پاکستان

امریکی میڈیا پر ٹرمپ کے حملوں سے پوری دنیا میں آزادی اظہار کو نقصان پہنچتا ہے!

قیصرعباس

صحافیوں کے ایک بین الاقوامی وفدنے پیر کے دن امریکی نائب صدر مائیک پینس سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی جس میں آزادی صحافت پربڑھتی ہوئی پابندیوں پر گفتگو کی گئی۔

اس ملاقات کا اہتمام صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم، سی پی جے (Committe to Protect Journalistas, CPJ)نے کیاتھا۔

وفد میں پاکستان سمیت ان ممالک کے صحافی شامل تھے جنہیں تنظیم 21 نومبر کو آزادی صحافت کے ایوارڈ دے رہی ہے۔

پاکستان کے انگریزی اخبار ”ڈان“ کے مدیر ظفر عباس کے علاوہ و فد میں برازیل کی پیٹریسیا کمپوز میلو، انڈیا کی نیہا ڈکشٹ، تنزانیہ کے میکسین میلوموبیازی، اور نکوراگوا کے دو صحافی لوسیا پنیڈ ا اور میگویل مگوراشامل تھے۔

صحافیوں نے نائب صدر کو بتا یا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پریس پر تنقید ی بیانات کے دوسرے ملکوں میں بھی اثرات ہوتے ہیں اور انہیں دہرایاجاتاہے جس پر انہیں تشویش ہے۔ پاکستانی صحافی ظفر عباس نے نائب صدر سے عالمی پیمانے پر آزادی صحافت پر پابندیوں کے خلاف اور صحافیوں کے حقوق کی حمائت میں بیانات جاری کرنے کی درخواست بھی کی۔

وفدنے امریکی نا ئب صدرکو اپنے اپنے ملکوں کے میڈیا اور صحافیوں پر بے جا پابندیوں سے آگاہ کیا جن کے تحت ذرائع ابلاغ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کس طرح نہ صرف میڈیا کے کارکنوں کو حکومت کی تنقید پر، جو ان کا آئینی حق ہے، ہراساں کیا جاتا ہے بلکہ ان کے اداروں کو بھی معاشی طورپر مفلوج کیا جارہا ہے۔

تنظیم کے ایگزیکٹو ڈا ئریکٹر جول سیمون نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا ہے کہ آزادی اظہار کی اس جدوجہد میں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور صحافی چاہتے ہیں کہ امریکی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہو۔ انہوں نے کہا ”صدر ٹرمپ کے ذرائع ابلاغ کے خلاف بیانات کو دوسرے ملکوں کے ڈکٹیٹر بھی قابل تقلیدسمجھ کر ان پر عمل کرتے ہیں۔ “

سی پی جے کے زیرِ اہتمام ایوارڈ یافتہ صحافیوں کا یہ وفد امریکی اداروں اورعالمی رہنماؤں سے ملاقات کے ذریعے آزادی اظہارپر بڑھتی ہوئی پابندیوں اور تشدد کی روک تھام پر موثر بات چیت میں مصروف ہے۔

ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی  سے ایم اے صحافت کے بعد  پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔