ڈاکٹر اے ایچ نیر
ترجمہ: ایف ایس
یکساں قومی نصاب (ایس این سی) نیاپاکستان بنانے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اس کا ثمر ہے۔ تعلیمی تعصب سے پاک پاکستان، جہاں تعلیم بین الاقوامی رجحانات کے مطابق ہو، جو طلبہ میں تجزیاتی مہارت، تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتں پیدا کرتی ہو اور جو رٹا کلچر سے تعلق نہ رکھے۔
ایسا پاکستان جہاں اس سے کوئی فرق نہ پڑے کہ کسی نے ’ایلیٹ‘ نجی اسکول، سرکاری اسکول یا مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ایک ایسا پاکستان جہاں ہر بچہ ایک ہی طرح کی تعلیم حاصل کرے اور اسی طرح اسے زندگی میں ایک سے مواقع بھی حاصل ہوں۔ یہ وعدہ ایک خواب کی طرح ہے لیکن بہت سے سوچے سمجھے منصوبوں کی طرح نئی اعلان کردہ نظرثانی شدہ تعلیمی پالیسی ایک تجریدی خیال کے طور پر بہتر معلوم ہوتی ہے۔
اس پالیسی کا بغور جائزہ لینے سے تشویش کے بہت سے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ نئی ایس این سی کو درجہ اول تا پنجم کے لئے منظور کیا گیا ہے اور اس کی خامیاں پہلے ہی سے عیاں ہو رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایس این سی نے ہمیں یہ باور کرایا ہے کہ تعلیم کے پالیسی سازوں کو معیاری تعلیم کی تشکیل کے بارے میں شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انگریزی زبان گو ایک پانچ سالہ بچے کے لئے بالکل اجنبی ہے تاہم اس کے باوجود اسے انگریزی میں ہی تربیت دی جانی چاہئے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ تمام دستیاب شواہد کے برعکس دینی تعلیم کی زیادہ تدریس سے پاکستان میں زیادہ ایماندار اور مفید شہری پیدا ہوں گے۔
تنقیدی سوچ جدید تعلم کا بنیادی ہدف ہے جبکہ ایس این سی کے منصوبہ ساز ایسے رجحانات کو فروغ دیتے نظر آتے ہیں جو تنقیدی سوچ کے مخالف ہیں۔ ان کی بنیادی توجہ معلومات کی ایک خاص مقدار طلبا کے سروں میں انڈیلنے پر مرکوز ہے۔ حکومت کے اصلاحی پروگرام کا نعرہ تعلیمی امتیازکا خاتمہ واقعی ایک قابل تعریف مقصد ہے۔ تاہم جس کی منظوری دی گئی وہ یکساں نصاب ہے، یکساں نظام تعلیم نہیں۔ مؤخر الذکر کا مطلب ہے امیر غریب، دیہی شہری، لڑکے لڑکیاں سب کے لئے مساوی تعلیمی سہولیات بھی میسر ہوں۔ صرف یکساں تعلیم ہی تعلیمی تعصب کے خاتمے کو یقینی بنائے گی لیکن حکومت نے تاحال یکساں تعلیم کے لئے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا، اور یہ بھی واضح نہیں کہ ایسا کبھی ہوگا بھی سہی یا نہیں۔
غیر تکمیل شدہ وعدوں کے پیچھے کیا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تعلیم کے میدان میں چار ترجیحی شعبوں میں اصلاحات کو اجاگر کرتے ہوئے ایجوکیشن پالیسی فریم ورک کے اعلان کے ساتھ اقتدار سنھبالاتھا۔ یہ ترجیحات کچھ یوں تھیں:(1) آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق اسکول سے باہر تمام بچوں کو اسکولوں میں لانا، (2) یکساں نصاب متعارف کرا کر تعلیم میں امتیاز کا خاتمہ، (3) تعلیم کے معیار میں اضافہ اور (4) تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو فروغ دینا۔
یہ تعلیمی فریم ورک عام طور پر ملک میں تعلیمی مسائل کی درست تشخیص پر مبنی سمجھا جاتا تھا۔ اگر مناسب اور پرعزم طریقے سے اس پر عمل کیا گیا تو اس فریم ورک میں کی جانے والی اصلاحات تعلیمی معیار کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ حکومت نے دو سال میں ایس این سی تیار کر کے اپنے اعلان کردہ فریم ورک کی دوسری ترجیح میں کچھ پیشرفت کی ہے، مگر دیگر تین ترجیحات میں کوئی پیشرفت نہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے: دیگر تینوں ترجیحات کیلئے بھاری فنڈز درکار ہیں، جو تعلیم کے لئے مختص معمولی بجٹ سے ممکن نہیں جبکہ نیا نصاب متعارف کرانا مفت کی کارروائی ہے۔
ترجیح نمبر ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔ یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ 28 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور اڑھائی کروڑ بچے سکولوں میں داخل ہیں۔ یوں سکول سے باہر اور داخل بچوں کی تعداد کم و بیش ایک جتنی ہے۔ تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ اضافی بچوں کو اسکول میں داخل کرنا بہت بڑا کام ہوگا۔ اس کیلئے اتنے ہی نئے سکول تعمیر کرنا ہوں گے جتنے کم و بیش اب ہیں اور اتنے ہی اساتذہ کو بھرتی کرنا پڑے گا جتنے اس وقت بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔
ذرا تصور کریں دو کروڑ 30 لاکھ اضافی بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لئے کتنے وسائل درکار ہیں۔ یہ کتنا مشکل ہے اس کیلئے مندرجہ ذیل مثال ملاحظہ کیجئے: اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) وفاقی حکومت کی ناک کے نیچے واقع ہے۔ یہ کوئی بلوچستان یا سندھ کا دیہی ضلع نہیں، پھر بھی آئی سی ٹی کے سرکاری اسکولوں میں 35 فیصد اساتذہ کی کمی ہے۔ آسامیوں کو پْر نہیں کیا جا رہا کیونکہ حکومت کے پاس اضافی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے رقم نہیں۔ وفاقی حکومت کے کچھ ماڈل اسکول اساتذہ کی منظور شدہ آسامیوں کی دوتہائی تعداد پر چل رہے ہیں۔ اساتذہ کو مختلف درجے کی کلاسوں کی تدریس پر مجبور کیا جاتا ہے یا بچوں کو خاموش کرانے کے لئے کسی سینئر طالب علم کے ہاتھ میں چھڑی دے کر اسے کلاس میں کھڑا ہونے کیلئے کہا جاتا ہے۔
آئیے اب اسکول میں تعلیم کے معیار میں اضافہ کی تیسری ترجیح پر غور کرتے ہیں۔ سرکاری و نجی، شہری و دیہی اسکولوں میں تعلیم کا معیار سالانہ سروے رپورٹ (اے ایس ای آر) میں بتائی جانے والی صورتحال سے زیادہ بدتر ہے، جو گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے باقاعدگی سے کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ سروے اس حوالے سے بھی معتبر سمجھا جاتا ہے کہ وفاقی تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت کی وزارت (ایم او ایف ای پی ٹی) سرکاری نیشنل ایجوکیشنل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے بجائے اس کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتی ہے۔
حکومت واقعی تعلیم کے معیار کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اسے تعلیم کی فراہمی کا بوجھ نجی شعبے پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ نجی شعبے کا ایک بڑا حصہ کم فیس والے اسکولوں پر مشتمل ہے۔ کم فیس ان کا محض کاروباری طریقہ ہے کیونکہ وہ غیر مستند اساتذہ کو بہت کم تنخواہوں پر ملازم رکھتے ہیں لہذٰا ان اسکولوں میں تدریس کا معیار انتہائی خراب ہے۔
حکومت یہ سب بخوبی جانتی ہے کیونکہ وہ قومی اور صوبائی تعلیمی فاؤنڈیشنزکے ذریعہ ایسے اسکولوں کی مدد کرتی ہے اور انہیں یہ سلسلہ جاری رکھنے کے لئے فی طالب علم 300 روپے سبسڈی بھی دیتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں تدریسی معیار کو بڑھانے کیلئے کئی چیزوں کی ضرورت ہوگی۔ ایک یہ کہ اساتذہ کی بہتر کارکردگی کے لئے تدریس سے قبل اور دوران تدریس تربیت کا عمل جاری رہے۔ سرکاری عملے کی ترقی کے صوبائی محکموں کے مطابق فی الوقت سرکاری اساتذہ کو ہر سال میں تین دن کی تربیت ملتی ہے۔ اس تربیت کو 10 گنا بڑھانے کی ضرورت ہے۔
دوسرا یہ کہ سرکاری سکولوں میں ضروری سہولیات جیسے فرنیچر، پانی کی فراہمی، بیت الخلا وغیرہ کی کمی ہے۔ کئی ممالک سے مالی عطیات وصول کرنے کے باوجود سکولوں کے بنیادی ڈھانچوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ یہ فنڈز کہاں جاتے ہیں اس کے سخت آڈٹ کی ضرورت ہے۔
تیسرا یہ کہ حکومت کی فراہم کردہ نصابی کتب مواد اور طباعت میں غیرمعیاری ہیں۔ پاکستانی ٹیکسٹ بک بورڈ سکولوں کو معیاری کتب فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ایلیٹ پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں استعمال ہونے والی کتابوں کے معیار کا فرق آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ معیار کی نصابی کتب میں بھاری سرمایہ کاری ضرورت ہے۔ مقامی مصنفین اور پرنٹرز تک محدود رہنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اپنے قومی مستقبل پر سرمایہ کاری کی خاطر ہمیں بہترین تدریسی مواد خریدنے کا آپشن کھلا رکھنا چاہئے، چاہے اس میں مقامی ثقافتی حساسیت کی پیش نظر کچھ ترمیم بھی کرنا پڑے۔
اور چوتھا نکتہ یہ ہے کہ آج کل امتحانات میں صرف متن کو دوبارہ لکھنے کی صلاحیت جانچی جاتی ہے۔ جب تک تخمینہ جاتی نظام کو یکسر تبدیل نہیں کیا جاتا تب تک سرکاری اسکولوں کے نظام تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا۔ اعلیٰ معیار کے امتحانات لینے والے سستے داموں میسر نہیں ہوتے۔
مذکورہ بالا نکات سے یہ واضح ہے کہ بھاری فنڈز کے بغیر تعلیم کے معیار کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ تعلیمی فریم ورک کی آخری ترجیح، اسکولوں میں فنی اور پیشہ ورانہ تربیت متعارف کرانے کیلئے بھی سکولوں کے اندر تمام متعلقہ آلات سے لیس ورکشاپس مہیا کرنا ہوں گی اور اس کے لیے بھی خاطر خواہ فنڈز کی ضرورت ہوگی۔
گویا تعلیمی فریم ورک کی پہلی، تیسری اور چوتھی ترجیح کی تکمیل کیلئے اخراجات درکار ہیں۔ اس کے بجائے حکومت نے نصاب والا آسان راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ نہ صرف اصلاح کے پروگرام کو ناکام بناتا ہے بلکہ اس سے دیگر سنگین مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)
بشکریہ:ڈان