لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغانستان میں حکمران طالبان گروہ نے نئے تعلیمی سال کیلئے لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان تو کیا، تاہم کلاسیں شروع ہونے سے قبل ہی سیکنڈری سکولوں کو دوبارہ بند کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور صرف پرائمری سکول کھلے رکھے گئے تھے۔ تاہم طالبان کا موقف تھا کہ وہ تعلیمی پالیسی بنا کر جلد لڑکیوں کے سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کھول دیں گے۔
’بی بی سی‘ کے مطابق 23 مارچ کو نئے تعلیمی سال کے آغاز پر لڑکیوں کے سیکنڈری سکول دوبارہ کھلنے کی امید تھی۔ بڑی تعداد میں طالبات تیاری کر کے سکولوں میں پہنچیں۔ تاہم طالبات کے سکول میں پہنچنے کے بعد ایک واٹس ایپ پیغام کے ذریعے تعلیمی اداروں کے سربراہان کو یہ بتایا گیا کہ لڑکیوں کے سیکنڈری سکول درحقیقت اگلے نوٹس تک بند رہیں گے۔
طالبات نے اس فیصلے پر گہر رنج و غم اور رد عمل کا اظہار کیا۔ کچھ طالبات رونے لگیں۔ طالبات کی روتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کو دبانے کی مذمت کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں۔ ایک طالبہ فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ”ہم صرف سیکھنا اور اپنے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، یہ کیسا ملک ہے؟ ہمارا گناہ کیا ہے؟“
طالبان کی وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز الرحمان ریان کے مطابق ’سکولوں کو دوبارہ کھولنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، تاہم مرکزی قیادت نے تعلیمی ادارے اس وقت تک بند رکھنے کا حکم دیا ہے، جب تک شریعت اور افغان ثقافت کے مطابق ایک جامع منصوبہ تیار نہیں کر لیا جاتا۔‘
تاہم طالبان نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی افغانستان میں لڑکیوں اور لڑکوں کے سیکنڈری سکولوں کو الگ کر دیا تھا، یونیفارم میں بھی تبدیلی کر دی گئی تھی۔
متعدد صوبوں میں طالبان کے مقامی حکام نے مرکزی سرکاری پالیسی کے فقدان کے باوجود گزشتہ سال ہی لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دینا شروع کر دی تھی۔
تاہم انتہائی قدامت پسند طالبان اراکین کی مخالفت اور افراتفری کی نوعیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے اندر گروہ بندی شدید ہو رہی ہے۔ قدامت پسند اراکین کو لڑکیوں کی تعلیم پر قائل کرنے کی بجائے مرکزی قیادت وزارت تعلیم کو ہی ختم کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔
ورلڈ بینک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق طالبان کے قبضے کے بعد سے سکیورٹی میں بہتری کے بعد خواتین کی پرائمری سکولوں میں حاضری میں اضافہ ہوا ہے۔
لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو بند رکھنے کا فیصلہ اس خلیج کی نشاندہی کرتا ہے جو طالبان قیادت اور افغان معاشرے کے درمیان اب بھی موجود ہے۔