ذیشان بٹ / ذیشان شہزاد
کورونا وائرس کی وبا نے پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دنیا، جو پہلے ہی عالمی معیشت کی سست روی، تجارتی جنگ، تیل کی قیمتوں میں کمی، رجعت پرستی، دہشت گردی اور معاشی گراوٹ کا شکار تھی، کو اس وبا نے مزید جان لیوا بحران میں دھکیل دیا ہے۔ دنیا بھر میں اب تک کوروناوائرس کی تصدیق تین لاکھ سے زائدافراد میں ہو چکی ہے اور اب تک پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اس بات کو ہم لوگ سنتے تو تھے مگر کرونا وائرس نے ہم پر یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں کر دی ہے۔ ماضی میں بھی نسل انسان کو ایسی وباﺅں کا سامنا رہا ہے جیسا کہ آج ’کروناوائرس‘کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور ایسی ہی کچھ من گھڑت سازشی تھیوریاں اُس وقت بھی پیش کی جاتی تھیں جیسا کہ آج بھی پیش کی جارہی ہیں۔ مثلاً 1918ءمیں بھی ایک ایسی وبا پھوٹ پڑی تھی جس سے 50 ملین افراد کی ہلاکت ہو گئی تھی ۔ اُس وقت بھی برطانیہ میں اس سازشی تھیوری کے پرچارک موجود تھے جو اس بات پر پورے شد و مد سے یقین رکھتے تھے کہ یہ وائرس جرمنی نے ’تیار‘کر کے برطانیہ منتقل کیا ہے۔ اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے تھے کہ اُس وائرس سے جرمنی میں بھی اُتنے ہی لوگ متاثر ہوئے تھے جتنا کہ برطانیہ میں۔
اب یہ واضح ہے کہ کوئی غریب ہو یا امیر، کالا ہو کہ گورا، مشہور ہستی ہو کہ گُمنام انسان، عورت ہو یامرد یا تیسری جنس، چاہے کوئی کسی بھی مذہب کا ہو… اُس کی صحت کا ہماری صحت سے کتنا گہرا رشتہ ہے۔ ایک کرنسی نوٹ کتنے ہاتھوں میں جاتا ہے، ایک پرچون کی دکان کے کاﺅنٹر پر کتنے لوگوں کے ہاتھ لگتے ہیں، ایک بس پر سوار ہوتے وقت کتنے افراد ایک ہی جگہ ہاتھ لگاتے ہیں، کسی ریستوران کی ٹیبل اور دروازے پر کتنے انجان افراد کا آپس میں ایک ان دیکھا رشتہ ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہم انسان آپس میں کتنے جڑے ہوئے ہیں۔ یوں انسانوں میں غربت، ناخواندگی اور بیروزگاری بھی پورے معاشرے کے لئے اُتنی ہی خطرناک ہے جیسے کچھ انسانوں کا کورونا وائرس میں مبتلا ہو جانا۔ اس لئے مارکس کے نظریہ اشتراکیت کی اہمیت اور ضرورت میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ پیداوار کی یکساں تقسیم اور عالمی پیمانے پر یکساں ترقی کا نظریہ ہی اس سماج کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کورونا وائرس کا حملہ ایک اور بات بھی واضح کر رہا ہے اور آگے بھی کرے گا کہ جن افراد کا مدافعتی نظام ٹھیک نہیں اُن کے شدید بیمار ہونے یا ہلاک ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ اس بیماری کے طبقاتی اثرات ہیں کہ متاثرین کی اکثریت کا تعلق غریب طبقے سے ہوگا کیونکہ یہ ہمیں پہلے سے معلوم ہے کہ غذائی قلت اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کی اکثریت کا تعلق غریب طبقے سے ہے۔ مزید یہ کہ صحت کی سہولیات کے حوالے سے جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی عوام کو شدید قلت کا سامنا ہے تو پاکستان جیسے ملک میں صورتِ حال اور زیادہ گھمبیر ہے۔ امریکہ میں بھی وینٹی لیٹرز کی تعداد، جو ایک لاکھ چالیس ہزار تک ہے، وہاں کی تیس کروڑ آبادی کے لئے بہت تھوڑی ہے اور اب اندازہ لگائیں کہ پاکستان جہاں کی آبادی تقریباً بائیس کروڑ ہے، وہاں سرکاری سطح پر صرف دو ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ”ترقی“ بھی عوام پر عیاں ہو چکی ہے، جو واضح کرتی ہے کہ عالمی سطح پر رائج یہ نظام امریکہ سے لے کر پاکستان جیسے ملک تک عوام کی اکثریت کو صحت کی سہولیات دینے سے قاصر ہے۔ مگر اسلحہ اور دیگر انسانی تباہی اور بربادی کے آلات کی خرید و فروخت پر بے پناہ وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں۔
لہٰذا چین کی طرز پر چار دنوں میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہسپتالوں کی تعمیر صرف ایک مثال ہے۔ مگر درحقیقت اس طرح کے ہسپتال ایمرجنسی بنیادوں پر پوری دنیا کے انسانوں کے لئے جگہ جگہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے ۔ نہ کہ وسائل کا استعمال انسانی تباہی اور بربادی کے آلات کی خرید و فروخت اور کمیشن بٹورنے پر َصرف کیا جائے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں نسل انسان کی اکثریت قابلِ علاج بیماریوں سے مر رہی ہے اور اس کی وجہ ادویات کا موجودنہ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ ادویات سازی سے منسلک عالمی اجارہ داریوں کا بلند شرح منافع کے تیز تر حصول کا وہ نظام ہے جس کو انسانوں کی صحت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ بلکہ انسانی بیماریوں کا بیوپار ہی ان درندوں کو مزید انسانی استحصال اور لوٹ مار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا علاج نسل انسان کی اکثریت کے لئے آج ایک عیاشی کی صورت اختیار کر گیا ہے اور عام لوگوں کی بڑی تعداد غیر سائنسی علاج کروانے پر مجبور ہے (حالانکہ غیر سائنسی علاج کے تمام روحانی مراکز بھی اپنی اندرونی صفائی اور ستھرائی کے لیے سائنسی طریقہ کار کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں)۔ وہیں ماضی کی منصوبہ بند معیشت کے تجربات سے ایک واضح سبق ملتا ہے کہ عالمی پیمانے پر تمام انسانوں کی صحت کے لئے تمام انفرادی انسانی اخراجات کا خاتمہ ضروری ہے ۔ اور ادویات سازی کی صنعت پر انفرادی سرمایہ دارانہ قبضے کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کی پیداوار اور ترسیل کو محنت کشوں کے اجتماعی، اشتراکی اور جمہوری کنٹرول میں دیتے ہوئے ہی ایک صحت مند انسانی سماج ترتیب اور تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
کرونا وائرس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنے کے لئے صحت کی سہولیات کامربوط نظام اوربھاری سرمایہ درکار ہے۔ چین نے جو اقدامات اُٹھائے ہیں اُنہیں کافی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن بہت حد تک بیماری کو پھیلنے سے روکا گیا ہے۔ چینی انقلاب کی حاصلات اور تکنیکی ترقی نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سپین کی حکومت نے صحت کے تمام نجی ہسپتالوں کو سرکاری تحویل میں لے کر کرونا سے لڑنے کی ٹھان لی ہے۔ شاید سرمایہ داری کے رکھوالوں کے پاس بھی سوشلزم کے سوا اب کوئی حل نہیں بچا۔
دوسری طرف کرونا وائرس کے اثرات میں ایک اور بات بھی عیاں ہوئی ہے کہ موجودہ نظام کے بڑے حصے کے بند ہونے سے ماحولیاتی آلودگی پر بھی قابو پایا گیا ہے۔ اس کی مثال ہمیں چین میں ملتی ہے جہاں کئی شہروں میں پیداوار ی ذرائع کی بندش کے سبب فضائی آلودگی میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ چین میں گرین ہاﺅس گیس کے اخراج میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اٹلی کے شہر وینس کی نہروں میں پانی صاف ہو رہا ہے اور مچھلیاں اور دیگر آبی جانور بھی کئی دہائیوں بعد ان میں واپس نمودار ہورہے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے واضح کیا کہ نیویارک میں گرین ہاﺅس گیس کے اخراج میں 10 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ گلوبل وارمنگ کے خلاف ایک چھوٹی سی جیت کے مترادف ہے لیکن یہ جیت عارضی ہے۔ یہ سب کچھ کروناوائرس کے پیشِ نظر کیے گئے لاک ڈاﺅن کے وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس نظام میں کی جانے والی پیداوار اس کرہ ارض کی صحت کے لئے مفید نہیں۔ اس نظام میں ماحولیات کے بحران کو مدِ نظر رکھیں تو ایسا لگ رہا ہے جیسے کرونا اس دنیا کی ویکسین ہے اور ہم انسان اس دنیا کے وائرس ہیں۔ مگر ایسا کرنے میں کیا تمام انسان قصور وار ہیں؟ بالکل نہیں۔ یہاں طبقاتی فرق کے پیشِ نظر اس دنیا کی حقیقی باگ دوڑ چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہا تھوں میں ہے اور وہ ہی تمام بحرانوں کے ذمہ دار ہیں۔
عالمی سرمایہ داری کے 2008ءکے معاشی بحران کے بعد جہاں طبقاتی تفریق اور امیروں کے منافعوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا وہاں درحقیقت ابھی تک عالمی معیشت اس بحران سے نہیں نکل سکی۔ ایسے میں عالمی وبا پھیلنے سے جس بحران اور قلت نے جنم لیا ہے اُس کا پھر زیادہ شکار محنت کش طبقہ ہی بنتا ہے۔ بنیادی اشیا ضرورت کی قلت اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ لوگوں کے پاس سرمائے کی صورت میں کاغذ کے نوٹ تو موجود ہوں مگر مارکیٹ میں آٹا ناپید ہو جائے تو بھوک کی وبا مزید سماجی انتشار اور خلفشار میں بڑھوتری کا باعث بنتی ہے جو نسل انسان کی معدومیت کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ لہٰذا غذائی اجناس کی پیداوار اور ترسیل کے ذرائع کو سرمایہ داروں کے چنگل سے نکالتے ہوئے عوامی اشتراکی کنٹرول میں دینے کی ضرورت ہے اور محلوں، فیکٹریوں، کھیتوں کھلیانوں غرضیکہ پورے سماج میں عوامی سرکاری کچن بنا کے غذائی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ جہاں سب کے لئے معیاری اور صحت مند کھانا تیار کر کے فراہم کیا جاسکے اور نفسانفسی کے عالم میں انسان جس بیگانگی کا شکار ہو چکا ہے اُس کو ختم کر کے انسان کو ہر انسان کے اندر چھپے حقیقی انسان سے روشناس کرایا جاسکے۔
منافع خوری کی ہوس سے لبریز سرمایہ دار گدھیں اس بحران میں بھی مزید منافع خوری، لوٹ مار اور مزید انسانی استحصال کے لئے پر تول رہی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں عالمی ساہوکاروں کے ایم سی بی جیسے مقامی دلال علاج کی غرض سے مشینری خریدنے کے لئے آسان شرائط پر قرضوں کی پیش کش نجی ہسپتالوں اور اداروں کو کروا رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس ملک کی مقامی بورژوازی کا ایک دھڑا حکومت سے قرضوں کی معافی، ان کی ادائیگی میں رعایات اور سیلز ٹیکس کو زیروفیصد لاگو کرنے کی طلب کر رہا ہے ۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مقامی بورژوازی مزید ٹیکس چوری کی واردات کرنے جارہی ہے جو کہ پسماندہ ممالک کی پسماندہ تکنیکی صلاحیت کی حامل بورژوازی کا خاصہ ہے۔ لیکن ایسی رعایات دینے سے بھی یہ طبقہ ثمرات عوام تک پہنچانے کی بجائے نجی تجوریاں ہی بھرتا ہے اور اس طرح سے ہی ان طفیلی سرمایہ داروں کا مطلوبہ شرح منافع کے حصول کا ٹارگٹ پورا ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے لاک ڈاﺅن کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کے بجلی کے بل چار ہزار روپے تک کے ہیں اور گیس کے دو ہزار روپے تک ہیں‘ ان کی ادائیگی کو فی الوقت موخر کر رہے ہیں اور یہ رقم آئندہ دس ماہ میں اقساط کی صورت میں صارفین سے وصول کی جائے گے۔ یعنی ان بلوں سے عوام کو ابھی بھی چھٹکارا نہیں ملا بلکہ وہ اقساط کی صورت میں ہی سہی مگر ادائیگی ضرور کریں گے‘ خواہ زندہ بچیں نہ بچیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ’کے الیکٹرک‘، جو نجکاری کے بعد کراچی کے عوام کے لئے عذابِ مسلسل بن چکی ہے، نے بل قسطوں میں لینے سے صاف انکار کر کے ان حکومتوں کی نام نہاد رِٹ کی قلعی فوراً ہی کھول دی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سرمایہ داروں پر ان وفاقی و صوبائی حکومتوں کا کوئی بس نہیں چلتا۔ اسی طرح پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے صوبہ پنجاب کو لاک ڈاﺅن کا اعلان کرتے وقت جو امدادی پیکیج پیش کیا اُس کے مطابق 70 لاکھ لوگوں کو تین ہزار روپے دیئے جائیں گے جو کہ غریبوں کی سراسر تذلیل کے سوا کچھ نہیں۔
موجودہ عالمگیریت کا عہد مارکسی اُستادوں کی سائنسی بنیادوں پر کی گئی پیشین گوئیوں کا مادی حقیقتوں کی صورت میں آج ہرخاص و عام کے سامنے واضح اظہار ہے۔ مارکسی اُستادوں نے آج سے 170 سال قبل تاریخ کا مادی اور جدلیاتی طریقہ کار سے تجزیہ کرتے ہوئے یہ پیش منظر بیان کیا تھا کہ سرمایہ داری قومی ریاست کے وجود اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے ذریعے آج نشونما پاتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی دے رہی ہے۔ مگر آنے والے کل میں یہی قومی ریاست اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کی حدود نسل انسان کی اکثریت کو آسائش فراہم کرنے اور اُن کی زندگیوں کو سہل بنانے کی بجائے تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل دیں گی۔ آج عالمی پیمانے پر یہ عیاں ہے کہ ایک طرف چند ہاتھوں میں بے تحاشہ سرمائے کا ارتکاز حکمران طبقے کی عیاشیوں اور بدکاریوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ وہیں دوسری طرف انسانوں کی بھاری اکثریت غربت اور ذلت کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ گئی ہے۔ اور کوروناوائرس جیسی عالمی وبائیں جہاں مزید لوگوں کی زندگیوں کو دوزخ بنا رہی ہیں وہیں ایک طبقہ اس بحران میں بھی منافع خوری کے منصو بے بنا رہا ہے ۔
عالمی طور پر جڑی ہوئی معیشت، سیاست، ثقافت، جنگیں اور سفارت کاری کے اس عہد میں وبائیں بھی عالمی ہو چکی ہیں۔ اس لئے ان وباﺅں سے نمٹنے کے لئے عالمی پیمانے پر سوشلسٹ انقلاب کرتے ہوئے ان کے ماخذ، جو سرمایہ درانہ نظام کی وبا ہے، کو جڑ سے اُکھاڑنا آج کے دور میں محنت کشوں کے کندھوں پر تاریخ کا ایک اہم فریضہ ہے۔ جس کو سرانجام دینے کے لئے محنت کش ایک ایسے سیاسی اُوزار کے متلاشی ہیں جو اس سرمایہ دارانہ نظام کی گلی سڑی لاش کے تعفن سے نسل انسان کو چھٹکارا دلا سکے۔ اور انسانوں کی بھاری اکثریت کی خوراک، رہائش، تعلیم، صحت اور ذرائع آمدو رفت جیسی بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے۔ اسی طرح کورونا جیسی عالمی وباﺅں کو ٹھوس مادی بنیادوں پر احتیاطی تدا بیر اختیار کرتے ہوئے پھیلنے سے پہلے ہی کنٹرول کیا جا سکے۔ اس کے لئے جس پیداواری صلاحیت اور تکنیک کی ضرورت ہے وہ عالمی پیمانے پر موجود ہے مگر اس پر انفرادی اجارہ داری کا نظام انسانوں کی اکثریت کو سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ نظام انسانوں کی وسیع اکثریت کو مزید تاراج کرے ان تمام وسائل اور ذرائع پیداوار و ترسیل کو عالمی پیمانے پر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے کر منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ایک صحت مند اور اشتراکی انسانی معاشرہ تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو ہر قسم کے استحصال، جبر، مانگ اور ضرورت کی ”وبا“سے پاک ہو۔