خبریں/تبصرے

قابل فخر یوکرینی مزاحمت کا پہلا مہینہ: شکست پوتن کا مقدر ہے

فاروق سلہریا

سپاہِ پوتن نے یوکرین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ ایک ہزار کے لگ بھگ یوکرینی شہری جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے نو ملین تو اپنے ہی ملک میں دربدر ہیں اور ایک ملین سے زائد ہجرت کر گئے ہیں۔

پوتن کی بے رحم افواج شہری ٹھکانوں سے لے کر ایٹمی ٹھکانوں تک کو نشانہ بنا رہی ہیں لیکن یوکرین مزاحمت کر رہا ہے۔ جنگ تو نہ جانے کب تک جاری رہے مگر سیاسی، اخلاقی، سفارتی اور معاشی سطح پر پوتن یہ جنگ ہار چکا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اپنی ہار تسلیم کرنے تک پوتن یوکرین میں اور کتنی تباہی مچائے گا۔

ایک ماہ کے بعد ذرا اس جنگ کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں:

۱۔ پاکستان میں جنگ کے آغاز پر یوکرینی صدر زلنسکی کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔ کہا جا رہا تھا وہ ایک مسخرا ہے۔ زلنسکی (جس کی دائیں بازو کی سیاست کے لئے کوئی حمایت نہیں دی جا سکتی) عالمی سطح پر ایک علامت بن کر ابھرا ہے۔ وہ بھاگا نہیں۔ چھپا نہیں۔ ہتھیار نہیں ڈالے۔ معلوم نہیں اسے مسخرا کہنے والے اب تک اپنی رائے پر قائم ہیں یا ترمیم پسندی پر مائل ہیں۔

۲۔ یوکرین کے عوام نے زبردست مزاحمت کی ہے۔ یہ ہر گز غیر متوقع نہیں تھا۔ سوویت روس سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں، بالخصوص کاکیشیا، بالٹک اور یورپی سرحد پر واقع ریاستوں میں جس قدر روس سے نفرت ہے، جس قدر روس کا خوف ہے، ان ریاستوں میں جس طرح کا نیشنلزم پایا جاتا ہے، جس طرح کی ان ریاستوں کی تاریخ ہے…اس کے پیش نظر یہ طے تھا کہ عوام مزاحمت کریں گے۔

۳۔ یہ بالکل واضح تھا کہ روس یوکرین کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا لیکن وہ قبضہ نہیں کر سکے گا۔ عنقریب پوتن کو احساس ہو گا کہ جس طرح ہر امریکی سپاہی ویت نام میں ایک یرغمال تھا، عین اسی طرح یوکرین کی سر زمین پر ہر روسی سپاہی ایک یرغمال ہے۔ امریکہ کویہ احساس بعد ازاں افغانستان میں بھی ہوا۔ اسی طرح چالیس سال پہلے سوویت روس کو یہ تجربہ افغانستان میں ہوا۔ معلوم نہیں سامراج کی یاداشت اتنی کمزور کیوں ہے؟ ویت نام نے طے کر دیا تھا کہ کلونیل قبضوں کا زمانہ لد چکا۔ سامراج عراق، لیبیا، شام، افغانستان اور اس دفعہ یوکرین کو تباہ تو کر سکتا ہے لیکن وہ کلونیل قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔

۴۔ اس جنگ کے آغاز پر پاکستان ہی نہیں عالمی سطح پر بھی بائیں بازو کا ایک حصہ تھا جس کے منہ سے روس اور پوتن کی مذمت میں ایک لفظ تک کہنا مشکل ہو رہا تھا۔ سو طرح کی آئیں بائیں شائیں کی جا رہی تھی۔ یوکرین کے مختصر مگر بہادر بائیں بازو نے نہ صرف بندوق ہاتھ میں لے کر روسی افواج کا مقابلہ کیاہے بلکہ قلم کی مدد سے شاندار طریقے سے اس بائیں بازو کو شٹ اپ کال دی جو آئیں بائیں شائیں کر رہا تھا۔ اس کی ایک بہترین مثال یہ مضمون ہے۔

۵۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ بغیر آئیں بائیں شائیں کئے کھل کر روسی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی جاتی۔ جب عراق پر حملہ ہوا تھا بائیں بازو نے نہیں سوچا تھا کہ صدام کے ہاتھ پر لاکھوں کمیونسٹوں، کردوں، شیعہ سنی مخالفین کا ہی خون نہیں بلکہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کا الزام بھی ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت یہ نہیں دیکھا گیا تھا کہ وہاں طالبان جیسے وحشی اقتدار میں تھے۔ سرد جنگ کے عہد میں رہنے والے اس بائیں بازو کو شائد یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ موجودہ روس سوویت یونین کا جانشین نہیں۔ اس بائیں بازو نے تو شائد پوتن کی وہ تقریر بھی نہیں سنی تھی جو اس نے یوکرین پر حملے سے چند دن پہلے کی اور لینن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لینن کی وجہ سے روس ٹوٹا جس نے یوکرین جیسی ریاستوں کو حق خود ارادیت دیا۔ یہ بایاں بازو مسلسل ناٹو ناٹو کی رٹ لگائے ہوئے تھا۔

۶۔ ناٹو اگر جنگ کی وجہ تھا بھی تو یوکرین پر حملے کے بعد صورتحال بالکل بدل گئی تھی۔ بائیں بازو کا کام ہے بدلی ہوئی صورتحال کے مطابق، اصولوں پر کار بند رہتے ہوئے، موقف اپنائے۔ رہی بات ناٹو کی تو پوتن نے حملہ کر کے یوکرین ہی نہیں، تمام سابق سوویت ریاستوں کو ناٹو کے کیمپ میں دھکیل دیا ہے۔ فیس بک پر بیٹھ کر کوئی کچھ بھی لکھے لیکن آج یوکرینی شہریوں کی اکثریت یہ سوچ اور کہہ رہی ہو گی اگر ہم ناٹو کے رکن ہوتے تو روس ہم پر حملہ نہ کر تا۔ اعداد و شمار بالکل واضح ہیں۔ یوکرین میں تقریباً ایک دہائی قبل صرف تیس فیصد لوگ ناٹو کی رکنیت کے حامی تھے۔ کریمیا اور دیگر یوکرینی علاقوں پر روسی قبضے کے بعد 60 فیصد ہو گئی۔ جنگ لگنے کے بعد، ایک ماہ کے اندر اندر یہ تعداد 80 فیصد ہو گئی ہے۔ آج بالٹک کے لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ناٹو کے ساتھ جانا عقل مندی کا فیصلہ تھا۔ سویڈن اور فن لینڈ میں دباؤ بڑھ رہا ہے کہ ناٹو کے رکن بن جاؤ (یہ بات کہنے کا مطلب ناٹو کی حمایت نہیں۔ ہمارا دو ٹوک موقف ہے کہ ناٹو کو تحلیل کیا جائے لیکن پوتن کی مہم جوئی نے اس موقف کو عام یورپی شہریوں کی نظر میں بہت کمزور کر دیا ہے)۔

۷۔ سٹریٹیجک نقطہ نظر سے مزیدیہ نقطہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ پوتن نے یوکرین پر حملہ کر کے وہی غلطی کی جو سٹالن نے دوسری عالمی جنگ کے موقع پر فن لینڈ پر قبضہ کر کے کی۔ فن لینڈ پر قبضے کے بعد ایک جانب فن لینڈ کے عوام نے مزاحمت شروع کر دی۔ دوسری جانب جرمنی کے خلاف فن لینڈ کا دفاع سوویت روس کی ذمہ داری بن گیا۔ کچھ ملتی جلتی صورتحال پوتن کی ہے۔ پوتن شاہی نے یوکرین کے عوام کو دشمن بنا لیا ہے۔ جلد یا بدیر روس کو یہاں سے نکلنا پڑے گا۔ جوں ہی جنگ ختم ہو گی، یوکرین میں حکمران طبقے پر زبردست دباؤ ہو گا کہ ناٹو کی رکنیت لو (یہ الگ بات ہے کہ ناٹو یوکرین کو رکن بنانا بھی چاہتا ہے یا نہیں)۔

۸۔ دنیا بھر میں بائیں بازو کو کھل کر روسی جارحیت کے خلاف عوامی مظاہرے منظم کرنے چاہئیں۔ یوکرین کے ساتھ ہر طرح کی یکجہتی کرنی چاہئے۔ یوکرین پر بیرونی قرضے معاف کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ مطالبہ کرنا چاہئے کہ یوکرین کو ہر طرح کا اسلحہ فراہم کیا جائے۔ ایسے انٹرنیشنل برگیڈ تشکیل دینے چاہئیں جو یوکرین میں مزاحمت کا ہاتھ بٹا سکیں۔

کیونکہ: شکست روسی سامراج کی ہو یا امریکی سامراج کی، سامراج کی شکست دنیا بھر کے محکوموں کی فتح ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔