ٹوبی ملر عالمی سطح پر میڈیا اور کلچرل اسٹدیز کے جانے مانے سکالر ہیں۔ ”گلوبل ہالی وڈ“ سمیت درجن بھر سے زائد کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں۔ ٹوبی مِلر کی کتابیں دنیا بھر کی اہم یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور نیو یارک یونیورسٹی میں پڑھا چکے ہیں۔ ان دنوں میکسیکو کی پرولتاریہ یونیوسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔
روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر فاروق سلہریا کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے عالمی میڈیا کے مختلف پہلووں پر بات کی۔ ٹوبی مِلر سے انٹرویو کا پہلا حصہ گذشتہ روز پیش کیا گیا تھا۔ آج اس انٹرویو کا دوسرا اور آخری حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
جدوجہد: آج کل سوشل میڈیا کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ کیا ایسا نہیں کہ سوشل میڈیا کے بارے میں، خاص کر میڈیا سکالرز میں، کافی خوش فہمی پائی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک کانفرنس کے دوران جو جامعیہ ملیہ دلی میں ہو رہی تھی، ایک کینیڈین سکالر ہم جنوبی ایشیا کے لوگوں کو ڈانٹ رہے تھے کہ ہم سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ حضور آپ جس ملک میں یہ بھاشن دے رہے ہیں وہاں ایک ارب لوگوں کے پاس انٹرنیٹ نہیں۔ یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا نے مزدور طبقے کو بھی نئے مواقع فراہم کئے ہیں مگر جس طرح روایتی میڈیا معاشرے میں بیلنس آف فورسز کا عکس ہوتا ہے، ویسے ہی سوشل میڈیا ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
ٹوبی ملر: گلوبل نارتھ میں رہنے والے جیسا کہ آپ نے کینیڈین سکالر کا ذکر کیا یا گلوبل ساؤتھ میں رہنے والے متمول افراد جس طرح کی تصویر کشی انٹرنیٹ کے حوالے سے کرتے ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔
میکسیکو کی پرولتاریہ یونیورسٹی جہاں میں پڑھاتا ہوں، یہاں طلبہ کے پاس گھر میں وہ تنہائی ہی میسر نہیں ہوتی جو پڑھائی کے لئے درکار ہوتی ہے۔ ان کے پاس لیپ ٹاپ ہیں نہ وائی فائی۔ جن لوگوں کا تعلق ایلیٹ سے نہیں، ان کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ کرونا بحران کے دوران آن لائن پڑھائی ہو، لایعنی سی بات ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ان طلبہ کے پاس موبائل فون ہوتے ہیں مگر ان کے پاس وہ بینڈ وڈتھ نہیں ہے جو لیکچر سننے کے لئے چاہئے۔
اسی طرح لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں ہسپانوی زبان نہیں بولتی۔ وہ مقامی بولیاں بولتے ہیں۔ یہاں کا حکمران طبقہ ہسپانوی زبان بولتا ہے، یہاں سیاست و معیشت سب ہسپانوی زبان میں ہے۔ انٹرنیٹ کی زبان بھی ہسپانوی ہے۔
گلوبل نارتھ میں اس بابت کوئی سوچتا ہی نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ان محکوم طبقوں میں زبردست تخلیقی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں مگر سیاست پر اثر انداز ہونے کی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔
میں نے کولمبیا کی سیاہ فام کمیونٹی کے رہنماؤں سے سوشل میڈیا بارے کئی بار بات کی ہے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا سوشل میڈیا نے نئے مواقع فراہم نہیں کئے۔ ان کا کہنا ہے کہ سفید فام لوگ، ہم کچھ بھی کر لیں، ہماری نہیں سنتے، پھر یہ کہ ہمارے پاس انٹرنیٹ کی رفتار اتنی کم ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا کا کامیاب ا ستعمال ممکن ہی نہیں۔ موبائل فون بارے ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے فلرٹ کرنے یا اپنے پیاروں سے رابطے میں رہنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اس لئے جب گلوبل نارتھ یا گلوبل ساؤتھ کے امیر لوگ سوشل میڈیا کی بات کرتے ہیں تو میں مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ طبقہ، زبان اور نسل ایسے مسائل کو ذہن میں نہیں رکھا جاتا۔
اسی طرح بعض ممالک میں عورت دشمنی اس قدر شدید ہے کہ بہت سی خواتین، یہ بات کوئر (Queer) لوگوں بارے بھی کہی جا سکتی ہے، سوشل میڈیا کا استعمال ترک کر نے کو ترجیح دیتی ہیں۔
اس ضمن میں، میں آخری نقطہ یہ اٹھانا چاہتا ہوں کہ قومی ہی نہیں عالمی سطح پر سوشل میڈیا نہ صرف صحافیوں بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی خاموش کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ روس کی مثال ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کی حکومتیں بھی ایسا کرنے کی خواہش تو ضرور رکھتی ہیں۔ روس اور کولمبیامیں فرار ہونے والے صحافیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر وہ ملک نہ چھوڑیں تو انہیں چوبیس گھنٹے گارڈ رکھنے پڑیں۔
سچ پوچھئے تو سوشل میڈیا انتہائی اینٹی سوشل ہے۔ درمیانے طبقے پر مبنی انٹرنیٹ سے مزین لبرل جمہوری ماڈل کا خاکہ، معاف کیجئے گا، ایک مفروضے سے زیادہ کچھ نہیں۔
جدوجہد: ’کیا کیا جائے‘؟
ٹوبی ملر: امریکہ، جیسا کہ آپ نے خود بھی کہا کہ دنیا بھر کے لئے اہم ہے، میں ضرورت اس بات کی ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر جیسی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ پبلشرز ہیں اور انہیں پہلی ترمیم کے تحت آئینی تحفظ حاصل ہے۔
میں سمجھتا ہوں ان کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنا انتہائی اہم ہے اور یہ کمپنیاں بہت بڑی رقمیں خرچ کرتی ہیں تا کہ کسی متوقع قانون سازی سے، جس کا مقصد ان کو ریگولیٹ کرنا ہو، بچ سکیں۔
ضروری ہے کہ نفرت انگیز مواد، جھوٹ، سائنس کے بارے میں جھوٹ اور پبلک ہیلتھ بارے جھوٹ جیسی باتوں پر پابندی کا قانون بنایا جائے۔ انسان کو اپنی رائے دینے کا حق ہونا چاہئے مگر حقائق اور رائے میں فرق ہوتا ہے۔ کرونا کی مثال لیجئے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کرونا بل گیٹس، نرسوں اور ڈاکٹروں، یہودیوں یا فائیو جی والی کمپنیوں کی سازش ہے۔ یہ وہ سفید جھوٹ ہیں جن کو ہر بار روکنا ہو گا۔
یہ کمپنیاں ایسا نہیں ہونے دیں گی۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ایسے ریگولیٹنگ ادارے قائم کریں جو حکومتی کنٹرول میں نہ ہوں بلکہ انہیں پیشہ ور افراد چلائیں۔ اسی طرح ضروری ہے کہ ورکرز بورژوا میڈیا کو ٹیک اوور کریں۔
ذرا یونیورسٹیوں کی مثال لیجئے۔ یہ درست ہے کہ قانونی طور پر یہ سرکاری ادارے ہوتے ہیں یا اگر سرکاری نہ بھی ہوں تو یہ خود مختار ہوتی ہیں۔ ایک ہزار سال سے یونیورسٹی کا ادارہ ایسے ہی چلایا جا رہا ہے۔ بورژوا میڈیا بھی اسی طرح چلایا جانا چاہئے۔ میڈیا مالکان اور مدیروں کا اختیار کم ہونا چاہئے۔ جو لوگ میڈیا میں کام کرتے ہیں، وہی میڈیا کو چلائیں۔