فاروق سلہریا
افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کو ’فتح مکہ‘ قرار دینے والا مین اسٹریم پاکستانی میڈیا اور دائیں بازو کے لوگ جن کی بغلیں سوج گئی تھیں، جماعت اسلامیاں اور جمعیت علماہائے اسلامیان، قوم یوتھ و قوم لوٹ کھسوٹ…آج کل افغانستان بارے بالکل خاموش ہیں۔
بیس سال تک،کابل میں ہونے والے خود کش حملوں کو فاتحانہ انداز میں رپورٹ کرنے والے نیوز چینل تو آج کل سکولوں پر خود کش حملوں کی خبر تک نہیں دے رہے۔
فخریہ انداز میں چائے کا کپ پینے والے جرنل صاحب کھڈے لائن لگے معلوم نہیں آج کل بھی چائے کا شوق فرماتے ہیں یا نہیں۔
50 فیصد پاکستانی جو، سروے کے مطابق، طالبان کے قبضے پر بہت خوش تھے معلوم نہیں آج کل افغانستان میں دلچسپی لے رہے ہیں یا ’فتح مکہ‘کے بعد چراغوں میں روشنی ناپید ہو چکی ہے؟
دریں اثنا طالبان دہشت گردوں نے پورے ملک کو بربریت کے میوزیم میں تبدیل کر دیا ہے۔ مرد و خواتین پر بہیمانہ تشدد کی، لوگوں کی سر عام تذلیل کی، ویڈیوز روز سامنے آتی ہیں۔ مغرب، جو یہ کہہ کر پتلی گلی سے نکل لیا تھا کہ طالبان 2.0، بڑے لبرل ہیں، کبھی کبھی طالبان قیادت کو یورپ کی سیر کرانے کے بہانے یہ ذکر کر دیتا ہے کہ افغان لڑکیوں کے سکول آٹھ ماہ سے بند ہیں۔ کبھی کبھار کوئی گورا صحافی ریٹنگ کے چکر میں یہ خبر بھی جاری کر دیتا ہے کہ سہیل شاہین کی اپنی بیٹیاں دوحہ میں پڑھ رہی ہیں اور بڑی والی تو سکول ٹیم کی طرف سے فٹ بال جیسا غیراسلامی کھیل بھی کھیلتی ہے۔ کچھ مغربی صحافی خواتین ایکسکلوسیو کی تلاش میں برقعہ پہن کا کابل بھی جا پہنچتی ہیں۔ سی این این بھی شرمندہ شرمندہ سا کبھی کبھی کبھار بتا دیتا ہے کہ طالبان نے برقعے کو ہی لازمی قرار نہیں دیا بلکہ افغان عورت کو ملنے والی ہر آزادی چھین لی گئی ہے۔ یہ کہنے کی ہمت بی بی سی کو بھی نہیں ہوتی کہ افغانستان خواتین کے حقوق، انسانی حقوق، خوراک، صحت، تعلیم اور ماحولیات کے بدترین بحران سے دو چار ہے۔
ہاں البتہ اسلامی ریپبلک آف پاکستان کا آزاد میڈیا، اس کے بہادرجرنیل، اس کی مذہبی سیاسی جماعتیں، اس کی قوم یوتھ جو چند ماہ پہلے تک ’فتح مکہ‘ کے شادیانے بجا رہی تھی آج کل اسے یہ بھی یاد نہیں کہ طالبان کے سربراہ کا نام ملا ہیبت اللہ ہے جو عید کی نماز بھی عوام سے منہ چھپا کر پڑھتا ہے۔
ملا ہیبت اللہ کی شکل دیکھنے میں ویسے افغان عوام کو کوئی دلچسپی بھی نہیں کہ اس بے رحم رژیم نے باعزت خواتین کو بھکاری بنا دیا ہے۔ لوگ روٹی کے لئے کم سن بیٹی کو بیچنے پر مجبور ہیں۔ لڑکیوں کے اسکول ہی نہیں، بہت سے سرکاری دفتر، ہسپتال، کیفے، بہت سے کاروبار، چائے خانے حتیٰ کہ پارک تک بند ہیں۔
امید ہے کابل کا چڑیا گھر بھی بند کر دیا گیا ہو گا کہ جب طالبان کے ہاتھوں پورا ملک ہی چڑیا گھر بن چکا ہے تو پھر کابل کے چڑیا گھر کی کیا ضرورت ہے؟ آمدن کے لئے طالبان کو چاہئے کہ الباکستانیوں کے لئے بربریت کے اس چڑیا گھر کے لئے الباکستانیوں کے لئے پیکیج ٹورز کا اہتمام کریں۔ سعودی عرب میں بے شرمی پھیلنے کے بعد، طارق جمیل کے لئے بھی نئے کاروبار کا موقع ہاتھ آ جائے گا۔
ادھر، خاموش مجاہدین، ان کے ترجمان، سلیم صافیان، ارشد شریفین وغیرہ وغیرہ لوگوں کو یہ تک بتانے کے قابل نہیں کہ دیکھو طالبان نے امن قائم کر دیا ہے۔
نہ صرف داعش طالبان ست ببر سر پیکار ہے بلکہ طالبان کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے بھی لڑ رہے ہیں۔ ایک وجہ اس لڑائی کی اسمگلنگ کے روٹس بھی ہیں۔
جو افغان مالی سکت رکھتا ہے، ملک سے یا فرار ہو چکا ہے یا ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغانستان کو ساری دنیا نے مل کر تباہ کیا ہے لیکن سب سے بڑی ذمہ داری امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ طالبانی بربریت کے عجائب گھر سے جو افغان فرار ہو کر پاکستان پہنچ رہے ہیں انہیں مہاجر بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ کچھ افغان کئی دن سے احتجاجی دھرنا دئیے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھے ہیں۔ سوائے محسن داوڑ کے نہ کسی سلیبریٹی صحافی کو یہ لاچار و مجبور لوگ نظر آئے نہ کسی سیاستدان کو۔ کھڈے لائن لگے جرنل صاحب ہی کسی دن ان کے ساتھ چائے کا کپ پینے چلے جائیں۔ سنا ہے کھڈے لائن لگنے کے بعد انسان کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔