حارث قدیر
آپ نے ساری زندگی کی جمع پونجی ایک ’سیونگ اکاؤنٹ‘ میں محفوظ کی ہو۔ آپ ایک مشکل میں پھنس جائیں، رقم کی اشد ضرورت ہو۔ آپ اپنی رقم حاصل کرنے جائیں اور آپ کو معلوم پڑے کہ آپ کی رقم متعلقہ برانچ سے کئی میل دور ایک دوسرے بینک میں منتقل ہو چکی ہے۔ آپ بھاگتے دوڑتے کئی میل کا سفر طے کر کے اس بینک میں پہنچیں اور آپ کو معلوم ہو کہ آج آپ کے علاقے کا دن ہی نہیں اور یہ دن کئی روز بعد آئے گا۔ پھر معلوم ہو کہ جب آپ کے علاقے کا دن آئے گا تو اس دن بھی محض 20 لوگوں کو ہی پورے دن میں بینک میں داخل ہونے کیلئے ٹوکن جاری ہو گا۔
ان سب مصیبتوں سے گزرنے کے باوجود اگر آپ کئی مہینے بعد ٹوکن حاصل کر کے بینک کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں اور آپ کو معلوم پڑے کہ آپ اپنی جمع کروائی گئی رقم یکمشت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ آپ کو جمع شدہ رقم کا 30 فیصد حصہ یکمشت حاصل کرنے کا ہی اختیار ہے، تو آپ پر کیا گزرے گی…؟
وفاقی وزیر مواصلات’مراد سعید‘ کی پہلے نمبر پر آنے والی وزارت کے ماتحت ’پاکستان پوسٹ‘نے ایسی ہی صورتحال سے پاکستان کے مختلف شہروں سمیت پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے لاکھوں شہریوں کو دوچار کر رکھا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے اور پاکستان پوسٹ کی مرحلہ وار نجکاری کے منصوبے پر عملدرآمد کرنے کیلئے یکمشت ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ پنشن کی ادائیگی نجی بینکوں کو منتقل کرنے سے دور دراز علاقوں کے پنشنرز کو پنشن کے حصول کیلئے کئی کئی ماہ تک ذلیل و خوار ہونا پڑا۔ پوسٹل لائف انشورنس کو نجی کمپنی کے حوالے کرنے کی وجہ سے انشورنس پالیسیاں خریدنے والوں کی مشکلات تاحال حل نہیں ہو سکی ہیں۔
ادارے میں نئی بھرتیوں پر پابندیاں عائد کرکے 2646 آسامیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ 20 سال سے زائد سروس کرنے والے ملازمین کے کوائف تیار کر کے انہیں جبری طور پر ملازمت سے فارغ کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ ہنگامی بنیادوں پر اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے ملازمین کی تعطیلات کو ختم کر کے اوقات کار کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔
بجلی کے بلات سمیت دیگر یوٹیلیٹی بلات کی مد میں 40 ارب روپے سے زائد کی رقم جو پاکستان پوسٹ نے شہریوں سے وصول کی ہوئی ہے وہ متعلقہ محکمہ جات اور کارپوریشنوں کو ادا نہیں کی جا سکی ہے۔
تاہم اس سب سے بڑھ کر سیونگ بینک کی لاکھوں پالیسیاں راتوں رات ’نیشنل سیونگ بینک‘ کو منتقل کرنے سے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر کے شہریوں کو ایک اذیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔
راولاکوٹ میں ’نیشنل سیونگ بینک‘ کے سامنے بدھ کے روز درجنوں مرد و خواتین علی الصبح ہی قطاروں میں جمع ہو چکے تھے۔ یہ لوگ اگلے روز جمعرات کی صبح بینک سے ملنے والے 20 ٹوکن حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھے، جو جمعرات کو ہی انہیں صبح 9 بجے فراہم کئے جانے تھے، جس کے بعد ان کی جمع کروائی گئی زندگی بھر کی جمع پونجیوں سے متعلق انہیں کوئی معلومات فراہم کی جانی تھی۔
یہ درجنوں مرد و خواتین راولاکوٹ سے 50 کلومیٹر دور واقع ضلع سدھنوتی کے مختلف دور دراز دیہاتوں سے یہاں پہنچے تھے اور انہیں ساری رات بینک کے سامنے بیٹھ کر گزارنی تھی تاکہ وہ قطار میں موجود رہ سکیں اور جمعرات کو روز بینک میں داخلے کے اہل قرار پانے والے پہلے 20 افراد میں شامل ہو سکیں۔
قطار میں کھڑے محمد رشید (فرضی نام) نے ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا تعلق ضلع سدھنوتی کی تحصیل پلندری سے ہے۔ میں بیرون ملک ملازمت کرتا تھا اور ساری زندگی محنت کر کے رقم ’ڈاک خانے‘(پاکستان پوسٹ) میں جمع کروائی تھی، تاکہ کسی مشکل وقت میں کام آئے گی۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی کی شادی طے ہو گئی ہے۔ میں نے 10 لاکھ روپے ڈاک خانے میں جمع کروا رکھے ہیں۔ یہ رقم نکلوانے کیلئے جب پلندری کے ڈاکخانے میں گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ رقم اب نیشنل سیونگ بینک میں منتقل کی جا چکی ہے۔ ہر 15 روز بعد پلندری کا نمبر آتا ہے اور دن میں صرف 20 ٹوکن جاری کئے جاتے ہیں۔ ابھی دن کے وقت ہی 50 سے زائد لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ کیامعلوم صبح کس کو ٹوکن ملتا ہے، کس کو نہیں ملتا۔‘
انکا کہناتھا کہ ’ٹوکن مل بھی جائے تو مجھے ابھی اپنے 10 لاکھ روپے نکلوانے کیلئے ڈیڑھ ماہ تک کا انتظار کرنا پڑے گا، کیونکہ ایک وقت میں صرف 3 لاکھ روپے نکلوا سکتا ہوں۔‘
واضح رہے کہ پونچھ ڈویژن کے 4 اضلاع میں نیشنل سیونگ بینک کی صرف ایک برانچ راولاکوٹ میں موجود ہے۔ پاکستان پوسٹ کے ڈاک خانہ جات تقریباً ہر سب ڈویژن اور قصبہ کی سطح پر موجود ہیں۔ پاکستان پوسٹ سے نیشنل سیونگ کے کھاتے بینک میں منتقل کرنے کی وجہ سے تمام کھاتہ داران کو رقوم لینے راولاکوٹ کیلئے میلوں کا سفر کرنا پڑرہا ہے۔
بینک کی طرف سے یکمشت رقوم فراہم کرنے سے انکار کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات میں شدید اضافہ ہو چکا ہے۔ کئی ماہ سے شہری بینک کے سامنے دن رات قطار میں کھڑے رہنے کے باوجود اپنی رقوم حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔
بینک کے سامنے قطار میں کھڑے محمد حمید کہتے ہیں کہ صرف ایک ضلع سدھنوتی کے 17 ہزار سے زائد اکاؤنٹس کو منتقل کیا گیا ہے۔ دیگر اضلاع کے کھاتے اس کے علاوہ ہونگے۔ ان سب لوگوں کو اپنی رقوم کے حصول کیلئے میلوں کا سفر کرنے کے باوجود وہ رقوم نہیں مل رہی ہیں۔
بینک حکام کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ کھاتہ داروں کو چیک بکس فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ اپنی رقوم اپنے کسی قریبی بینک میں منتقل کروا سکیں۔ تاہم اس کام کو مکمل کرنے میں کئی ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
محمد رشید (فرضی نام) نے اپنا نام بتانے سے انکار کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی یہاں میڈیا والے آئے تھے تو ہمیں کہا گیا تھا کہ میڈیا پر شور کرنے سے آپ کی رقم ضائع ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہم بہت مجبور ہیں، اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی سے محروم نہیں ہو سکتے۔
انکا کہنا تھا کہ ’میں نے دن رات مشقت کر کے کچھ رقم جوڑی تھی کہ مشکل وقت میں کام آئے گی، اب مشکل وقت آیا ہے تو وہ رقم حاصل کرنا ہی ناممکن ہو چکا ہے۔‘