خبریں/تبصرے

اعداد و شمار کا دھوکہ: ڈالر کی غیر حقیقی شرح تبادلہ پر بجٹ کی تیاریاں جاری

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کی وفاقی حکومت نے نیا بجٹ تیار کرنے کیلئے ڈالر کی شرح تبادلہ 290 روپے فی ڈالر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بظاہر اس اقدام کا مقصد آمدہ مالی سال میں کرنسی کی قدر میں نمایاں کمی کی مارکیٹ کی توقعات کو کنٹرول کرنا ہے۔ تاہم یہ اقدام انتہائی غیر یقینی معاشی ماحول کے پیش نظر بجٹ کی فزیبلٹی کے بارے میں مزید خدشات کو جنم دے رہا ہے۔

’ٹربیون‘ نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ وزارت خزانہ نے سرکاری محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مالی سال 2023-24ء کیلئے 290 روپے سے ڈالر کی شرح تبادلہ کا استعمال کرتے ہوئے بجٹ تخمینہ تیار کریں۔ یہ شرح دفاعی بجٹ، غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی، بیرون ملک پاکستان کے مشن چلانے کی لاگت اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تعین کیلئے اہم ہے۔

بجٹ سازی کے وقت ڈالر کی قیمت میں کوئی بھی اتار چڑھاؤ یا کم تخمینہ پورے بجٹ کو غیر حقیقی بنا سکتا ہے، جس کی وجہ سے لاگت بڑھ جاتی ہے اور اضافی گرانٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر وزارت خزانہ نے 300 روپے سے ڈالر کا ریٹ استعمال کرنے پر غور کیا، لیکن بعد میں مارکیٹ کی توقعات کو سنبھالنے کی کوشش میں اسے 290 روپے کرنے کا فیصلہ کیا۔

رواں مال سال کیلئے حکومت نے بجٹ کیلئے ڈالر کی شرح تبادلہ 186 روپے پر رکھی تھی۔ تاہم مالی سال کے دوران ڈالر کی اوسط شرح تبادلہ 249 روپے رہی، جو گزشتہ سال جون میں وزارت خزانہ کے ابتدائی تخمینہ سے 34 فیصد زیادہ تھی۔

منگل کو روپے کا انٹربینک ریڈ 285.31 روپے رہا، جو اوپن مارکیٹ کی قیمت سے 28 سے 30 روپے فی ڈالر کم تھا۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر گزشتہ روز 316 روپے پر ٹریڈ کر رہا تھا۔ آئی ایم ایف نے بھی حکومت کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے ریٹ کے درمیان نمایاں فرق کے باعث اپنی زرمبادلہ کی پالیسی شیئر کرے۔

دوسرے لفظوں میں آئی ایم ایف حکومت کو اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کی شرح تبادلہ کو یکساں کرنے پر زور دے رہا ہے۔ اس طرح اس وقت ڈالر کی جو شرح مبادلہ مقرر کر کے بجٹ تیار کیا جا رہا ہے، اس سے پہلے ہی ڈالر 20 روپے سے زیادہ مہنگا فروخت ہو رہا ہے۔

اتوار کو ایک انٹرویو میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی کہا کہ 285 روپے سے ڈالر کا ریٹ روپے کی حقیقی قدر کی عکاسی نہیں کرتا۔ ان کے مطابق روپے کی قدر میں کم از کم 15 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ روپے کی اصل قیمت کے بارے میں ان کا اندازہ 240 سے 249 روپے کے درمیان تھا۔

پاکستان کو اس وقت غیر ملکی کرنسی کی شدید قلت کا سامنا ہے، کیونکہ بیرون فنانسنگ، شرح مبادلہ کی پالیسی اور مالیاتی ذمہ دار بجٹ کے مطالبے پر اختلافات کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کی کوششیں بے نتیجہ رہی ہیں۔

اسحاق ڈار ایک آزاد مرکزی بینک سے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے حکومتی قرض لینے پر پابندی نے وفاقی حکومت کو کمرشل بینکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

رواں مالی سال کیلئے ڈالر کی شرح مبادلہ 186 روپے کے غلط اندازے کی وجہ سے مختلف وزارتوں کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے سپلیمنٹری گرانٹ لینا پڑی۔ وزارت اطلاعات، تجارت اور خارجہ کو پہلے ہی اضافی فنڈز مل چکے ہیں، تاکہ غلط شرح مبادلہ کی وجہ سے ہونے والی کمی کو پورا کیا جا سکے۔

وزارت اقتصادی امور نے رواں مالی سال میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے سپلیمنٹری گرانٹس کی درخواست کر رکھی ہے، کیونکہ 186 روپے کی مالیت پر مبنی 510 ارب روپے کا مختص بجٹ ناکافی ثابت ہوا ہے۔ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی اصل لاگت آنے والے مالی سال کیلئے 700 ارب روپے سے تجاوز کر سکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی تقریباً 1 ہزار ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ حکومت کا مقصد آئندہ مالی سال میں قرضوں کی ادائیگی کیلئے مجموعی طور پر تقریباً 7.5 ہزار ارب روپے مختص کرنا ہے، تاہم اگر بجٹ آئی ایم ایف کی خواہشات کے مطابق ہوتا ہے تو اسے بڑھانے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے 14 ہزار 600 ارب روپے کا بجٹ پیش کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یوں حکومت کی اپنی تیاریوں کے مطابق بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو گا، تاہم اگر آئی ایم ایف کی خواہشات پر عمل کیا گیا تو قرضوں کی مد میں بجٹ کا مزید حصہ بھی مختص کرنا پڑے گا۔

وزیر خزانہ 9 جون کو بجٹ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر یہ طے شدہ مالیاتی فریم ورک پر پورا اترتا ہے تو آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ کیا جا سکے گا۔ دوسری طرف وزارت دفاع نے 1.92 ہزار ارب روپے کے بجٹ کی درخواست کی ہے، جبکہ وزارت خزانہ نے اب تک 1.7 ہزار روپے کا عندیہ دیا ہے۔ وزارت دفاع فوری طور پر دفاعی درآمدات کیلئے زرمبادلہ کے اجرا کی بھی کوشش کر رہی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts