نقطہ نظر

سیکولرازم کیا ہے اور سیکولر سیاست و ریاست کیوں ضروری ہے؟

آتش خان

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کی کامیابی نے جہاں ریاست کی مادی قوت کو شکست دی ،وہاں سامراجی تسلط اور سرمایہ دارنہ استحصال کے جواز مہیا کرنے والے نظریات کو بھی شکست سے دوچار کیا۔محنت کش عوام اور نوجوانوں میں سماج کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے والے نظریات کو سیکھنے کی پیاس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔قومی آزادی، سیکولرازم اور سوشلزم کے نظریات اور اصطلاحات پر بحث میں اضافہ ہوا ہے۔نوجوانوں اور محنت کشوں کے ترقی پسند نظریات اور رحجانات کی جانب جھکاؤ نے مقتدر قوتوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔سیکولر سیاست پر یقین رکھنے والے سوشلسٹ اور نیشنل اسٹ رحجانات کے خلاف ریاست کے آلہ کاروں کے ذریعے کفر و الحاد کے فتوے اور مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔

حکمران طبقہ مختلف سیاسی اصطلاحات کے معنی اور مفہوم کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے تبدیل کر دیتا ہے۔ان الفاظ کے معنی اور مفہوم بدلنا زیادہ آسان ہوتا ہے ،جو دوسری زبانوں سے مستعار لیے گئے ہوں۔پاکستان میں تو یہ چلن عام ہے۔ امریکی مفادات کے لیے مذہب کے نام پر قائم ہونے کی وجہ سے یہاں ہر اس نظریے یا سوچ کو کفر قرار دیا جاتا ہے جو سرمایہ داروں، جاگیرداروں، جرنیلوں اور ملاؤں کی حاکمیت کو چیلنج کرے۔سوشلزم جس کا اردو میں مطلب اشتراکیت ہے اس کو کفر یا دہریت کہا جاتا ہے۔اسی طرح سیکولرازم کو بھی لادینیت کہا جاتا ہے۔

سیکولرازم کی اصطلاح کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے حکمران طبقے کے مفادات کے تحت مذہبی رہنماؤں کی طرف سے کی گئی سیکولرازم کی تعریف کی بجائے غیر جانبداری سے اس اصطلاح کو سمجھا جائے۔سیکولرازم کی بنیاد یہ ہے کہ انسانی معاملات کو غیر جانبدار انداز سے دیکھا جائے ،مذہب اور ریاست کے امورعلیحدہ رہیں۔یعنی مذہب کسی فرد کا ذاتی معاملہ ہو ریاست اور معاشرے کا فرد کے اس ذاتی معاملے سے لینا دینا نہ ہو۔سیکولرازم مذہب کے خلاف نہیں ہے ،بلکہ اس سے علیحدہ اور آزاد ہے۔ریاست مذہب کی بجائے تمام شہریوں کے لیے قابل قبول عمرانی معاہدے کے ذریعے امور سرانجام دے تو تمام نسلوں، زبانوں اور مذاہب اور افراد کا ریاست سے تعلق ایک جیسا بنتا ہے اور یہی ریاستی رویہ سماج کو مذہبی،لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم سے بچا سکتا ہے۔

سیکولرازم پر مذہبی رہنماؤں کے اعتراضات کا جائزہ لیں تو ان کا بنیادی اعتراض یہ ہوتا ہے ہمارا مذہب ہی واحد سچا مذہب ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس لیے ریاست کو ہمارے مذہب کے قوانین کے مطابق چلنا چاہیے۔یہ رائے کسی ایک مذہب کے رہنماؤں کی نہیں ہے ،بلکہ تمام مذہب کے رہنماؤں کا یہی ماننا ہے۔ان سے یہ سوال کیا جائے کے مذہب یکجا اکائی کی بجائے مختلف فرقوں کا الگ الگ مذہب ہے ،کون سے فرقے کے مذہب کا نفاذ کیا جائے تو کہتے ہیں ہمارے فرقے کا مذیب ہی اصل مذہب ہے باقی فرقے باطل ہیں۔اگر مذہبی فرقوں کے عقائد سے بالا عمومی مذہبی قدروں پر مبنی اصول نافذ کیے جائیں، جہاں فرقوں کی حیثیت برابر ہو تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ریاست کو مذہب سے بلند تر انسانی حقوق پر تشکیل دیا جائے۔کوئی ریاست کئی اعتراضات کو برابر کا درجہ اور حقوق دے گی تو وہ مذہبی نہیں رہے گی ۔اگر وہ صرف ایک عقیدہ تسلیم کرے گی تو اسے باقی تمام عقائد کو ملحد قرار دینا ہو گا۔مسلمان اس وقت مختلف ریاستوں میں مختلف قوانین اور طرز حکومتوں کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کہیں بادشاہت ہے تو کہیں فوجی آمریت اور کسی جگہ جمہوری حکومت، مذہب ہر جگہ ریاست کہ تابع ہے اور آئین یا طرز حکومت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کر رہا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے اصول اور تقاضے یہی ہیں جن کی یہ ریاستیں اور ان کو چلانے والی حکومتیں پابند ہیں۔سرمایہ دار طبقہ جس نے پہلی مرتبہ ریاست کو مذہب سے الگ کیا ،اسی طبقے نے سامراجی مقاصد اور محنت کشوں کی تحریکوں کو تقسیم کرنے کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال بھی کیا۔دنیا میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے والی ریاست اسرائیل کی بنیاد برطانوی سامراج نے رکھی۔انہی مقاصد کے لیے برطانوی سامراج نے ہی مذہب کی بنیاد پر برصغیر کی ہزاروں سالہ پرانی تہذیبوں کو چیر کر پاکستان کی بنیاد بھی رکھی۔

آج مودی سرکار اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے بھارت میں ہندوتوا کے رجعتی نظریات کو جبر کے ذریعے سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے ،جس کے خلاف مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں میں شدید تحفظات اور بے چینی پائی جاتی ہے۔مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف بنائے گے امتیازی قوانین کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔دیوبند ہند سمیت تمام مکاتب فکر کے مسلمان علماء کا یہ موقف ہے ہم سیکولرازم کے دفاع کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان میں یہی مکاتب فکر سیکولرازم کا نام لینے پر کفر کے فتوے دیتے ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کس طرح حکمران طبقے کے مفادات کے تحت یکساں فکر رکھنے والے مذہبی فرقے مذہب کی مختلف تشریح کرتے ہیں۔سیکولرازم کے حوالے سے ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بھارت اور یورپ میں مسلمان اقلیت میں ہیں اس لیے وہاں سیکولرازم ٹھیک ہے لیکن پاکستان افغانستان اورعرب ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اس لیے وہاں مذہبی قوانین لاگو کرنے چاہئیں۔یہ دلیل جہاں اپنے آپ میں دہرا معیار رکھتی ہے، وہیں جہاں یہ تجربات کیے گئے وہاں کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ ایران میں شیعہ مسلمانوں کے مذہبی قوانین نافذ ہیں، جس کی مخالفت تمام دیگر مذہبی فرقے کر رہے ہیں اور وہاں سنی مسلمانوں کے خلاف بدترین ریاستی جبر ہے۔یہی کیفیت افغانستان اور پاکستان کی ہے ،جہاں ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور مذہبی فرقہ وارانہ نفرتوں کی بنیاد پر سیکڑوں مسجدوں اور درگاہوں پر خود کش حملے ہو چکے ہیں۔سیکولرازم کا کٹر مخالف بھی یہ گوارہ نہیں کرتا کہ ریاست اس کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرے، اس پر جبر کے ذریعے کوئی مخصوص عقائد مسلط کرے۔وہ لوگ بھی اپنی شخصی آزادی کا تقاضہ کرتے ہیں جو اپنے عقائد دوسروں پر جبر کے ذریعے مسلط کرنے کے حق میں ہیں۔اپنے حقوق اور آزادی تلف ہونے پر چیخ و پکار کرتے ہیں۔

وہ لوگ جو اجتماعی زندگی میں بہتری کے لیے سائنسی فکر اور منصوبہ بندی کو غیر ضروری اور غیر مذہبی سمجھتے ہیں ، وہ بھی انفرادی طور پر سائنسی ایجادات سے مستفید ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔علاج کے وقت ڈاکٹر سے اس کا مذہب نہیں پوچھا جاتا ہے۔دوا ساز کمپنیوں کے محنت کشوں کا تعلق کس مذہب یا ملک سے ہے اس سے بھی کسی کوکوئی سروکار نہیں ہوتا۔ پسماندہ ملکوں کے مذہبی رہنماؤں کو اپنے ہم مذہب ڈاکٹروں کے علاج سے زیادہ یقین غیر مذہب ڈاکٹروں پر ہوتا ہے۔ طارق جمیل نے علاج کے لیے پاکستانی ڈاکٹروں کی بجائے برطانوی ڈاکٹروں کو ترجیح دی۔اسی طرح سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ یہ کس مذہب کے ماننے والوں کا ہے یا ان کا کوئی مذہب ہے بھی یا نہیں۔سرمایہ دارانہ سامراجی نظام جس کے ہاتھوں کروڑوں محنت کشوں کی زندگی جبر مسلسل کا شکار ہے ،اس کے خلاف بات کی جائے تو ان مذہبی رہنماؤں کی چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے،اور ان کا مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو یہ مذہبی رہنماخدا کی تقسیم قرار دیتے ہیں اور شعوری یا لاشعوری طور پر سرمایہ داروں کی روحانی پولیس کا کردار ادا کرتے ہیں۔ساری دنیا کے قدرتی وسائل اور انسانی محنت پر چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجاراداری کو جائز قرار دیتے ہیں۔

اس وقت اس دنیا میں ساڑھے سات ارب انسان آباد ہیں ۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پیدواری صلاحیت اتنی ہے کہ آبادی اگر دوگنی بھی ہو جائے تو تمام انسانوں کو رہائش، خوراک، علاج تعلیم، روزگار اور ٹرانسپورٹ مہیا کی جا سکتی ہے۔سرمایہ داری میں پیداوار کا بنیادی مقصد انسانی ضروریات کی بجائے شرح منافع کا حصول ہے ،جس وجہ سے ہر چار سکینڈ میں ایک شخص بھوک سے مر رہا ہے۔34 کروڑ 50 لاکھ لوگ شدید بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔قابل علاج بیماریوں، خودکشیوں، جنگوں اور حادثات میں مرنے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔دوسری طرف 7 افراد کی دولت آدھی آبادی سے زیادہ ہے۔ یہ دولت خدا کا عطیہ نہیں ہے ،بلکہ محنت کشوں کی چوری کی گئی محنت سے حاصل کی جاتی ہے۔سرمایہ دار بھی محنت کشوں کا استحصال کرتے ہوئے اس بنیاد پر رحم نہیں کرتاکہ اس مزدور کا تعلق میرے مذہب سے ہے یا قوم سے ہے۔سرمایہ دار انہی ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ،جہاں ان کو زیادہ منافع ملے گا۔پاکستان اور بھارت کے سرمایہ دار دبئی میں مشترکہ کاروبار کرتے ہیں ،وہاں ان سرمایہ داروں کی کمپنیوں میں پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے محنت کشوں کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے۔ان محنت کشوں کا تعلق مختلف مذاہب اور ممالک سے ہونے کے باجود استحصال کی نوعیت اور شدت ایک جیسی ہوتی ہے۔جہاں حکمران طبقے کے طبقاتی مفادات بلاتفریق ملک و مذہب ایک ہیں ،وہاں برصغیر کے محنت کشوں سمیت ساری دنیا کے محنت کشوں کی جدوجہد بھی مشترک ہے۔ انسانوں میں جہاں مرد اور عورت سمیت مختلف جنسی رحجانات کی فطری حیاتیاتی تقسیم موجود ہے وہاں ان میں مختلف مذاہب،رنگوں،زبانوں اور قوموں کا فرق موجود ہے۔اس فرق کے باوجود تمام انسانوں کا تعلق نسل انسانی سے ہے جن کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے یکساں ضروریات ہیں۔اشتراکی سماج کا مقصد ذرائع پیداوار کا مقصد سرمایہ داروں کے منافعوں کی بجائے بلا تفریق تمام انسانوں کی ضروریات کی تکمیل ہے۔

جیسے طبقاتی جدوجہد کو بلا تفریق مذہب اور نسل کے سیکولر بنیادوں پر استوار کر کے ہی سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح قومی آزادی کی لڑائی کو بھی درست بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے سیکولر سیاست لازم ہے۔ مذہب کی بنیاد پر قائم پاکستانی ریاست اپنے وجود کے نصف صدی سے بھی کم دورانیے میں ٹوٹ کے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔اپنے ہی مذہب کی بنیاد پر قائم ریاست کے قومی جبر سے آزادی کے لیے لاکھوں بنگالی مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔آج پختون خوا اور بلوچستان سے لے کر جموں کشمیر اور گلگت بلتستان تک طبقاتی و قومی جبر کے خلاف قومی آزادی کی تحریکیں موجود ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے جبر اور استحصال کرنے والے ہم مذہب ہی کیوں نہ ہوں، ان کے خلاف بغاوتیں، تحریکیں اور انقلابات لازمی ہیں ،جن کو اخلاقی درس اور مذہبی ہم اہنگی سے نہیں روکا جا سکتا ، نہ ہی یہ تحریکیں کفر کے فتووں اور غداری کے الزامات سے رک سکتی ہیں۔ریاست جموں کشمیر جہاں مختلف مذاہب اور قومیتوں کے افراد آباد ہیں ،اس مسلے کا بھی انقلابی حل جمہوری سوشلسٹ، خودمختار، سیکولر ریاست جموں کشمیر کا قیام ہے، جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیے جائیں۔وسائل کی منصفانہ تقسیم اور نظریات اور عقائد رکھنے کی آزادی دے کر ہی ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ایک اشتراکی سماج میں ہی ذرائع پیدوار کی ملکیت کوحکمران طبقے سے چھین کر سماج کی مشترکہ ملکیت بنایا جا سکتا ہے اورمذہب کو بھی حکمران طبقے کی اجارہ داری سے آزاد کر کے تمام انسانوں کو یہ اختیار مل سکتا ہے کہ وہ آزادی سے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کر سکیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts