لاہور (جدوجہد رپورٹ) بلوچ خاتون شاعرہ حبیبہ پیر جان کو کراچی سے، جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ایم فل سکالر گزین بلوچ ساتھی سمیت کوئٹہ سے لاپتہ ہو گئے ہیں۔
حبیبہ پیر جان کی صاحبزادی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے ایک ویڈیو بیان میں انہوں نے بتایا کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ایک کالی ویگو گاڑی میں سی ٹی ڈی اہلکاران گھر پر آئے اور انہو ں نے کہا کہ وہ حبیبہ پیر جان کو آدھے گھنٹے کیلئے لے جا رہے ہیں، جلد واپس بھیج دیا جائے گا۔ تاہم کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا، نہ ہی ان سے متعلق کوئی معلومات فراہم کی جا رہی ہے۔
حبیبہ پیر جان بلوچ کا تعلق بلوچستان کے علاقے تمپ سے بتایا جا رہا ہے اور وہ کراچی میں مقیم تھیں۔ تاحال حکومت اور سکیورٹی اداروں کے حوالے سے ان کے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی ہے۔ تاہم ان کی بازیابی کیلئے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے۔
دوسری طرف بدھ اور جمعرات کی ہی درمیانی شب گزین بلوچ کو ان کے ایک ساتھی کے ہمراہ کوئٹہ سے گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا ہے۔ گزین بلوچ تربت کے رہائشی ہیں اوران کا اصل نام ’مسلم اللہ بخش‘ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ایم فل سکالر ہیں۔ انہیں رواں ماہ 12 مئی کو پنجاب یونیورسٹی سے گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا تھا۔ تاہم طلبہ کے احتجاج کے بعد انہیں جلد ہی رہا کر دیا گیا تھا۔
بدھ کی شب وہ اپنے ایک دوست میر احمد، جو ایف بی آر کے ملازم ہیں، کے ہمراہ کوئٹہ کے ایک نجی ہوٹل میں تھے، جہاں سے انہیں گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند سول کپڑوں میں ملبوس افراد دو نوجوانوں کو زبردستی ایک کالے رنگ کی ویگو گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گزین بلوچ کے ہمراہ گرفتار ہونے والے میر احمد کے بھائی توصیف احمد نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ گزین بلوچ کے ہمراہ ان کے بھائی میر احمد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ گزین بلوچ کو ایک ہفتہ قبل ہی گرفتار کرنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔
تاہم ابھی تک سرکاری سطح پر گزین بلوچ کی گرفتاری سے متعلق کوئی تفصیلات میڈیا کو نہیں بتائی گئی ہیں۔