لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایران کے دارالحکومت تہران میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی موت کی خبر کے بعد پورے ایران میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور گذشتہ رو دن سے پورے ایران میں مظاہرے ہو تے رہے۔ مہسا امینی تہران کی سڑکوں سے نام نہاد ’اخلاقی گشت‘ کرنے والی پولیس کے ہاتھوں اغوا ہونے کے دو گھنٹے بعد کوما میں ہسپتال میں داخل تھی۔
’ایران وائر‘ کے مطابق ساقیز سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون اپنے اہل خانہ کے ساتھ چھٹیوں پر تھی، جب منگل کی شام 6 بجے کے قریب وین اس کے اور اس کے بھائی کیارش کے پاس کھڑی ہوئی، چند گھنٹوں بعد وہ برین ڈیڈ تھیں۔
مہسا کو بھائی سے الگ کئے جانے کے بعد ایک پولیس اسٹیشن میں ’ری ایجوکیشن‘ کیلئے لے جایا گیا، جہاں سے انہیں کسرہ ہسپتال میں تشویشناک حالت میں پہنچایا گیا۔
13 ستمبر بروز منگل شام 7 بجے تہران کی ایمرجنسی سروس کے پیرا میڈک نے مہسا کی تشویشناک حالت بارے اطلاع دی۔ تاہم یہ ہدایت اسی وقت آگئی تھی، جب مہسا کو ابھی ہسپتال پہنچایا بھی نہیں گیا۔
اسی رات گشت کے ذریعے گرفتار ہونے والی دوسری نوجوان خواتین میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ مہسا جیسی وین میں نہیں تھیں، لیکن پولیس اسٹیشن میں وہ ایک ساتھ تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ ’انہوں نے ہمارے موبائل فون چھین لئے اور کہا کہ ہم سب کو ایک طرف بیٹھنا ہے۔ میرے بیٹھنے کے فوری بعد مہسا کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا، اخلاقی گشت سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے اس کا سر کرسی پر مارا اور وہ اس کے اوپر کھڑی ہو گئی۔‘
انکا کہنا تھا کہ وہاں بٹھائی گئی لڑکیوں کے گروپ نے مہسا کو اٹھا کر اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مار کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی، لیکن وہ جواب نہیں دے رہی تھی، ایک ڈاکٹربھی پہنچا جس نے فوری اس کے علاج کی کوشش شروع کی۔ تاہم وہ بے سدھ پڑی رہی۔‘
تہران ایمرجنسی سروس کے مطابق ان کے پیرا میڈیکس میں سے ایک اس وقت وہاں موجود تھا، مہسا کے گرنے سے کچھ دیر پہلے یہ بتایا گیا کہ ایک مریض سانس کی قلت کا شکار ہے، وہ اس کے بعد ری ایجوکیشن کے کمرے میں پہنچے۔
فوری طور پر مہسا کو ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہو سکی۔
مہسا کے ساتھ قید میں رہنے والی خاتون نے بتایا کہ خواتین کو وہاں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے پہلے ان کے فون چیک کئے گئے، تاکہ کوئی ویڈیو یا تصویر نہ بنی ہوئی ہو۔ اہل خانہ کی طرف سے بھیجے گئے کپڑے بھی ہمیں نہیں دیئے گئے۔
انکا کہنا تھا کہ ’مرکز میں ہماری تذلیل اور توہین کی گئی، مہسا کے بعد کسی پرتشدد نہیں کیا گیا۔‘