لاہور (جدوجہد رپورٹ) خیبرپختونخوا حکومت نے دارالعلوم حقانیہ نوشہرہ کیلئے ابتدائی طور پر 60.66 ملین روپے مختص کئے جانے کے باوجود مزید 80.16 ملین روپے جاری کئے ہیں۔
’ٹربیون‘ کے مطابق یہ رقم نئے اکیڈمک بلاکس کی تعمیر کیلئے جاری کی گئی ہے، جو سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق (مرحوم) کے درمیان ہونے والے معاہدے کا حصہ ہے۔ 2016ء میں صوبائی حکومت اور مولانا سمیع الحق کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت معروف مذہبی مدرسے میں مذہبی تعلیم کے علاوہ جدید تعلیم بھی متعارف کروائی جانی مقصود ہے۔
مدرسہ کو ماضی میں صوبائی حکومت 300 ملین اور 270 ملین روپے کی بڑی رقوم فراہم کر چکی ہے۔ معاہدے پر 10 جولائی 2016ء کو اس وقت کے صوبائی وزیر شاہ فرمان اور مولانا سمیع الحق نے دستخط کئے تھے۔
مولانا سمیع الحق نے مدرسے میں جدید تعلیم شروع کرنے پر اتفاق کیا اور حکومت نے اس مقصد کے لیے عمارتیں تعمیر کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
معاہدے کے تحت مدرسہ کے تعلیم القرآن ہائی سکول کو ڈگری کالج، حقانیہ انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویج (عربی، انگلش، فارسی، فرانسیسی اور چائنیز) قائم کیا گیا، حقانیہ ٹیچرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، جدید سائنس لیبارٹری، کمپیوٹر لیب اور انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویج کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
ایک سرکاری اہلکار نے ’ٹربیون‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدرسے میں ہاؤس آف ریسرچ اینڈ پبلشنگ بھی قائم کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ کے وظائف، ریاضی، سائنس، سماجی علوم، سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات اور جغرافیہ کی کلاسیں بھی معاہدے کا حصہ ہیں اور حکومت کو ان تمام فیکلٹیز کے لیے نئی عمارتیں تعمیر کرنا ہوں گی۔
معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مدرسہ صوبے کے تمام دینی مدارس میں جدید تعلیم متعارف کرانے میں معاونت کرے گا۔
اصل معاہدے کے مطابق حکومت نے مدرسہ کو 557.59 ملین روپے فراہم کرنا تھے اور فنڈز جاری کرنے کے باوجود عمارتوں کی تعمیر ابھی تک نامکمل تھی، اس لئے موجودہ حکومت نے 60.66 ملین روپے مختص کئے لیکن اس کی بجائے 80.16 ملین روپے جاری کر دیئے گئے۔
معاہدے کے مطابق نئی کلاسز شروع کرنے کے اخراجات اور دیگر تمام اخراجات مدرسہ اپنے وسائل سے پورا کرے گا۔
یاد رہے کہ مدرسہ حقانیہ کی شہرت طالبان کی درسگاہ کے طور پر رہی ہے اور مولانا سمیع الحق کو ’فادر آف طالبان‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موجودہ وقت افغانستان میں حکمران طالبان قیادت سمیت دوسرے درجے کی قیادت میں بھی ایسے افراد کی ایک بڑی اکثریت شامل ہے، جنہوں نے مدرسہ حقانیہ یا مولانا سمیع الحق سے تعلیم حاصل کی ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان پر بھی طالبان کے حمایتی ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اپنی پہلی حکومت کے قیام کے بعد تحریک انصاف حکومت نے مبینہ طور پر طالبان کو خوش کرنے کیلئے مدرسہ حقانیہ کو بڑے پیمانے پر فنڈز دینے کا معاہدہ کیا تھا۔ بعد ازاں مرکز میں قائم حکومت کے دوران بھی عمران خان اور ان کی پارٹی نے افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت کی کھل کر حمایت کی۔ وہ تحریک طالبان کے ساتھ امن معاہدوں کے ایک وکیل کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔