اپنے آغاز میں پورے پاکستان میں مختلف جگہوں پر جلسے اور پروگرام کئے تھے۔ اس دوران پنجاب اور سندھ کے بائیں بازو کے حلقوں نے ان کی حمایت بھی کی تھی، جو بہت خوش آئند بات تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بایاں بازو ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ تاہم اس وقت یوں لگ رہا ہے کہ مین سٹریم پنجاب یہ تصور کرتا ہے کہ یہ سابق فاٹا اور خیبرپختونخوا کا مسئلہ ہے اور اس کو وہیں پر حل کیا جائے گا۔ اسی طرح کی صورتحال ہی سندھ میں بھی ہے۔

میرے خیال میں اس وقت بائیں بازو کی ذمہ داری سب سے بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس آپریشن کی مخالفت کو مقامی سطح سے باہر نکال کر باقی صوبوں میں بھی لے جائیں۔ مثال کے طور پر کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں اس قسم کے جلسے ہونے چاہئیں، جن میں خیبرپختونخوا میں ہونے والے آپریشن کی مخالفت کی جائے۔ اس طرح ایک تو لسانی اور نسلی تفریق کے خاتمے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ سے آواز اٹھنے پر پشتون علاقوں میں نہ صرف ایک اچھا تاثر قائم ہوگا بلکہ بڑے پیمانے پر یکجہتی قائم ہوگی اور جنگ کا راستہ بھی روکا جا سکے گا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔