نقطہ نظر

پاکستان میں بجلی کی بڑھتی قیمتیں: آئی پی پیز کیسے لوٹ رہی ہیں؟

حارث قدیر

(یہ تحریر گزشتہ سال شائع کی گئی تھی۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے معمولی رد و بدل کے ساتھ اسے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے)

پاکستان میں بجلی کی بڑھتی قیمتیں صارفین کیلئے وبال جان بنتی جا رہی ہیں۔ مین سٹریم میڈیا پر پہلی مرتبہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی لوٹ مار کا بھی تذکرہ شروع ہو چکا ہے۔ آئی پی پیز کو ادا کی جانے والی ان رقوم کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، جو انہیں بجلی پیدا کئے بغیر ادا کی جا رہی ہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں کا بھی اب تذکرہ میڈیا پر شروع ہو چکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی پی پیز کو گزشتہ10سال کے دوران 8ہزار344ارب روپے کپیسٹی پے منٹس کی مد میں ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ یہ ادائیگیاں موجودہ شرح مبادلہ کے حساب سے30ارب ڈالر، جبکہ گزشتہ 10سال کے دوران مختلف سالوں میں رہنے والے شرح مبادلہ کے حساب سے اوسطاً48ارب83کروڑ ڈالر سے زائد بنتے ہیں۔ آئی پی پیز کو کی جانے والی ان ادائیگیوں کے یہ اعداد و شمار2013سے2024کے ہیں۔

رواں سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران آئی پی پیز کو 450ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ 4پاور پلانٹس ایسے ہیں جو بجلی پیدا کئے بغیر 10ارب روپے ماہانہ کپیسٹی پے منٹس کی مد میں لے رہے ہیں، جبکہ نصف آئی پی پیز ایسے ہیں جو 10فیصد سے بھی کم کپیسٹی پر چل رہے ہیں۔

پاکستان کو روز اؤل سے ہی بجلی کے بحران کا سامنا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ بجلی کی پیدواری اور ترسیلی صلاحیتوں میں اضافہ کیا گیا۔ معاشی ترقی اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ آبادی کے زیادہ سے زیادہ حصہ تک ترسیل کی وجہ سے بجلی کی پیداواری ضرورت مسلسل بڑھتی رہی ہے۔ آج پاکستان میں 94 فیصد آبادی تک بجلی کی ترسیل ہو رہی ہے اور 6 فیصد آبادی آج کے جدید ترین دور میں بھی بجلی سے محروم ہے۔

ترقی کرتی ہوئی معیشت کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہر 10 سال بعد بجلی کی پیدواری صلاحیت میں 50 فیصد تک اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ تو کیا گیا، لیکن بجلی کے استعمال میں اس سطح پر اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ بجلی کی پیداوارنجی شعبے کے حوالے کرنے، یعنی پرائیویٹائزیشن کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت بڑھتی رہی۔ معاشی ترقی کی شرح انتہائی کم ہونے اور بجلی کی پیدواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹریل اور تجارتی استعمال میں بھی اضافہ نہیں ہو سکا، بلکہ ڈومیسٹک یا گھریلو استعمال میں بھی اس تناسب سے اضافہ نہیں ہو سکا، جس کی توقع تھی۔

یوں پاکستان میں اس وقت استعمال ہونے والی 50 فیصد بجلی کی کھپت کا انحصار گھریلو صارفین پر ہے اور 50 فیصد تجارتی اور انڈسٹریل کھپت ہو رہی ہے۔

بجلی کی پیدوار اور کھپت

پاکستان میں اس وقت 45824 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس پیداواری صلاحیت میں سے 18053 میگا واٹ (39 فیصد) پبلک سیکٹر، جبکہ 27771 میگا واٹ (یعنی 61 فیصد) نجی شعبہ کی صلاحیت موجود ہے۔

پبلک سیکٹر میں 9702 (21 فیصد) ہائیڈل جنریشن ہے، 4731 (10 فیصد) تھرمل یعنی تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر ذرائع سے ہونیوالی جنریشن اور 3620 میگا واٹ (8 فیصد) نیوکلیئر جنریشن ہو رہی ہے۔

دوسری طرف نجی شعبہ میں ہائیڈل بجلی 1053 میگا واٹ (2 فیصد)، 21121 میگا واٹ (46 فیصد) تھرمل بجلی، 2635 میگا واٹ (6 فیصد) قابل تجدید انرجی سے پیدا ہونے والی بجلی اور کراچی الیکٹرک کمپنی کے زیر اہتمام پیدا ہونے والی 2962 میگا واٹ (7 فیصد) مختلف ذرائع کی بجلی شامل ہے۔

تاہم پاکستان میں شدید گرمیوں کے 3 سے 4 ماہ کے دوران بجلی کی ضرورت 25 ہزار میگا واٹ تک پہنچتی ہے، باقی عرصہ میں 16 سے 18 ہزار میگا واٹ ضرورت رہتی ہے۔ اس طرح پاکستان میں کل بجلی کی پیدواری صلاحیت کا نصف حصہ ہی استعمال میں آتا ہے۔

انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)

بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور لوڈشیڈنگ سمیت بحران کی دیگر شکلوں کا غیر معمولی اظہار 1994ء کے بعد سامنے آنا شروع ہوا ہے۔ عالمی سامراجی اداروں کی ہدایات اور ایما پر ریاستوں نے نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کا نفاذ 80ء کی دہائی سے شروع کیا تھا۔ اسی دوران ورلڈ بینک اور امریکی ریاست کی براہ راست مداخلت سے مختلف ملکوں نے بجلی کی پیدوار سمیت تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات سے دستبرداری اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور ان شعبوں کی نجکاری کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

1994ء میں پیپلز پارٹی کی بینظیر حکومت نے نئی پاور پالیسی کا اجرا کیا۔ اس پاور پالیسی کی ڈرافٹنگ میں امریکی سیکرٹری برائے توانائی ہیزل اولیئری نے بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے 80 کے قریب امریکی سرمایہ داروں کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ ورلڈ بینک تھا۔

اس پاور پالیسی کے تحت 17 آئی پی پیز لگائے گئے، جبکہ ایک سرکاری آئی پی پی کی نجکاری کی گئی۔ یوں 18 آئی پی پیز سے بجلی کی نجکاری کا سلسلہ شروع ہوا۔

مستقبل کی حکومتوں نے بھی پاور پالیسی میں معمولی رد وبدل کرتے ہوئے مزید پاور پلانٹس لگانے کی راہ ہموار کی۔ یوں 1994ء، 2002ء، 2015ء اور 2021ء کی پاور پالیسیاں بنائی گئیں۔ ابتدا میں ان پاور پالیسیوں کے تحت پرائیویٹ پاور بورڈ (پی پی بی) تشکیل دیا گیا۔ 2012ء میں سی پیک منصوبوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے مقصد کیلئے اس بورڈ کی تشکیل نو کی گئی اور پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) تشکیل دیا گیا۔ 2010ء میں قابل تجدیدتوانائی کیلئے الٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ (اے ای ڈی بی اے) بھی تشکیل دیا گیا۔ تاہم 2023ء میں پی پی آئی بی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے اے ای ڈی بی اے کو بھی اس میں ضم کر دیا گیا۔ اس بورڈ کی تشکیل کا مقصد سرمایہ کاروں کو ‘ون ونڈو آپریشن’ کے تحت سرمایہ کاری کیلئے تیز ترین سہولیات فراہم کرنا تھا۔

اس طرح اب تک مجموعی طور پر 22174 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل 46 آئی پی پیز (روایتی)، 2635 میگا واٹ صلاحیت کے حامل 51 قابل تجدید توانائی کے حامل آئی پی پیز، 11648 میگا واٹ صلاحیت کے حامل 13 سی پیک کے زیر اہتمام روایتی، 1400 میگا واٹ صلاحیت کے حامل 17 سی پیک کے ہوا اور سورج سے بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیزپاکستان میں لگائے جا چکے ہیں۔ ان آئی پی پیز کی مجموعی تعداد 127 ہے۔ 22 آئی پی پیز زیر تعمیر ہیں، جن کی پیداواری صلاحیت 7357 میگا واٹ ہے۔ انہی منصوبوں کے تحت سی پیک کے زیر اہتمام نجی ٹرانسمیشن لائن بھی زیر تعمیر ہے۔

آئی پی پیز کی سرمایہ کاری اور معاہدے

ان آئی پی پیز کی تعمیر کیلئے پاور پالیسی کے تحت یہ گنجائش فراہم کی گئی کہ 20 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری لا کر آئی پی پیز تعمیر کئے جا سکتے ہیں، جبکہ 80 فیصد رقم حکومت پاکستان کی گارنٹی پر پاکستانی بینکوں نے ان سرمایہ کاروں کو فراہم کرنا تھی۔ بعد ازاں کچھ منصوبوں میں ڈیبٹ ایکویٹی شرح 75:25 بھی کی گئی۔ مختلف آئی پی پیز کے ساتھ 15 سے 18 فیصد منافع ادا کرنے کے معاہدے کئے گئے۔ یہ ادائیگیاں ان آئی پی پیز کوامریکی کرنسی ڈالر میں ادا کی جانی ہیں۔ 2015ء کی پالیسی میں جاپانی، چینی، یورپین اور برطانوی کرنسی کو بھی شامل کیا گیا۔ تاہم مجموعی طور پر ان آئی پی پیز کو ادائیگیاں غیر ملکی کرنسی میں ہی کی جانی ہیں۔

ان آئی پی پیز کو انکم ٹیکس، کسٹم ڈیوٹیز، سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسوں میں مکمل استثنیٰ دیا گیا۔ رعایتی نرخوں پر بانڈز کے اجرا کی اجازت دی گئی۔ تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر ‘ویری ایبل کاسٹ’ادا کرنے کے علاوہ ادائیگیوں کو ڈالر کے ایکسچینج ریٹ اور افراط زر سے بھی منسلک کیا گیا۔ اس طرح اگر پاکستانی کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے تو آئی پی پیز کے فی یونٹ ریٹ میں کچھ سینٹس کا بھی اضافہ ہو جانا ہے۔

سب سے بڑھ کر کپیسٹی پے منٹس (پیداواری صلاحیت پر مبنی ادائیگیوں) کی شرط شامل ہے۔ جس کی وجہ سے یہ آئی پی پیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق حکومت پاکستان ڈالروں میں ادائیگیاں کرنے کی پابند ہو گی۔ یہ قیمت بجلی کے صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔ ایسی بجلی کی قیمت جو نہ کبھی پیدا ہوئی اور نہ صارف نے استعمال کی، لیکن اس کے ادائیگی اسے ہر صورت میں کرنی ہے۔

آئی پی پیز کے ساتھ کم از کم 25 سال کے معاہدے کئے گئے ہیں، تاہم 25 سال کے بعد ان کا مستقبل کیا ہو گا، اس بارے میں کوئی معلومات درج نہیں ہے۔ سی پیک کے تحت لگنے والے منصوبوں میں البتہ ‘بلڈ آؤن آپریٹ اینڈ ٹرانسفر’،‘بلڈ آپریٹ ٹرانسفر’، یا‘پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ’کے اصول طے کئے گئے ہیں۔ یہ منصوبے 25 سال تک چینی کمپنیوں اور بینکوں کی ملکیت رہنے کے بعد صوبوں، زیر انتظام علاقوں یا متعلقہ محکموں کی ملکیت میں چلے جائیں گے۔

پیداواری صلاحیت کی قیمت اور گردشی قرضے

اس طرح پاکستان میں پیدواری صلاحیت کی نصف سے زائد بجلی نہ پیدا ہوتی ہے اور نہ استعمال ہوتی ہے، تاہم اس کا بل ضرور ادا کیا جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مالی سال 2023ء میں بجلی کے بلوں سے حاصل ہونے والی 2960 ارب روپے کی رقم میں سے 2010 ارب روپے کپیسٹی پے منٹس کی مد میں ادا کئے گئے ہیں۔

کپیسٹی پے منٹس کی ادائیگیوں میں فرق کے باعث گردشی قرضے جنم لیتے ہیں، اس وقت 2300 ارب روپے سے زائد گردشی قرضے موجود ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق 2000 ارب روپے کے گردشی قرضے یا کپیسٹی پے منٹس رواں سال بجلی صارفین کی جیب سے نکال کر ادا کرنے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود گردشی قرضوں میں 650 ارب روپے کے مزید اضافے کی توقع ہے۔ اس کی بڑی وجہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی کی کھپت میں مزید کمی ہونا ہے۔

رواں مالی سال میں 3 ہزار ارب روپے کپیسٹی پے منٹس کے نام پر ادا کئے جانے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ اس طرح بجلی کی فی یونٹ قیمت،جو اس وقت 61 روپے تک پہنچ چکی ہے، رواں سال کے آخر تک 89 روپے فی یونٹ تک بڑھائی جائے گی۔ حکمرانوں کے ان معاہدوں کا خمیازہ غریب عوام بھگتیں گے۔

کتنی غیر ملکی سرمایہ کاری آئی؟

1994ء میں پاور پالیسی بناتے وقت ورلڈ بینک اور حکومت نے یہ موقف اپنایا تھا کہ بجلی کے شعبے کی نجکاری سے حکومتی خسارے کم ہونگے۔ اس طرح حکومت تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کر سکے گی۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی، جس کی وجہ سے روزگار بڑھے گا اور معیشت ترقی کرے گی۔

تاہم اس کی تاثیر الٹی ہوئی، تعلیم، صحت، روزگار کی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے عوام کو ان آئی پی پیز کے منافعوں کی ادائیگی پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ مالی سال کی اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز کی وجہ سے اس وقت تک 25 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ملک میں آئی ہے۔ 1994-95ء میں لگنے والے پاور پلانٹس کی وجہ سے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملک میں آئی تھی۔ 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 1994ء سے 2012ء تک آئی پی پیز نے 9 ارب ڈالر کا غیر ملکی سرمایہ ملک میں لایا اور ان 18 سالوں میں 160 ارب ڈالر سے زائد رقم منافعوں کی شکل میں اس ملک سے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کی۔

آئی پی پیز کس کی ہیں؟

پی پی آئی بی کی ویب سائٹ پر آئی پی پیز کے نام اور پیداواری صلاحیت سمیت معاہدے کی تاریخیں تو درج ہیں، تاہم ان آئی پی پیز کے مالکان، سرمایہ کاری اور آمدن کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ ان آئی پی پیز کی پیرنٹ کمپنیوں، مالکان یا سرمایہ کاری کی تفصیلات ان کی اپنی ویب سائٹوں پر بھی موجود نہیں ہیں، نہ ہی حکومت کے کسی اورادارے نے تفصیلات مرتب کر رکھی ہیں۔

کچھ آئی پی پیز کی ویب سائٹس ہی موجود نہیں ہیں۔ تاہم مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ان کمپنیوں میں زیادہ تر پاکستانی سرمایہ داروں کی ملکیت میں ہی ہیں۔ کچھ کمپنیوں میں غیرملکی شیئر ہولڈرز موجود ہیں،کچھ کمپنیاں غیر ملکی ہیں اور وہ پاکستانی عسکری اداروں اور نجی کمپنیوں کے اشتراک سے یہ آئی پی پیز چلا رہی ہیں۔

ان آئی پی پیز میں امریکہ، جاپان، جرمنی، آئرلینڈ، فرانس، موریشس، چین، دبئی اور ملائشیا وغیرہ کی سرمایہ کاری موجود ہے۔ کچھ غیر ملکی کمپنیوں کی رجسٹریشن ٹیکس ہیونز، برٹش ورجن آئی لینڈ وغیرہ میں ظاہر کی گئی ہے۔ زیادہ تر کی سرمایہ کاری پاکستانی سرمایہ دار گروپوں کے اشتراک سے ہی موجود ہے۔

 

ان پاکستانی سرمایہ دار گروپوں میں نشاط گروپ، سہگل گروپ، ڈسکان، گل احمد گروپ، صبا گروپ اور دیگر شامل ہیں۔ فوجی فرٹیلائزر و دیگر فوجی ادارے بھی آئی پی پیز کے یا تو مالک ہیں یا پھر شریک حصہ دار ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد بھی مالکان اور حصہ داران میں موجود ہے۔ ان سیاستدانوں میں جہانگیر ترین، آصف علی زرداری، عبدالرزاق داؤد، یوسف رضا گیلانی، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خسرو بختیار، سلیم سیف اللہ سمیت دیگر سیاستدان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور سابق ڈپلومیٹس بھی شریک حصہ دار ہیں۔

یوں حکمرانوں نے ورلڈ بینک اور امریکہ کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انتہائی منافع بخش سرمایہ کاری کیلئے پاور پالیسی ترتیب دی اور اس پاورپالیسی سے اربوں ڈالر کا منافع بھی خود ہی لوٹ کر یہاں سے قانونی طورپر بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف اس ساری لوٹ مار کی قیمت محنت کش عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔

یہاں یہ یاد رہے کہ گزشتہ دور حکومت میں ان آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ریوائز کئے گئے تھے۔ ادائیگیاں ڈالر میں ہی کی جانی تھیں، تاہم ایکسچینج ریٹ 148 روپے فکس کیا گیا تھا۔ ان نظر ثانی شدہ معاہدے پر البتہ ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔

حل کیا ہے؟

تمام آئی پی پیز کو فوری طور پر قومی تحویل میں لیا جائے۔ حکمرانوں نے اپنے لئے پالیسیاں بنا کر، جو گزشتہ 27 سالوں کے دوران اس ملک کے شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے، اس کا تخمینہ لگا کر ان آئی پی پیز کے مالکان کی دولت کو ضبط کر کے وہ رقم واپس حاصل کی جائے۔ صرف ان دو اقدامات کے ذریعے سے بجلی کی پیداواری لاگت کئی سو گنا کم ہو جائے گی۔

اسی ضبط شدہ دولت کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹرانسمیشن لائنوں کو بہتر کیا جائے تو 34 فیصد لائن لاسز کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں سستے ترین ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی ہی ملکی ضرورت سے زیادہ ہو سکتی ہے، جس کی بنیاد پر شہریوں کو ٹیکس شامل کر کے بھی 2 سے 5 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔

تاہم اس نظام کے اندر رہتے ہوئے یہ اقدام اٹھانا اس لئے ممکن نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ یہ نظام ان کے تحفظ کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے، جنہوں نے بجلی کے نام پر انسان دشمن پالیسیاں نافذ کر کے دہائیوں تک یہ لوٹ مار کی ہے۔ عوامی جدوجہد ہی وہ کسوٹی ہے، جو نہ صرف حکمرانوں کو یہ اقدامات اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہے، بلکہ اس نظام کو تبدیل کرنے کابھی موجب بن سکتی ہے۔

 

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔