نقطہ نظر

حسینہ کے فرار کی توقع کسی کو نہیں تھی: نوین مرشد

فاروق سلہریا،حارث قدیر

ڈاکٹر نوین مرشد کہتی ہیں:’’لوگوں نے یہ شیخ مجیب کو مسترد نہیں کیا۔ نوجوان نسل تو انہیں زیادہ جانتی بھی نہیں ہے۔ یہ شیخ حسینہ کے اعمال کا رد عمل ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کیلئے جس طرح شیخ مجیب کو لوگوں پر مسلط کیا، یہ سب اس کا رد عمل ہے۔ ہر جگہ ان کے نشان تھے، ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ مجیب کا بنگلہ دیش ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرے باپ کا ملک ہے، میرے باپ نے ملک آزاد کروایا۔ انہوں نے اپنے باپ کو اتنا بیچا کے لوگ تنگ آگئے۔‘‘

ڈاکٹر نوین مرشد کولگیٹ یونیورسٹی ،نیو یارک میں پڑھاتی ہیں۔ دو کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ گذشتہ سال ان کی کتاب کیمبرج یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام India’s Bangladesh Problem: Marginalization of Bengali
Muslims in Neoliberal Times کے عنوان سے شائع ہوئی۔ 2013 میں ان کی کتاب ،بعنوان The Politics of Refugees in South Asia: Identity, Resistance, Manipulation اکیڈیمک کتابیں شائع کرنے والے معروف اشاعت گھر،روٹلیج، کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ انہوں نے سیاسیات میں پی ایچ ڈی(روچیسٹر یونیورسٹی) کر رکھی ہے۔

گذشتہ جمعرات کی شام،’جدوجہد‘ نے ان سے زوم انٹرویو کیا جس کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں زوم ریکارڈنگ ،تدوین کے بعد، ’جدوجہد‘ کی ویب سائٹ پر پوسٹ کر دی جائے گی۔

بنگلہ دیش میں حالیہ تحریک کے نتیجے میں عوامی لیگ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ آپ حالیہ تحریک میں متحرک رہی ہیں۔ جولائی سے شروع ہونے ان واقعات کا مختصر خلاصہ کیسے بیان کریں گی؟

نوین مرشد: میں نے کچھ زیادہ کردار تو ادا نہیں کیا، زیادہ تر مشاہدہ ہی کیا اور شرکت کم کی ہے۔ یہ طلبہ تحریک کے طور پر شروع ہوئی اور کوئی بہت زیادہ ترقی پسند تحریک بھی نہیں تھی۔ کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور نوکریوں سے متعلق ہی اس تحریک کی زیادہ توجہ رہی ہے۔ اصل میں یہ تحریک2018میں شروع ہوئی تھی۔ اس تحریک کی بنیاد 30فیصد نوکریوں پر فریڈم فائٹرز کے لئے کوٹہ مختص کئے جانے کے اقدام کی مخالفت تھی۔ تحریک میں شامل کچھ لوگ ہرطرح کے کوٹہ کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے اور کچھ فریڈم فائٹرز کے کوٹے کو ختم کرنے مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اولادوں تک تو کوٹہ ٹھیک تھا، لیکن اب پوتوں اور پڑپوتوں تک کیلئے یہ سب درست نہیں ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شروع میں حکومت مخالف احتجاج نہیں تھا۔

بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال زیادہ اچھی نہیں، بے روزگاری ے، مسلسل بڑھتا ہوا افراط زر ہے۔ اس ساری صورتحال سے طلبہ پریشان تھے اور انہیں تنگ معاشی حالات کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ابتدا میں ان کے 8نکاتی اور بعد ازاں 9نکاتی مطالبات تھے۔

2018میں جب یہ احتجاج شروع ہوئے تو وزیراعظم شیخ حسینہ واجد طلبہ کے پاس آئیں اور وعدہ کیا کہ وہ کوٹہ ختم کر دیں گی۔ اس وقت کوٹہ کم بھی ہوا لیکن سپریم کورٹ نے جب دوبارہ بحال کیا تو پھر احتجاج شروع ہو گیا۔

تحریک کے آغاز میں شیخ حسینہ مخالف جذبات بھی نہیں تھے۔ یہ تب ہوا جب انہوں نے احتجاج میں شامل لوگوں کو رضاکار قرار دیا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے لوگوں کو غدار قرار دیا۔ گزشتہ 15سالوں میں شیخ حسینہ حکومت کے دوران پولرائزیشن بہت بڑی ہے۔ جو حکومت کے حامی تھے انہیں فریڈم فائٹرز اور جو مخالف تھے انہیں رضاکار یعنی اینٹی نیشنل قرار دیا گیا۔ مظاہرین کو دبانے کیلئے بھی یہی ہتھیار استعمال کیا گیا۔

یہ اہم موڑ تھا جب وزیراعظم نے احتجاج کرنے والے طلبہ کو رضاکار قرار دیا۔ اس کے بعد طلبہ کے نعرے تبدیل ہو گئے ۔ اس طرح تحریک بھی اینٹی کوٹہ سے حکومت مخالف احتجاج اور بغاوت میں تبدیل ہو گئی ۔

وزراء نے کہا کہ چھاترو لیگ ان فسادیوں کو جواب دے گی۔ چھاترو لیگ نے مظاہرین کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور اس کیفیت کے بعد یہ احتجاج پرتشدد بھی ہوتا گیا۔ حکومت نے مذاکرات کی بجائے جبر کا راستہ اختیار کیا۔ کرفیو لگایا گیا، چھاترو لیگ اور پولیس نے مل کر کریک ڈاؤن شروع کیا۔

جب ابو سعید نامی ایک نوجوان کو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے کے واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پروائرل ہونا شروع ہوئیں تو پھر حکومت نے انٹرنیٹ بھی بند کر دیا۔ حکومت نے طلبہ کو مظاہرین کی بجائے دہشت گرد قرار دینا شروع کر رکھا تھا۔

انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے لوگ ٹی وی چینلوں پر ہی انحصار کرنے پر مجبور تھے، جو ریاست کیلئے پروپیگنڈہ مشین بن چکے تھے۔

افوہیں تھیں کہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سے فائرنگ ہو رہی تھی،چھتوں پر سنائپرز تعینات تھے جو گولیاں برسا رہے تھے، ساؤنڈ گرینیڈ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جا رہی تھی۔اس میں شائد کچھ حقیقیت بھی تھی۔ ایسی پرتشدد کیفیت میں لوگوں کو کوئی معلومات نہیں مل رہی تھی۔ لوگ مر رہے تھے اور تشدد بڑھتا جا رہا تھا۔ کھڑکیوں میں کھڑے 7بچوں کی گولیاں لگنے سے موت ہوئی۔ چار روز کے بلیک آؤٹ میں پہلے روز 100پھر اگلے روز اسی طرح لوگ مرتے رہے۔ چار دنوں میں کہا جا رہا ہے کہ 200سے 500لوگ مارے گئے۔ کسی کے پاس کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں تھے۔ لوگوں کو لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ ایسا ہے جیسے بھارت کشمیر کو کنٹرول کرنے کیلئے کرتا ہے۔

یوں ایسی کیفیت بن گئی کہ اب طلبہ ہی نہیں بلکہ ہر کوئی سڑکوں پر تھا۔ پہلے چند مقامات پر احتجاج تھا اب ہر گلی، محلے اور ہر جگہ احتجاج تھا۔ جب صورتحال کنٹرول سے باہر ہو گئی تو وزیراعظم نے مذاکرات کی پیشکش کی، لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ طلبہ نے کہا کہ مذاکرات کے دروازے کھولنے کی بجائے بہتر ہے آپ اقتدار کے دروازے سے باہر نکل جائیں۔ اب آپ کی ضرورت نہیں رہی ہے۔

اس بلااشتعال تشدد نے 9نکاتی مطالبات کو ایک نکاتی مطالبہ میں تبدیل کر دیا۔ وہ مطالبہ شیخ حسینہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ تھا۔ مذاکرات کی بجائے جبر کے ذریعے احتجاج کو روکنا، سازش اور ملک دشمنی قرار دینا احتجاج کو اس نتیجے تک لے جا چکا تھا کہ اب شیخ حسینہ کا اقتدار لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں تھا۔ شیخ حسینہ کے استعفیٰ کی مانگ دیگر جگہوں سے بھی آنا شروع ہو گئی اور بالآخر پورا ملک ایک مطالبہ پر اکٹھا ہو چکا تھا۔

عبوری سیٹ اپ کے حوالے سے تاثر یہ ہے کہ یہ فوج کے کنٹرول میں ہوگا۔ فوج کے سیاسی کردار سے متعلق کچھ بتائیں، کیونکہ ملک کی ایک فوجی اقتدار کی طویل تاریخ ہے۔ یہ بتائیں کہ فوج نے ہی کیوں مداخلت کی، کسی دیگر آئینی ادارے نے کیوں مداخلت نہ کی؟

نوین مرشد: بنگلہ دیشی عوام کی فوجی اقتدار کے حوالے سے کوئی زیادہ مثبت یادیں نہیں ہیں۔ تاہم اس وقت اہم یہ ہے کہ شیخ حسینہ کا دور کتنا طویل تھا۔ 15سال میں انہوں نے سیاسی ادارے بنانے کی بجائے تباہ کئے۔ عدلیہ کو استعمال کیا، پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت تھی۔ طاقت کی منتقلی اور استعفیٰ کے بعد ایک خلا تھا۔ وزیراعظم چاہتی تھیں کہ ملٹری ان کے اقتدار کیلئے پارٹنرشپ کا کردار ادا کرے ۔ تاہم فیصلہ کن وقت میں ملٹری نے اسے مسترد کیا۔

شیخ حسینہ نے فوج کو برسوں میں پالا اور وہ ان کے سب سے بڑے اتحادی تھے۔موجودہ فوجی سربراہ حسینہ کے رشتہ دار ہیں۔ آخری دور میں وہ چاہتی تھیں کہ استحکام کیلئے پولیس اور فوج طاقت کا استعمال کریں۔ فوج وزیراعظم کے ساتھ ہی تھی اور وہ یہ سب کچھ انہیں محفوظ راستہ دینے کیلئے کیا گیا ہے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ وہ بھاگیں گیں۔ پہلے بھی کوئی نہیں بھاگا، ساری اپوزیشن قیادت جیلوں میں تھی۔ شیخ حسینہ کو البتہ خطرہ تھا کہ انہیں مار دیا جائے گا۔ ان کے آمرانہ اقتدار اور جبر کی وجہ سے لوگ ان پر بہت غصہ تھے اور ان کی رہائش گاہ پر جس طرح حملہ اور گھیراؤ کیا گیا۔ یہ ہو سکتا تھا کہ لوگ انہیں جان سے مار دیتے۔ اس سب کے باوجود ان کا بھاگنا ہر ایک کیلئے ایک سرپرائز تھا۔

کوئی اور ادارہ اور پارٹی وزیراعظم نے بننے ہی نہیں دی۔ کوئی سیاسی متبادل نہیں تھا، اس لئے فوج کو ہی آنا پڑا۔ لوگ جمہوریت کی واپسی چاہتے تھے اور حسینہ کو کوئی نہیں چاہتا تھا۔ سب کچھ اتنی تیزی میں ہوا کہ اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں تھا کہ فوج فوری طور پر کنٹرول سنبھال لے اور پھر وہی ہوا۔

بھارتی میڈیا کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سیکولر بنگلہ دیش کیلئے یہ تحریک ایک سیٹ بیک ہے۔ مندروں پر حملے بھی ہوئے ۔ گو نوجوانوں کی جانب سے اقلیتی مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ کرنے کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔ پھر بھارت اور پاکستان میں بھی بنیاد پرستی کی جڑی گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں آپ سیکولرازم کے مستقبل کے حوالے سے کیسے تجزیہ کریں گی؟

نوین مرشد: میرے خیال میں تمام سیاسی کرداروں نے اسلام پسندی کے ممکنہ غلبے یا خطرے کے نعرے کو استعمال کیا اور اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ بھارت بھی یہی کر رہا ہے۔ شیخ حسینہ بھی یہی کارڈ استعمال کر کے اقتدار میں تھیں۔ ان کا بیانیہ تھا کہ اگر انہیں ہٹایا گیا تو اسلام پسند قوتیں اقتدار میں آجائیں گی اور سیکولرازم کو خطرہ ہوگا۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ یہاں ہیں ہی نہیں، لیکن اتنی بڑی سیاسی قوت نہیں ہیں۔ دوسری جانب شیخ حسینہ نے بھی اسلام پسندوں کوجگہ دی۔ حفاظت الاسلام نامی گروپ شیخ حسینہ کیلئے ہی کام کرتا تھا ۔

فار رائٹ اور بنیاد پرست گروپ ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی(بی این پی) بھی اسلام پسند وں کا کارڈ استعمال کرتی ہے۔ اسی طرح رضاکار کا نام بھی تواتر سے اسی لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ رضاکار ہے۔ اگر آپ کوٹہ پر اتفاق نہیں کرتے تو آپ اسلام پسند ہیں۔ یہ درحقیقت مغربی پروپیگنڈہ بھی ہے۔ اسلاموفوبیا ہے جو مغرب سے مستعار لیا گیا ہے اور اقتدار کیلئے اسے مینوفیکچر کر کے استعمال کیا جا رہا ہے۔

برصغیر بھر میں اور بنگلہ دیش میں بھی شیخ مجیب کے مجسموں اور یادگاروں کو توڑنے کے واقعات پر تبصرے ہو رہے ہیں۔شیخ مجیب کے گھر کو بھی جلایا گیا۔ یہ بتائیں کہ بنگلہ دیش کے معاشرے نے اس پر کیسے رد عمل دیا۔ پاکستانی میڈیا تو شیخ مجیب کو مسترد کئے جانے کی خوشی منا رہا ہے۔ جماعت اسلامی بھی خوشی کا اظہار کررہی ہے۔ آپ اس پر کیا کہیں گی؟

نوین مرشد: یہ بہت دلچسپ اور المناک ہے کہ کیسے ایک بیٹی نے اپنے مرے ہوئے باپ کے ساتھ یہ سب کروا دیا ہے۔ انہوں نے شیخ مجیب جو کبھی اس قوم کے ہیرو تھے انہیں ایک مونسٹر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہر کوئی انہیں فادر آف نیشن قرار دیتا تھا۔ ملک میں ہر جگہ ان کے نام سے منسوب ہے۔ ان کی قیادت میں بنگلہ دیش آزاد ہوا۔ تاہم جو کچھ شیخ حسینہ نے ان کا نام استعمال کر کے کیا، لوگ اس سے تنگ آچکے تھے۔

لوگوں نے یہ شیخ مجیب کو مسترد نہیں کیا۔ نوجوان نسل تو انہیں زیادہ جانتی بھی نہیں ہے۔ یہ شیخ حسینہ کے اعمال کا رد عمل ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کیلئے جس طرح شیخ مجیب کو لوگوں پر مسلط کیا، یہ سب اس کا رد عمل ہے۔ ہر جگہ ان کے نشان تھے، ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ مجیب کا بنگلہ دیش ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرے باپ کا ملک ہے، میرے باپ نے ملک آزاد کروایا۔ انہوں نے اپنے باپ کو اتنا بیچا کے لوگ تنگ آگئے۔

شیخ مجیب نے یہ کچھ کبھی خود اپنے بارے میں نہیں کہا۔ ان کی بیٹی نے اپنے اقتدار کیلئے انہیں مونسٹر بنا دیا اور میرا خیال ہے ایسی بیٹی کسی باپ کی نہیں ہونی چاہیے۔

جنگ آزادی بنگلہ دیشی شناخت اور قومی ریاست کیلئے بہت اہم رہی ہے۔ جنگ آزادی کے ہیرو کے مجسموں کی تباہی کے بعد اس بیانئے کا مستقبل کیا ہوگا؟

نوین مرشد: یہ کسی حد تک درست ہے کہ احتجاج میں ہم نے ایک قوم پرستانہ تاثر دیکھا۔ ہر کسی نے قومی پرچم اٹھا رکھا تھا۔ 1971کے زخم بھی ابھی تک ہرے ہیں۔ جو کچھ بنگلہ دیش کے لوگوں کے ساتھ کیا گیا اس پر پاکستان نے کبھی معافی نہیں مانگی۔ ایک توقع اب بھی ہے کہ شاید کوئی اس سب کو تسلیم کرے ۔ جنگی جرائم کو قبول کرنے اور انصاف کا معاملہ پتہ نہیں کتنا وقت لے گا۔

یہ جنگی جرائم ریکارڈ پر بھی ہیں۔ بنگلہ دیشی شناخت کے ساتھ ساتھ 1971کے واقعات سے بہت کچھ منسلک ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو ابھی تک کہتے ہیں کہ انہیں انصاف ملنا چاہیے۔ سہولت کاروں اور ظالموں کو سزائیں ملنی چاہئیں۔ کچھ ہیں جو آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ بہت سے مخالف بیانئے بھی ہیں جو 1971کے واقعات کے ساتھ جڑے ہیں۔ تاہم لوگ انصاف چاہتے ہیں۔

ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ وفاداری کو جاری رکھنے کیلئے اس بیانئے کو استعمال کرنے کی وجہ سے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں ۔

یہ بتائیں کہ خواتین اور طلبہ کا تحریک میں کردار کس طرح کا رہا۔ ماضی میں پاکستان میں بھی طلبہ متحرک رہے، تاہم اب ایسا نہیں ہے۔بنگلہ دیش میں صورتحال کیا ہے؟

نوین مرشد: طلبہ ہمیشہ ہی بنگلہ دیش میں فیصلہ کن رہے ہیں۔ 1951-52سے 1971تک بے شمار تحریکوں میں طلبہ ہر اول کردار کے طورپر شریک رہے ہیں۔ آزادی کے بعد بھی جمہوریت کیلئے طلبہ تحریکوں کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔ اس بار بھی طلبہ ہی تھے، جو باہر آئے اور سب کچھ تبدیل کر دیا۔ اب یہ ہو سکتا ہے کہ طلبہ کی جانب سے لائی جانے والی تبدیلی کا فائدہ سیاسی قیادتیں اٹھائیں گی۔

خواتین بھی بہت بڑی تعداد میں اس تحریک میں شریک رہی ہیں۔تحریک کے زیادہ تر کوآرڈینیٹرز تو مرد تھے لیکن خواتین بہت بڑی تعداد میں اس تحریک کا حصہ تھیں۔

محمد یونس عبوری حکومت کی قیادت کریں گے اور نگران سیٹ اپ میں بھی خواتین کی اچھی تعداد کو شامل کیا گیا ہے۔ لوگ اب کہتے ہیں کہ پہلے ایک خاتون اقتدار میں تھی اب چار پانچ خواتین اقتدار میں آگئی ہیں۔

یونیورسٹی ٹیچرز کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک اس تحریک میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کا اس میں مرکزی کردار رہا ہے اور بہت سی خواتین پروفیسرز بھی اس تحریک کا حصہ رہی ہیں۔

کچھ لیفٹ کے گروپ شیخ حسینہ کے اتحادی تھے اور شاید حکومت کا حصہ بھی تھے۔ ان کا اس تحریک میں کردار کیا تھا؟ بایاں بازو اس تبدیلی کے ساتھ کیسے منسلک ہو سکتا ہے اور بائیں بازو کے مطالبات کیا ہونے چاہئیں؟

نوین مرشد: بائیں بازو کا کردار مایوس کن رہا ہے ۔، وہ عوامی لیگ کے ساتھ تھے۔ اس تحریک میں بھی ہم نے زیادہ کچھ نہیں دیکھا۔ کچھ طلبہ پر بہت تنقید کر رہے تھے ۔ لیفٹ پارٹیوں کو ابھی بھی اسلام سے مسئلہ ہے۔ 90فیصد آبادی مسلم ہے لیکن سب بنیاد پرست نہیں ہیں۔ مذہب کی مخالفت کرتے کرتے لیفٹ کے لوگ غیر متعلق ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی بڑی قوت نہیں ہیں۔ ان کیلئے بس طبقہ اہمیت رکھتا ہے باقی کوئی مسئلہ ان کیلئے اہم ہے ہی نہیں۔ بہر حال سماجی ناانصافیوں کے خلاف لوگوں کو متحرک کرنے میں ان کا کچھ کردار ضرور رہا ہے۔

دوسری جانب لیفٹ کی جانب رجحان رکھنے والی تنظیمیں بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ روایتی بایاں بازو نہیں ہے البتہ وہ اس تحریک میں بھرپور طریقے سے سرگرم رہے ہیں۔ ان کی طلبہ تنظیمیں چھاترو فیڈریشن، چھاترو فرنٹ سمیت دیگر طلبہ تنظیمیں بہت سرگرم رہی ہیں۔ ان کا تحریک بنانے میں کافی اہم کردار رہا ہے۔ سیاسی پوزیشن کے حوالے سے بھی روایتی لیفٹ پارٹیاں تو نہیں تھیں، لیکن ترقی پسند تنظیمیں طلبہ کے ہمراہ تھیں۔

اب مستقبل کیلئے سب سے بڑی چیز تو جمہوریت ہے، جس کی ہر ایک کو بات کرنی چاہیے۔ نمائندہ جمہوریت کی بات کی جائے، لوگوں کی نمائندگی،مزدوروں، کسانوں اور عام عوام کی نمائندہ جمہوریت کی بات ہونی چاہیے۔

سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ یہ تحریک بی این پی کو سیاسی فائدہ پہنچائے گی حالانکہ یہ اس کیلئے نہیں تھا، لیکن حالات کا فائدہ سب سے زیادہ انہیں جاتا نظر آرہا ہے۔ ملٹی پارٹی جمہوریت ہونی چاہیے۔ لوگوں کو جمہوریت کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں ہے اور ایک ترقی پسند مستقبل کی امید ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔