خبریں/تبصرے

آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط سماجی بغاوت کو جنم دے سکتی ہیں: سابق گورنر سٹیٹ بینک

لاہور(جدوجہد رپورٹ)اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق قائم مقام گورنر اور آئی ایم ایف کے سابق عہدیدار مرتضیٰ سید نے خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 7ارب ڈالر کا 24ویں پروگرام کا معاہدہ عوام پر ناقابل برداشت کفایت شعاری نافذ کرنے کا باعث بنے گا۔ یہ دنیا کے پانچویں بڑے ملک میں ایک بڑی سماجی بغاوت کو جنم دے سکتا ہے، جیسا کہ گزشتہ ماہ کینیا میں ہوا ہے۔ یہ وقت آنے پر قرض دہندگان کیلئے بھی گہرے نقصانات کا باعث بنے گا اور پاکستان میں آئی ایم ایف کا پہلے سے خراب امیج مزید ٹوٹ سکتا ہے۔

یہ باتیں انہوں نے ’فنانشل ٹائمز‘ میں رواں ہفتے شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں آئی ایم ایف کے ساتھ یہ سٹاف لیول معاہدہ کیا گیا ہے۔ تاہم جاری ہونے والی پریس ریلیز میں حیران کن طور پر قرض کی پائیداری کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

رواں سال مئی میں ہی آئی ایم ایف پاکستان کے قرض کو غیر پائیدار قرار دینے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اپنی آخری سٹاف رپورٹ میں آئی ایم ایف نے متنبہ کیا تھا کہ بہت بڑی مجموعی مالیاتی ضروریات اور بیرونی فنانسنگ کے حصول میں مسلسل چیلنجوں کے پیش نظر قرض کی پائیداری کے خطرات شدید ہیں۔

آئی ایم ایف کے مطابق اگلے 5سال تک ہر سال کیلئے پاکستان پر دنیا کا اصل ادائیگیوں کی مد میں 19ارب ڈالر قرض ہے، جو اس کی کل برآمدی آمدن کے نصف سے زیادہ ہے۔ پاکستان کو ہر سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی فورکاسٹ کو پورا کرنے کیلئے کم از کم 6ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، جس سے 2029تک کل بیرونی فنانسنگ کی ضرورت کم از کم 25ارب ڈالر سالانہ ہو جائے گی، جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 9.5ارب ڈالر سے کم ہیں۔

اگلے 5سال تک حکومت کو جی ڈی پی کا اوسطاً6.5فیصد ہر سال قرض پر سود ادا کرنا ہوگا اور پاکستان مجموعی طور پر جی ڈی پی کا بمشکل 10فیصد ٹیکس جمع کرتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ درج بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کا قرضوں میں ریلیف کے بغیر اس مشکل سے نکلنا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔

دوسرے لفظوں میں پاکستان مزید قرض لئے بغیر اپنی بیرونی مالیاتی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بامعنی ایف ڈی آئی(فارن ڈائریکٹر انوسٹمنٹ)نہیں آرہی اور پاکستان کا نجی شعبہ بیرون ملک سے سرمائے کی آمد پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ ایف ڈی آئی سالانہ 2ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔

مثال کے طور پر آئی ایم ایف جو 7ارب ڈالر قرضہ دے گا، وہ اس رقم سے کم ہے جو پاکستان کو اگلے 4سالوں میں آئی ایم ایف کی ادائیگیوں کیلئے درکار ہے۔

پاکستان کا عوامی قرضہ جی ڈی پی کے 77فیصد پر ہے، جو پہلے ہی اس سطح سے اوپر ہے، جسے ابھرتی ہوئی مارکیٹ کیلئے ضرورت سے زیادہ سمجھا جاتا ہے، مزید قرضہ خطرناک ہوگا۔مجموعی مالیاتی ضروریات (بجٹ خسارے اور آئندہ سال میں واجب الادا قرضوں کا مجموعہ)جی ڈی پی کے 24فیصد پر ہیں، ایمرجنگ ورلڈ میں جو مصر کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اس کیفیت میں مناسب قیمت پر غیر ملکی قرض لینا بہت مشکل ہو جائے گااور قرضوں کا بوجھ ملکی سرمایہ کاری اور معاشی نمو پر بوجھ بنتا رہے گا۔

پاکستان کی حکومت ترقی پذیر دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں معیشت کے حصے کے طورپر سود پر زیادہ ادائیگی کرتی ہے، جو 6فیصد ہے۔ اسی طرح دنیا میں حکومتی محصول کے تناسب میں سری لنکا کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ یعنی 65فیصد سود کی ادائیگی کرتا ہے۔ اس بھاری سود کے بوجھ کے نتیجے میں حکومت کے پاس سماجی اخراجات کیلئے کوئی وسائل نہیں بچتے اور سماجی اخراجات میں یہ دنیا میں سب سے نیچے ہے۔ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے، کیونکہ سماجی اخراجات آبادی کی مہارت کو اپ گریڈ کرنے اور ملازمتوں، برآمدات اور معیشت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے معیار کو بڑھانے کیلئے اہم ہیں۔

درحقیقت پاکستان کی حکومت تعلیم کے مقابلے میں سود پر تقریباً تین گناہ زیادہ خرچ کرتی ہے۔ سری لنکا کے بعد ترقی پذیر دنیا میں یہ دوسرا بدترین تناسب ہے۔

اسی طرح صحت پر خرچ کرنے سے تقریباً6گنا زیادہ سود پر خرچ ہوتا ہے، یہ بھی صرف یمن، انگولا اور مصر سے کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کمر عمر کے 40فیصد بچے سٹنٹڈاور2کروڑ60لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں۔

قرض کی ادائیگی کی بڑی ذمہ داریاں ملک کے مستقبل کیلئے ضروری دیگر اخراجات کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں۔ حکومت سرمایہ کاری کے مقابلے میں سود پر دوگنا خرچ کرتی ہے، یہ انگولہ اور لبنان کے بعد سب سے بری صورتحال ہے۔

پاکستان جی ڈی پی کا صرف12فیصد سرمایہ کاری کرتا ہے، جو عام طور پر پائیدار ترقی کیلئے ضروری سمجھی جانے والی رقم سے ڈھائی گنا کم ہے۔

انہوں نے لکھا کہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ مسائل عارضی نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف کے پروگرام میں فرض کی گئی جی ڈی پی کی شرح نموکا حصول کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر اگلے تین سالوں میں ایسا ہو بھی جاتا ہے، تب بھی سود پر حکومتی محصولات کا تقریباًنصف خرچ ہوگا، جو ظاہر کرتا ہے کہ قرضے پاکستان کیلئے کس حد تک ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔

رواں سال جنوری میں کئے گئے آئی ایم ایف کے قرض کی پائیداری کے تجزیہ کے مطابق حکومت کو اس سال پرائمری سرپلس پر چلانا شروع کرنا ہوگا اور پاکستان کے قرضے پائیدار بنانے کیلئے اسے آنے والے سالوں تک برقرار رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کو قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لینے کی کیفیت سے بچنے کیلئے حکومتی اخراجات جمع ہونے والے ٹیکس سے کم رقم میں چلانا ہونگے۔ آخری بار 20سال قبل دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان نے پرائمری سرپلس حاصل کیا تھا، جب غیر ملکی گرانٹس کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔

بنیادی طور پر آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قرضے کو پائیدار بنانے کیلئے ماضی کے تمام بڑے معاشی رجحانات کو کسی نہ کسی طرح ڈرامائی طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے لکھا کہ یہ خاص طورپر مایوس کن ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنی تازہ ترین کراس کنٹری تحقیق کو نظر انداز کر دیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالیاتی استحکام ترقی کو کم کر کے قرض کو مزید پائیدار بنانے میں ناکام رہتا ہے، خاص طور پر جب عالمی ماحول کمزور اور غیر یقینی ہے۔

اس کی بجائے پاکستان جیسی سنگین مصیبت کی صورتحال میں مالیاتی استحکام کی رفتار کو قرضوں کی تنظیم نو کے ساتھ ملا کر معتدل کیا جانا چاہیے۔ پاکستان پر جو کفایت شعاری شروع ہونے والی ہے، اس سے کہیں زیادہ دانشمندانہ راستہ یہ ہو گا کہ اس کے عوامی قرضوں کو ری پروفائل کیا جائے تاکہ وسائل کو ترقی اور آب و ہوا پر انتہائی ضروری اخراجات کیلئے آزاد کیا جا سکے۔

انہوں نے آخر میں لکھا کہ پاکستان دنیا میں قرضوں سے ڈوبتے60ملکوں میں سے ایک ہے، جبکہ ترقیاتی اخراجات کی اہم ضروریات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات کا سامنا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے کہ جب قرضوں میں ریلیف دینے اور سچ بولنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts