فاروق طارق
مورخہ 29 نومبر بروز جمعہ ملک کے پچاس سے زائد شہروں میں طلبہ یونین کی بحالی کے لئے زبردست مظاہرے ہوئے ہیں۔ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (SAC)، جس میں ملک بھر کی ترقی پسند طلبہ تنظیمیں شامل ہیں، کے زیر اہتمام ملک گیر بڑے مظاہروں میں ہزاروں طالب علموں نے شرکت کی، طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا اور تعلیمی بجٹ کو کم کرنے کی شدید مذمت کی۔ اس ’طلبہ یکجہتی مارچ‘ کے ذریعے طلبہ دہائیوں بعد ملکی سطح پر ایک انقلابی قوت کی صورت میں نمودار ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں لال جھنڈے لہرائے گئے اور انقلابی سوشلزم کے نعرے لگائے گئے۔
یہ ملک گیر مظاہرے پاکستان میں بائیں بازو کی تاریخ میں نوجوانوں کے نئے ابھار کی نشان دہی کرتے ہیں۔ 40 سالوں کے بعد لاہور کی بائیں بازو کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا ہے جس میں ہزاروں طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی ہے۔ اس طلبہ مزدور مارچ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر لال خان، فاروق طارق و دیگر مقررین نے اپنے خطاب میں سوشلزم کے نظریات کی بڑھتی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری نظام مکمل طور پر کھوکھلا ہو چکا ہے اور گل سڑ چکا ہے۔ حکمران طبقات عوام اور نوجوانوں کی شدید نفرت کا شکار ہیں۔ 1968ء کی تحریک ایک نئے انداز میں انگڑائی لے رہی ہے۔
جن شہروں میں مظاہرے ہوئے ان میں لاہور، اسلام آباد، راولا کوٹ، پونچھ، ہجیرہ، مانگ، کوٹلی، پلندری، میر پور، مظفر آباد، باغ، گلگت، سکردو، ہنزہ، ملتان، ڈی جی خان، کوٹ ادو، رحیم یار خان، سیالکوٹ، فیصل آباد، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، مرید کے، کامونکی، اوکاڑہ، سکھر، لاڑکانہ، گھوٹکی ڈھیرکی، قمبر، ٹنڈو جام، ٹھری میرواہ، خیرپور، فیض گنج، میر پور خاص، دادو، حیدر آباد، مورو، کراچی سکھر، کوئٹہ، سبی، جعفرآباد، لسبیلہ، ہر نوئی، پشاور، کوہاٹ، سوات، صوابی، راولپنڈی، ننکانہ صاحب، چنیوٹ، پاک پتن، عمر کوٹ اوردیگر شہر شامل ہیں۔ (یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ کئی شہروں سے اطلاعات اور تصاویر ابھی موصول ہورہی ہیں۔)
سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی میں شامل جن طلبہ تنظیموں نے ان مظاہروں کو منعقد اور منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو، انقلابی طلبہ محاذ (RSF)، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF)، پی آر ایس ایف، بیروزگار نوجوان تحریک (BNT)، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن(BSO) اور ’کونیکٹ ڈسکونیکٹڈ‘سرفہرست ہیں۔
سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے بنیادی مطالبات میں طلبہ یونین کی بحالی اور تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں، تعلیمی اداروں کی نجکاری، جنسی ہراسانی اور فیسوں میں اضافے کا خاتمہ شامل ہیں۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں بنیاد پرست غنڈہ گرد عناصر کی سرکوبی کرتے ہوئے پرامن، صحت مند اورجمہوری ماحول قائم کیاجائے۔ طلبہ کی تعلیمی فیصلہ سازی میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
لاہور کے مارچ سے طالب علم رہنماؤں حیدر بٹ، محبہ احمد، اویس قرنی، مزمل احمد، علی آفتاب، سدرہ، ثنا اللہ، عالمگیر، رضا گیلانی، شبیر، کمیل، حیدر کلیم، سبط حسن نے کہا کہ طلبہ یونینز پر پابندی فوری ختم کی جائے اور تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے پانچ فیصد تک کیا جائے۔ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتیاں بند کی جائیں اور تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کے نام پر بے جا ڈسپلن ختم کیا جائے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے پیسے کمانے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔ تعلیم کا معیار گر رہا ہے۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ فوری طور پر تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
طالب علم رہنماؤں نے کہا کہ ہم طلبہ اور مزدور مل کر ملک میں ایک نئی انقلابی تحریک کی بنیادیں رکھ رہے ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ طلبہ، نوجوانوں اور مزدوروں کے استحصال میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ تعلیمی اداروں میں شدت پسند عناصر کی غنڈہ گردی جاری ہے۔ طلبہ یونینوں پر پابندی عائد ہے۔ طلبہ کے اکٹھے ہونے پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ اب بڑے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کسی بھی فیلڈ میں ماسٹرز کرنے کے لیے ہر سال کم از کم دس لاکھ روپے یا اس سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے عدلیہ کی جانب سے فیسوں میں کمی کرنے کے فیصلوں پر عمل کرنے سے بھی منکرہیں۔ حکومت نے تعلیمی بجٹ میں شدید کٹوتیاں کی ہیں جس سے ملک میں تعلیم کی شرح اور کم ہو جائے گی۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ ہم طلبہ اور مزدور تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور دیگر سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کررہے ہیں۔ نجکاری کا سلسلہ بند کیا جائے۔ مہنگائی کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
مارچ میں خصوصی شرکت کرنے والوں میں مشال خان شہید کے والد اقبال لالہ اور پی پی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو شامل تھے۔ اقبال لالہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تم نے ایک مشال شہید کیا تھا‘ آج گلی گلی میں مشال پیدا ہو چکے ہیں۔
لاہور میں بھٹہ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد نے مظاہرے میں شرکت کی۔ پاکستان بھٹہ مزدور یونین کے جنرل سیکرٹری محمد شبیر نے مطالبہ کیا کہ کم از کم تنخواہ پر عمل درآمد کرانے کے لئے ملک گیر سطح پر حکومت اور لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کردار ادا کرے۔ ملک کے 80 فیصد اداروں میں غیرہنرمند مزدور کو حکومت کی طے شدہ اجرت 17500 روپے ادا نہیں کی جا رہی اور بھٹوں پر 1000 اینٹ بنانے کے لیے حکومت کا تجویز کردہ ریٹ 1295 روپے بھی ادا نہیں کیا جا رہا۔ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرانے میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں اور لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ لیبر قوانین کا اطلاق ہر ادارے میں کرانے کے لیے لیبر انسپکٹرز پر فیکٹریوں میں داخل ہونے پر عائد پابندی کو فوری طورپر ختم کیا جائے۔ مزدوروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کا غلط استعمال فوری بند کیاجائے۔