شاعری

میں دہشت گردی کا حامی ہوں

نزار قبانی

”1988ء میں اپنی وفات سے ایک سال قبل منظوم کی ہوئی نظم ’میں دہشت گردی کا حامی ہوں‘ ان کی آخری سیاسی نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس نظم میں وہ انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں جو دہشت گردی کو جواز بنا کر آمریت اور قبضہ مسلط کرتے ہیں۔ قبانی جس دہشت گردی کے حامی ہیں وہ گیارہ ستمبر والی دہشت گردی ہے نہ اس سے مراد اٹکل پچو بم دھماکے اور قتل۔ نزار قبانی کی اپنی شریک حیات بلقیس الروی ایران عراق جنگ دوران لبنان میں ایک بم دھماکے اندر ہلاک ہوئیں تھیں۔ یہ بم دھماکہ ایران نواز مجاہدین نے عراقی سفارت خانے میں کیا تھا۔ وہ خود اخبار خریدنے کی غرض سے باہر گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو ان کی انتہائی محبوب شریک حیات اس دنیا سے کوچ کر چکی تھی۔ اس سانحے کا باقی ساری زندگی ان پر گہرا اثر رہا۔ مرحومہ کی یاد آخری سانس تک نزارقبانی کو ستاتی رہی۔ شاعر کے خیال میں ’دہشت گردی‘ وہ اصطلاح ہے جسے غاصب قومی آزادی کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ غاصب کی اس حرکت کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے لہٰذا انہوں نے فلسطین کی نوجوان نسل اور فلسطین کا نام بھلا دینے والی عرب قوم کے نام یہ پیغام لکھا“:طارق علی

اگر ہم
گلاب اور عورت
اپنے خوب صورت شعر
اورآسمان کے نیلے پن کی حفاظت کریں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اس دھرتی
کہ جس کا دامن
آب، ہوا، خیمے اور اونٹ سے خالی ہو چکا
جہاں اب عربی کافی تک باقی نہیں بچی
اگر ہم
اس دھرتی کی حفاظت کریں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں

ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
تباہ حال دھرتی بارے، تباہ حال دھرتی کی تباہی
بارے لکھیں
دھرتی کہ جس کا کوئی پتہ نہیں
قوم کہ جس کا کوئی نام نہیں

دھرتی کہ جہاں ہمیں اخبار خریدنے
خبریں سننے تک کی اجازت نہیں
کنج کہ جہاں پرندے چہچہا نہیں سکتے
دھرتی کہ جہاں خوف کے مارے ادیب
بے موضوع مضمون باندھتے ہیں
دھرتی کہ جہاں شاعری کی طرح
گفتگو بات سے خالی
بے وزن
بدیسی
عجم، کہ چہرے اور زبان سے عیاری ٹپکتی
نہ کوئی آغاز
نہ انجام
عوام، دھرتی اور انسانی بحران سے بیگانہ

ایک نو آبادی
مذاکرات کے میز پر جا رہی ہے
سر پر پگڑی
نہ پاؤں میں جوتا

آنکھوں میں نمی نہیں
ہونٹ تر نہیں
لفظ بے جان
کیا ذات ایسی روکھائی کا بوجھ سہار سکتی ہے
ہماری قوم میں کوئی معاویہ نہ ابوسفیان
جرات انکار کون کرے؟
نقطہ چینوں کے مقابل کون آئے؟
گھر، روٹی اور زیتون کا تیل
وہ سب ہاتھ سے گنوا چکے
ہماری درخشاں تاریخ کو انہوں نے ردی کی ٹوکری بنا دیا ہے

بسترِ سلطان میں کنوار پن کھونے کے بعد
ہماری زندگیوں میں کوئی نظم نہیں بچی
اْنہیں ہماری عدم مدافعت کی عادت پڑ گئی ہے
جب دامن میں رسوائی کے سوا
کچھ بھی نہ بچا
تو کیا بچا؟

میں تاریخ کی کتابوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں
کوئی اسامہ ابن المنطق
کوئی عقبی ابن نفی
کوئی عمر اور حمزہ
کوئی خالد جو شام کو فتح کرنے جا رہا ہو
کوئی معتصم بااللہ جو عورتوں کو زیادتی
اور آگ سے بچا رہا ہو

اگلے وقتوں کے لوگوں کی تلاش میں
میرا سامنا مگر بزدل بلیوں سے ہے
جو چوہوں کی سلطانی سے خوفزدہ ہیں
کیا پوری قوم بالکل اندھی ہو چکی ہے!

کیا ہمیں رنگوں کی پہچان نہیں رہی
وہ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
ان اسرائیلی بلڈوزروں تلے آ کر
مرنے سے انکار کر دیں جو
ہماری دھرتی کچل رہے ہیں
ہماری تاریخ کچل رہے ہیں
ہماری انجیل، ہمارا قرآن کچل رہے ہیں
اگر یہی ہمارا گناہ ہے تو
واللہ کتنی خوب صورت ہے دہشت گردی

اگر ہم
منگولوں، یہودیوں اور وحشیوں کے ہاتھوں
مرنے سے انکار کر دیں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
قیصر کے قدموں میں لیٹی
سکیورٹی کونسل کے شیشے پر
پتھر دے ماریں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
بھیڑیے سے مذاکرات
اور طوائف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کر دیں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں

امریکہ کہ جو لوگوں کی ثقافت کا دشمن
خود ثقافت سے عاری
کہ جو مہذب لوگوں کی تہذیب کا دشمن
خود تہذیب سے عاری
امریکہ
ایک بلند و بالا عمارت
مگر دیواروں سے خالی

ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
اپنی دھرتی
اور حرمت خاک کی حفاظت کریں
اگر ہم
اپنے لوگوں سے ہونیوالی زیادتی
اپنے آپ سے ہونے والی زیادتی کے خلاف
بغاوت کریں
اگر ہم
اپنے صحراؤں میں کھڑے کھجور کے آخری درختوں کی حفاظت کریں
اپنے آسمان میں بچے آخری ستاروں کی حفاظت کریں
اپنے ناموں کے آخری حروفِ تہجی کی حفاظت کریں
اپنے ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ کے آخری
قطروں کی حفاظت کریں
اگر یہی ہمارا گناہ ہے تو
واللہ کتنی خوب صورت ہے دہشت گردی؟

میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اگر یہ مجھے
روس، رومانیہ، ہنگری اور پولینڈ سے آئے
مہاجروں سے بچا سکے

یہ مہاجر فلسطین میں آن بسے
اور ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر
انہوں نے القدس کے مینار
اقصیٰ کے دروازے
اور محرابیں چرالیں

گئے سالوں میں
قوم پرستی سے سرشار لوگ
کسی منہ زور گھوڑے کی مانند بپھرے ہوئے تھے
نئی نسل جذبے سے سرشار تھی

اوسلو کے بعد لیکن
ہمارے منہ میں دانت نہیں رہے
ہم اندھے اور گمشدہ لوگ ہیں

وہ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
اپنی شاعرانہ وراثت
اپنی قومی میراث
اپنی منقش تہذیب
پہاڑوں میں بانسری بجانے والی ثقافت
اور سیاہ آنکھوں سے منقش آئینوں کی حفاظت کریں

میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اگر یہ غاصبوں کے غضب سے
عوام کو نجات دلائے
اگر یہ انسان کو انسان کے ظلم سے بچائے
اگر یہ جنوبی لبنان کو
لیموں، زیتون کے درخت اور اس کے پرندے
اور گولان کو اس کی مسکراہٹ لوٹا دے

میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اگر یہ مجھے قیصر یہودہ
اور قیصر روم سے پناہ دے

جب تک نیو ورلڈ آرڈر
امریکہ اور اسرائیل کے درمیان
آدھاآدھا تقسیم رہے گا
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اپنی شاعری سمیت
اپنے لفظوں سمیت
اپنی ساری طاقت کے ساتھ
جب تک یہ نئی دنیا قصاب کی گرفت میں ہے
میں دہشت گردی کا حامی ہوں

میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اگر امریکی سینٹ
مدعی بھی ہو، مصنف بھی
جزا بھی دے اور سزا بھی
جب تک نیو ورلڈ آرڈر
میرے بچوں کا خون کرتا رہے گا
اور ان کے ٹکڑے کتے آگے ڈالتا رہے گا
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اسی کا رن با آواز بلند کہتا ہوں
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
میں دہشت گردی کا حامی ہوں

(ترجمہ: فاروق سلہریا)

Roznama Jeddojehad
+ posts