خبریں/تبصرے

لگاتم پراسپیریٹی انڈیکس: پاکستان کا 136 واں نمبر، تنازعات میں اموات کی بڑھتی شرح

لاہور (جدوجہد رپورٹ) برطانوی تھنک ٹینک لگاتم انسٹیٹیوٹ کے سالانہ پراسپیریٹی انڈیکس (خوشحالی کا اشاریہ) کے مطابق دنیا میں جہاں گزشتہ 10 سال کے دوران کچھ بہتری آئی ہے، وہیں کم درجہ بندی والے 40 ملکوں میں دوطرفہ تنازعات کے نتیجے میں اموات 23 ہزار سے بڑھ کر 86 ہزار تک پہنچ گئی ہیں۔ اسی طرح فی کس جی ڈی پی کی نمو 2.0 فیصد سے کم ہو کر 0.1 فیصد ہو گئی ہے۔

167 ملکوں، جو دنیا کی 99.4 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، پر مشتمل اس تحقیق پر 105 سپیشلسٹ ایڈوائزرز نے کام کیا ہے۔ 167 ملکوں میں پاکستان کا 136 واں نمبر ہے۔ ڈنمارک کو خوشحال ترین ملک قرار دیا گیا ہے، جبکہ جنوبی سوڈان کو بدحال ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔

سال 2023ء کے دوران کینیا نے سب سے زیادہ بہتری لائی ہے، جبکہ میانمار میں حالات سب سے زیادہ بدتر ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ بہتری لانے والوں میں مغربی یورپ میں یونان، شمالی امریکہ میں کینیڈا، مشرقی ایشیاء میں چین اور مشرقی یورپ میں لیتھوینیا شامل ہیں، اسی طرح لاطینی امریکہ میں ڈومینیکن ریپبلک، جنوبی اور وسطی ایشیاء میں نیپال اور مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ میں الجیریا نے بہتری لائی ہے۔

انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 136 واں ہے۔ پاکستان میں نیچرل انوائرنمنٹ کی سب سے بری صورتحال ہے اور نیچرل انوائرنمنٹ کے انڈیکس میں پاکستان 167 میں سے 166 ویں رینک پر ہے۔ تعلیم میں پاکستان کا رینک 140، صحت میں 124، حالات زندگی میں 119، اکنامک کوالٹی میں 129، انفراسٹرکچر اینڈ مارکیٹ ایکسس میں 124، انٹرپرائز کنڈیشنز میں 102، انوسٹمنٹ انوائرنمنٹ میں 96، سوشل کیپیٹل میں 123، گورننس میں 118، شخصی آزادی میں 120 اور سیفٹی اور سکیورٹی میں پاکستان کا نمبر 149 واں ہے۔ یوں نیچرل انوائرنمنٹ اور سیفٹی اور سکیورٹی میں پاکستان کی صورتحال سب سے بری بتائی گئی ہے۔

انڈیکس کے مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران دنیا بھر میں یومیہ 5.50 ڈالر سے کم پر زندگی گزارنے والوں کا تناسب 57 فیصد سے کم ہو کر 47 فیصد ہو گیا ہے۔ مشرقی ایشیاء میں بالخصوص چین میں یہ تناسب 56 سے کم ہو کر 28 فیصد تک یعنی آدھا رہ گیا ہے۔ اس میں چین کے اندر فی کس آمدن میں حیران کن اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ تناسب بہتر نظر آرہا ہے۔

انڈیکس کے مطابق گزشتہ 10 سالوں کے دوران لوئر سیکنڈری سکول مکمل کرنے والے بچوں کا تناسب بھی 74 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہو گیا ہے۔ وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء میں یہ تناسب 68 فیصد سے بڑھ کر 79 فیصد ہو گیا ہے

5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 37 سے کم ہو کر 26 اموات فی 1 ہزار ہو گئی ہیں۔ سب صحارا افریقہ میں یہ 98 اموات سے کم ہو کر 71 اموات فی ایک ہزار بچوں پر آگئی ہے۔

دوسری طرف انڈیکس کے مطابق کم درجہ بندی والے 40 ملکوں میں دو طرفہ تنازعات میں ہونے والی اموات 23 ہزار سے بڑھ کر 86 ہزار تک پہنچ گئیں۔ جی ڈی پی فی کس نمو 2.0 فیصد سے کم ہو کر 0.1 فیصد ہو گئی ہے۔

انڈیکس کے مطابق عالمی معیشت میں بنیادی کمزوریاں سب سے کم خوشحال ملکوں کو متاثر کرتی ہیں۔ حالیہ اقتصادی جھٹکوں نے طویل مدتی ساختی کمزوریوں کو بڑھا دیا ہے۔ پیداواری ترقی میں کمی آئی ہے، جسے نہ صرف مغربی معیشتوں بلکہ ترقی پذیر ملکوں نے بھی محسوس کیا ہے۔ سب سے کم خوشحال ممالک باقی ملکوں کے مقابلے میں ان اقتصادی جھٹکوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت کمزور پوزیشن میں ہیں۔

تاہم انڈیکس کے مطابق اگر دنیا میں خوشحالی کے انڈیکس میں بہتری کے اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں تو وہیں گزشتہ 10 سالوں میں صرف 4 ملک ایسے ہیں جو درجہ بندی میں نچلے درجوں پر موجود 40 ملکوں میں شامل تھے۔

اس انڈیکس کے دوران 12 پلرز کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان 12 پلرز میں سے 6 میں نچلے درجے کے 40 ملکوں میں حالت مزید خراب ہوئی ہے۔
انڈیکس کے مطابق کم خوشحال ملکوں اور خوشحال ملکوں کے درمیان بنیادی انفراسٹرکچر میں بڑھتا ہوا فرق دیکھا گیا ہے۔ ایشیاء کے علاوہ سب نچلے درجوں کے ملک پیداوار صلاحیت میں باقی دنیا کے ساتھ آگے نہیں آئے۔ وسیع تجارتی سودوں میں خوشحال ملکوں کو دنیا کے تقریباً نصف تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت ہے، دوسری طرف نچلے درجوں کے 40 ملکوں کو ایک تہائی سے بھی کم تک رسائی حاصل ہے۔

کمزور جمہوریتیں اور شہری آزادیوں کا بگاڑ ایک عالمی رجحان ہے۔ زیادہ تر ملکوں میں انتخابات کے باقاعدہ انعقاد کے باوجود جمہوری طرز عمل میں کمی آرہی ہے۔ مغربی یورپ کے علاوہ ہر خطے میں انتظامی پابندیاں بڑھ رہی ہیں۔ عدلیہ اور مقننہ کے ذریعہ انتظامی اختیارات کو موثر طریقے سے محدود کرنے کی سطح میں کمی آئی ہے۔ یورپ کے بہت سے ملکو ں میں یہ رجحان موجود ہے، ان کی حکومتیں تیزی سے غیر جمہوری طرز عمل اپنا رہی ہیں۔

شہری آزادیوں میں بھی گزشتہ دہائی کے دوران کمی آئی ہے۔ 108 ملکوں میں شخصی آزادیوں کو محدود کیا گیا ہے، جس میں اجتماع اور انجمن سازی، تقریر اور معلومات تک رسائی کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیاں شامل ہیں۔ جمہوری ملکوں سمیت دنیا بھر میں سنسرشپ تیزی سے عام ہو رہی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts