فاروق سلہریا
مغرب جب بھی افغانستان کا رخ کرتا ہے، افغان شہری بھاری قیمت چکاتے ہیں۔ ٹھیک سو سال پہلے مغرب نے افغانستان کو مغربیت سے بچانے کے لئے غازی امان اللہ کا تختہ الٹا جس کے نتیجے میں حبیب اللہ قلقانی کی مذہبی جنونی آمریت قائم ہوئی جس نے چھ ماہ کے اندر اندر غازی امان اللہ عہد کے تمام ترقی پسند اقدامات پر پانی پھیر دیا۔
پھر 1979ء میں مغرب، امریکہ کی قیادت میں، افغانستان پہنچا تاکہ اسلام کو بچایا جا سکے۔ اب کی بار مغرب نے ایک خود ساختہ کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹا اور ملک کو مجاہدین کے حوالے کر دیا۔ ان مجاہدین نے کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس خوفناک مجاہدین رجیم کے بطن سے طالبان رجیم نے جنم لیا۔ طالبان فرنکنسٹائن ثابت ہوئے۔ بات گیارہ ستمبر تک پہنچی۔
مغرب نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کا رخ کیا۔ اب کی بار بتایا گیا کہ افغان عورت کی آزادی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے افغانستان پر دھاوا بولا جا رہا ہے۔ حتمی نتیجہ پچھلے سال اگست میں سامنے آ چکا ہے۔
آج کل مغرب کو افغانستان میں قحط کی صورت حال کا خدشہ ہے۔ واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لئے ابتدائی منصوبہ یہ ہے کہ طالبان کے کابل پر دہشت گردانہ قبضے کو تسلیم کیا جائے۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی پرائیویٹ جیٹ میں انہیں اوسلو مدعو کرنا تھا۔
دلچسپ بات ہے کہ جب رائٹ ونگ حزب اختلاف نے طالبان کو اوسلو بلانے پر اعتراض کیا تو ناروے کے سوشل ڈیموکریٹک وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’مہمان وفد‘ میں شامل افراد پر بطور دہشت گرد پابندیاں ہیں لہٰذا کوئی ائرلائن انہیں جہاز پر بھی سوار نہ ہونے دیتی۔
اوسلو کی سیر کرانے کے بعد طالبان کے ایک اور وفد کو سوئٹزرلینڈ کی سیر کرائی گئی۔
دونوں دفعہ یہی شور مچایا گیا کہ اگر طالبان کو تسلیم نہ کیا گیا تو کروڑوں لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ افغان شہریوں کی جان بچانی ہے تو طالبان سے بات چیت (یعنی انہیں تسلیم کرنے) کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
افغان شہری بے چارے دم بخود سوچ رہے ہیں کہ حضور اگر ہماری جانوں کی اتنی فکر تھی تو افغانستان ان دہشت گردوں کے حوالے کر کے فرار کیوں ہوئے تھے؟
مغرب کی سامراجی حکومتیں ہی نہیں، بعض ترقی پسند آوازیں بھی اس کورس میں شامل ہیں۔ مارک ویزبروٹ (Mark Weisbrot) اس کی ایک مثال ہیں۔ ’دی ساکرومینٹا بی‘ (The Sacramento Bee) میں شائع ہونے والے ان کے مضمون کو چوتھی انٹرنیشنل کے ترجمان ’انٹرنیشنل وئیو پوائنٹ‘ پر بھی شائع کیا گیا۔
اس مضمون میں مارک ویز بروٹ کا یہی استدلال ہے کہ افغانستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اس المیے کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ طالبان پر کسی قسم کی پابندیاں نہ لگائی جائیں۔
ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ ہم سامراجی پابندیوں کے خلاف ہیں۔ پچھلی تقریباً چار دہائیوں سے سامراج نے اقتصادی پابندیوں سے جتنے لوگ ہلاک کئے، اتنے شائد سامراجی جنگوں میں بھی نہ ہوئے ہوں۔
ہمارا موقف ہے: طالبان کو تسلیم کرنے سے افغانستان کے المیے کو مزید طول دیا جائے گا۔ انسانی المیہ یقینا خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس المیے سے نپٹنے کا طریقہ افغان رجیم کو طول دے کر نہیں، اس کی زندگی مختصر کر کے حل ہو گا۔ انسانی المیے سے نپٹنے کے لئے ضروری ہے کہ فوری طور پر اقوام متحدہ کے ادارے افغان لوگوں کی غیر مسلح تنظیموں اور کمیونٹیوں کے ساتھ مل کر اقدامات کریں۔
گذشتہ بیس سال میں افغانستان میں بے شمار تنظیمیں بنی ہیں۔ مزید بنائی جا سکتی ہیں۔ روایتی ڈھانچے گاؤں اور محلے کی سطح پر موجود ہیں جن کو امپاور کیا جا سکتا ہے۔ ان کی مدد سے نہ صرف امداد کا کام ہو سکتا ہے بلکہ ترقیاتی کام اور معاشی بحالی کے اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں۔
گذشتہ تقریباً چھ ماہ سے ایسی ہی کمیونٹی سپورٹ اور مقامی ڈھانچوں کی مدد سے لوگ کام چلا رہے ہیں۔ طالبان تو کابل شہر کی صفائی کا بندوبست کرنے سے قاصر ہیں۔ (ویسے بھی طالبان کو ملنے والے پیسے افغان شہریوں تک پہنچیں نہ پہنچیں، دہشت گردی کے ٹرینگ کیمپوں تک ضرور پہنچیں گے)۔
اس طرح نہ صرف طالبان کے دہشت گردانہ رجیم کی عمر کم ہو گی بلکہ مغرب کو ایک مرتبہ پھر افغانستان کا رخ کرنے ’مہربانی‘نہیں کرنی پڑے گی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ افغانستان نے افغان عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ ان یرغمالیوں کو مغرب سے امداد لینے اور اپنے رجیم کو تسلیم کروانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
مغرب اپنی شکست کے اثرات میں کمی لانے کے لئے افغانستان میں واپسی چاہتا ہے۔ مغرب کا خیال تھا کہ طالبان دوحہ معاہدے (جس کی اصل تفصیلات متعلقہ حلقوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں) پر عمل کریں گے۔ طالبان نے ایسا نہیں کیا۔ کرتے بھی کیوں۔ اب طالبان افغان عوام کو یرغمال بنا کر بلیک میل کر رہے ہیں۔ مغرب امداد روک کر سودے بازی کر رہا ہے۔ دونوں کا ساتھ نہیں دیا جا سکتا۔ دونوں افغان دشمن ہیں۔
اگر افغانستان میں پیش رفت کرنی ہے تو مندرجہ ذیل روڈ میپ کی شکل میں ابتدائی خاکہ تیار کیا جا سکتا ہے:
افغانستان کو اقوام متحدہ کے حوالے کیا جائے۔ وہاں تمام مسلح گروہوں کو غیر مسلح کیا جائے۔ جنگی جرائم کرنے پر سامراجی فوجوں، طالبان اور داعش پر مقدمے چلائے جائیں۔ جمہوری انتخابات کرائے جائیں۔ افغانستان کی تباہی کرنے پر سامراجی ممالک ایک ری کنسٹرکشن فنڈ قائم کریں جسے مستقبل کی جمہوری افغان حکومت ملک میں بحالی کے کاموں پر خرچ کرے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔