حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیر اعظم نے حکومت کو حاصل مالی اختیارات ایک مرتبہ پھر پاکستان کی وفاقی حکومت کے حوالے کر دیئے ہیں۔
وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی کی ہدایات پر محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل کو سنٹرل بورڈ آف ریونیو (سی بی آر) کے عہدے سے ہٹا کر چیف سیکرٹری شکیل قادر کو نیا چیئرمین مقرر کیا ہے۔
یاد رہے کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کا افسر ہوتا ہے جبکہ چیف سیکرٹری وفاق پاکستان کی طرف سے اس خطے میں تعینات کردہ لینٹ افسر ہوتا ہے۔ اس طرح پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ سی بی آر ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت کے کنٹرول میں چلا گیا ہے۔
وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی نے یہ سارا معاملہ خفیہ رکھا اور اس اہم معاملے پر وزارت خزانہ اور وزیر خزانہ عبدالماجد خان سے بھی مشاورت نہیں کی گئی۔ اندرونی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے سیکرٹریٹ کو خصوصی ہدایت دے رکھی تھی کہ اس معاملے میں وزارت خزانہ کو آن بورڈ نہ لیا جائے۔
محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل ڈاکٹر آصف شاہ سے چیئرمین سی بی آر کا چارج واپس لے کر چیف سیکرٹری شکیل قادر خان کو سونپ دیا گیاہے۔
دوسری جانب وزارت خزانہ کے ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں اس سارے عمل سے لاعلم رکھا گیا ہے۔
اس طرح گزشتہ دور حکومت میں ’کشمیر کونسل‘ کو غیر فعال کرتے ہوئے مالی اور انتظامی اختیارات پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کو منتقل کئے جانے سے ہونے والی مالی فوائد کو وزیراعظم نے خود وفاقی حکومت کے سپرد کر دیا ہے اور انتظامی کے بعد مالی طور پر بھی حکومت ایک مرتبہ پھر لینٹ افسران کے رحم و کرم پر جا چکی ہے۔
گزشتہ حکومت کے ان اقدامات کے بعدوزارت خزانہ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ کشمیر کونسل کے ذریعے جمع کئے جانے والے سالانہ ٹیکس 12 ارب روپے کے لگ بھگ ہوتے تھے جبکہ مالی اختیارات کشمیر کونسل سے حکومت کو منتقل ہونے کے بعد سی بی آر کے ذریعے سے 30 ارب روپے سے زائد سالانہ ٹیکس وصول کئے گئے ہیں۔
قبل ازیں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے ہر طرح کے ٹیکس کشمیر کونسل کا ادارہ جمع کرتا تھا۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم اس ادارے کو وفاقی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے ماتحت چلایا جاتا ہے اور وزیر اعظم پاکستان اس ادارے کے چیئرمین ہیں۔
مین سٹریم سیاسی جماعتوں سمیت قوم پرست جماعتیں کشمیر کونسل کے خاتمے اور مالی اور انتظامی اختیارات مقامی حکومت کو تفویض کئے جانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ حکومت نے کشمیر کونسل کو غیر فعال کر کے مالی اختیارات تو حاصل کر لئے تھے، تاہم انتظامی اختیارات براہ راست وزیراعظم پاکستان کو تفویض کر دیئے گئے تھے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت وفاق کی جانب سے 500 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کے اعلان کے گرد کمیٹیاں بنانے میں مصروف ہے، جبکہ دوسری جانب حاصل مالی اختیارات مرکزی حکومت کو تفویض کر دیئے گئے ہیں۔ اس خطے کا سالانہ بجٹ 141 ارب روپے ہے، ایسے میں 500 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان پاکستان کی معاشی اور سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے شعبدہ بازی اور جعل سازی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ترقیاتی منصوبہ جات کی تعمیر کرتے ہوئے مال بنانے کیلئے شہرت رکھنے والی جماعت مسلم لیگ ن گزشتہ دور حکومت میں اس خطے میں ترقیاتی بجٹ میں 100 فیصد تک کا اضافہ کرنے میں تو کامیاب ہوئی لیکن کوئی بھی بڑا منصوبہ تعمیر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، نہ ہی بڑھائے گئے ترقیاتی فنڈز کے اخراجات کیلئے نوکر شاہی کو بہتر منصوبہ بندی کر نے میں کامیاب ہو پائی۔
تحریک انصاف کی حکومت تو پاکستان میں ہر طرح کے ترقیاتی بجٹ پر کٹوتیاں لگا چکی ہے، سامراجی اداروں سے حاصل کئے گئے قرضوں کو بھی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے قرضوں کی ادائیگی اور مالی اور انتظامی اخراجات پر خرچ کرنے کی وجہ سے معیشت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ ماضی میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگائے جانیوالے لاک ڈاؤن کے متاثرین کیلئے اعلان کردہ پیکیج سے لیکر کراچی شہر کیلئے اعلان کردہ ترقیاتی پیکیج تک حکومت کے تمام اعلانات اور دعوؤں کو دیکھا جائے تو کہیں بھی اعلانات اور دعوؤں کے مطابق عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی سابقہ حکومت نے بھی رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی وفاقی حکومت کی طرف سے کٹوتی کئے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس طور پاکستان کی وفاقی حکومت کی حکمت عملی کو مدنظر رکھا جائے تو یہ ترقیاتی پیکیج محض اعلانات تک ہی محدود رہنے کا امکان ہے۔ تاہم اس کی آڑ میں مقامی حکومت کے مالیاتی اختیارات بھی وفاقی حکومت نے اپنے بھیجے گئے لینٹ افسر کے سپرد کر دیئے ہیں۔