فاروق طارق
12 اپریل 2022ء کو جب علی وزیر سے ملنے پارلیمنٹ لاجز پہنچے تو کئی اور بھی ان سے ملاقات کے منتظر تھے۔ علی وزیر اپنے کمرے میں نہ تھے، تو کامریڈ عثمان اور نثار شاہ ایڈووکیٹ (چیئرپرسن جموں کشمیر عوامی ورکرز پارٹی) کے ساتھ انتظار کرنے لگے۔
علی وزیر یہاں ایک قیدی کی حیثیت سے قیام پذیر تھے، ان کے ساتھ کراچی جیل کی جانب سے ایک افسر بھی آئے ہوئے تھے۔ غلام عباس کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ وہ بتا رہے تھے کہ جب انکی ڈیوٹی علی وزیر کے ساتھ لگی اور پچھلی دفعہ وہ انکے ساتھ کراچی سے اسلام آباد آئے تو اس وقت انہیں علی وزیر ”کرنل“ کہہ کر پکارتے تھے۔ مگر اب یہ عالم ہے کہ علی وزیر انہیں ”کامریڈ“ کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ سندھ کے حالات پر گفتگو ہوئی، ان کے کئی دوست ہمارے بھی دوست تھے۔ یوں ان کے ساتھ بات کرتے یہ احساس ہی نہ ہوا کہ ایک جیل آفیسر سے بات ہو رہی ہے۔ ایسا لگا کہ ہم تو ایک دوسرے کے عرصہ دراز سے واقف ہیں۔
علی وزیر سے ملنے صوابی سے بھی ایک وفد تشریف فرما تھا۔ علی کا بھتیجا ساتھ کمرے میں سو رہا تھا۔ ان کا بیٹا بھی آیا تھا مگر اس سے ملاقات نہ ہوئی۔ جب انکی اہلیہ کے بارے پوچھا تو معلوم ہوا وہ نہیں آئی ہیں۔ علی وزیر آئے تو سب سے گرم جوشی سے ملے، انہوں نے جوگر پہن رکھے تھے اور شرٹ اور پینٹ میں تھے، بال بھی باندھ رکھے تھے۔ پہلی ہی نظر میں معلوم ہو گیا کہ انہوں نے وزن کم کیا ہوا ہے اور کافی سمارٹ نظر آ رہے تھے۔
علی سے آخری ملاقات لال خان مرحوم کے جنازے پر قصبہ بھون میں ہوئی تھی۔ آتے ہی میری اہلیہ شہناز اقبال کی رحلت پر اظہار افسوس کیا۔ جیسے ہی علی سامنے آئے بہت کچھ یاد آگیا، یادیں تازہ ہو گئیں۔
لاہور لیفٹ فرنٹ کے اپریل 2018 ء کے موچی گیٹ جلسہ کے موقع پر علی 10 دن پہلے لاہور آ گئے تھے اور لال خان مرحوم کے گھر رہائش پذیر تھے۔ پھر جب رابطے مزید بڑھ گئے، تو انہیں ہم نے ہوٹل پاک ہریٹیج شفٹ کر دیا۔ وہیں سے روزانہ رابطوں پر نکلتے تھے، ان کی نثار شاہ، فانوس گوجر (مرحوم) اور عصمت شاہ جہان سمیت گرفتاری اور رہائی بھی وہیں سے ہوئی تھی۔ موچی گیٹ میں انکی، منظور پشتین اور محسن داوڑ کی تقریر ایک بغاوتی پیغام تھا۔ ایک کامیاب جلسے پر خوش تھے۔ لاہور جلسہ نے پی ٹی ایم کو ملک گیر عوامی بنیادیں رکھنے میں بہت مدد دی۔
پھر وہ قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر لال خان مرحوم کو ملنے لاہور آئے تو مجھے بھی رات 11 بجے آنے کو کہا وہ اسی وقت لاہور پہنچے تھے۔ میں پھول تلاش کر رہا تھا جو بمشکل ملے۔ ساتھ میں مٹھائی کا ایک بڑا ڈبہ لے کر پہنچا تو لال خان نے کہا ہمیں تو جشن منانا بھی نہیں آتا، چیئرمین آیا ہے تو جیت کا جشن تو اب ہو گا۔ مجھے لال خان ’چیئرمین‘کہہ کر ہی بلاتے تھے۔ پھر وہاں موجود کامریڈوں نے ہار علی وزیر کے گلے میں ڈالے، فوٹو سیشن ہوئے اور رات دیر تک گپ شپ جاری رہی۔ اس کے بعد بھی کئی دفعہ ملاقاتیں رہیں۔
اب علی وزیر پھر سامنے تھا سیاسی گفتگو نہ ہو تو کیا ہو۔ بتانے لگے کہ شہباز شریف سے سیدھی باتیں کی ہیں اور انہوں نے ان پر عمل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ کہنے لگے آپ کی حقوق خلق پارٹی کا نام اچھا ہے، بس اسے ’خلق پارٹی‘کہنا شروع کریں۔ ایک کابل کی خلق پارٹی اور اب لاہور سے خلق پارٹی کا احیا ہو رہا ہے۔ کابل کی خلق پارٹی کا نام اب بھی بڑی تعظیم سے لیا جاتا ہے۔ کہنے لگے حقوق تو خلق کے اندر موجود ہیں، اسے ایکسٹرا لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان سے کہا گیا کہ اسے ہم خلق پارٹی کے طور پر ہی مشہور کریں گے، ان کو بتایا کہ پارٹی رجسٹریشن درخواست الیکشن کمیشن کو جمع کرا دی ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ بس اب جیل جیل ختم کرو اور آجاؤ باہر بہت کام ہیں، جو مل کر کرنے ہیں۔ کہنے لگے کہ ہم نے تو باجوہ صاحب سے کہا ہے کہ اگر میرا کوئی ذاتی جھگڑا ہے، زمین یا ٹرانسپورٹ کا، تو اسے حل کر لیتے ہیں۔ اسے سیاست سے نہ جوڑا جائے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
کوئی ایک گھنٹے بعد اجازت چاہی تو ساتھ باہر آ گئے، پھر فوٹوگرافی کا سیشن بھی ہوا۔ ایک مارکسسٹ ایم پی سے یہ ملاقات ضروری بھی تھی، ان سے اظہار یکجہتی کے لئے اور یادگار کیلئے بھی۔ علی آج نہیں تو کل باہر آئے گا اور جیل کا دروازہ ٹوٹے گا۔ انکے باہر آنے سے پاکستان میں بائیں بازو کو مزید سہارا ملے گا۔