پاکستان

بلوچستان کا حل سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد نہیں ہے

فاروق سلہریا

پیر کے روز سے بلوچستان روایتی میڈیا، سوشل میڈیا، حتیٰ کہ عالمی نیوز چینلز کی شہ سرخیوں میں تھا۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے ایک طرف، پھر سے پنجابی مزدوروں کو قتل کر کے لاشیں پنجاب بھیجیں تو دوسری طرف پورے صوبے کی شاہرات کو بند کر کے پاکستانی ریاست کو چیلنج کیا۔

ایک ویڈیو پیغام میں بی ایل اے نے پاکستان کے علاوہ چین کو بھی متنبہ کیا کہ وہ سی پیک کے منصوبے سے باز آ جائے۔

سب سے پہلی بات: بے گناہ مزدوروں کا قتل قابلِ مذمت ہے۔ نہتے اور عام شہریوں کا قتل کرنا دہشت گردی ہے، چاہے کوئی ریاست کرے یا کوئی غیر ریاستی گروہ۔

دوم: بلوچستان میں حالات کی خرابی کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے،بلوچ مسلح گروہوں پر نہیں۔ جب بھی اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں، ریاستی مشینری مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے صوبائی منافرت کو خوب ہوا دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز،بلوچ مخالف مواد کی بھر مار سے بلوچستان میں آگ نہیں بجھائی جا سکتی۔ بلوچ کے ہر جائز حق کو تسلیم کرنا ہو گا۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا۔ بلوچستان کے لوگوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔

سوم:موجودہ بلوچ علیحدگی پسند تحریک نے جس قسم کے نظریات اور طریقہ کار کو اپنایا ہے اس نے پاکستانی ریاست کے زیر انتظام علاقے میں طبقاتی اتحاد کو نا ممکن بنا دیا ہے۔ ان کا گوریلا طریقہ کار خود بلوچ یکجہتی کونسل جیسی بلوچ انتفادہ کی پینٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ اس کا ایک اظہار یہ ہے کہ حملہ بی ایل اے نے کیا ہے،سوشل میڈیا پر ہر قسم کی خرافات ماہرنگ بلوچ اور لا پتہ افراد کے خلاف پوسٹ کی جا رہی ہیں۔

بد قسمتی سے بایاں بازو ملک بھر میں اتنا کمزور ہے کہ قومی سطح پرکسی قسم کا کوئی متبادل فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ترقی پسند کہلانے والے بعض افراد مسئلے کو سمجھنے کی بجائے،لاہور میں بیٹھ کر بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد قرار دے کر اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔

نہتے پنجابی مزدوروں پر بلوچ لبریشن آرمی کے حملے اندھی قوم پرستی کا دہشت پسند اظہار ضرورہیں لیکن بائیں بازو کی جانب سے انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کی گوریلا جدوجہد کو ناجائز بنانے کی کوشش بھی پاکستانی شاونزم کا اظہار ہے، سوشلزم کا نہیں۔

بائیں بازو کا مطالبہ ہونا چاہئے:

بلوچستان میں فوری طور پر سیز فایر کا فوری اعلان کیا جائے۔

لاپتہ افراد کی بازیابی عمل میں لائی جائے۔

جمہوری سیاسی قوتوں کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہئے اور ممکنہ حل میں حق خود ارادیت کو تسلیم کیا جائے۔

یہ تسلیم کیا جائے کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچ کا ہو گا(بلوچ سے مراد بلوچ سردار نہیں ہے)۔

مین اسٹریم میڈیا میں قوم پرست اور ترقی پسند بلوچ آوازوں کو مکالمے کا موقع دیا جائے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔