حارث قدیر
یورپی ساحل پرکشتی حادثہ کے بعد پاکستان اور اس کے زیر انتظام جموں کشمیرمیں ایک نئی بحث جنم لے رہی ہے۔ حکمران اشرافیہ کے نمائندوں، انتظامی عہدیداروں سمیت دانشور حلقوں میں بھی یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل تھے، جنہیں بظاہر کوئی بڑا معاشی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔
یہ سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے کہ جو لوگ 20سے25لاکھ روپے خرچ کر کے غیر قانونی طریقوں سے یورپ جا رہے تھے، وہ اس رقم سے یہاں بھی کوئی چھوٹا موٹا کاروبار استوار کر کے دو وقت کی روٹی تو مہیا کر ہی سکتے تھے۔ ایک سوال یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یورپ جانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کے رشتہ دار، کچھ کے بھائی بھی پہلے سے یورپ کے مختلف ملکوں میں موجود تھے۔ انہیں روٹی کا مسئلہ تو نہیں تھا، وہ کیوں بیرون ملک گئے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے سوال پوچھنے والے جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس طبقے کا بھی کوئی شخص اس ملک میں رہنا نہیں چاہتا۔
پاکستان سے شروع کریں تو پاکستان میں سب سے طاقتور سمجھے جانے والے فوجی جرنیل بھی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی بیرون ملک سکونت کا انتظام مکمل کر لیتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا بچتا ہو جو ریٹائر ہونے کے بعد بیرون ملک سکونت نہ اختیار کرتا ہو۔ بچے تو دوران ملازمت ہی بیرون ملک تعلیم، رہائش و کاروبار کیلئے منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔
حکمران طبقے کے تمام نمائندے یہاں صرف حکمرانی کرنے آتے ہیں۔حکمرانی سے فارغ اوقات ان کے بھی بیرون ملک ہی گزرتے ہیں۔ تقریباً سب ہی کی اولادیں بیرون ملک رہائش پذیر ہیں۔
شاید ہی کوئی بیوروکریٹ ایسا ہو، جس کی اولاد بیرون ملک تعلیم و رہائش کیلئے نہ موجود ہو۔ بیوروکریٹوں اور پولیس افسروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جو دوران ملازمت ہی دوہری شہریت کی حامل ہے۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان سمیت اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی کم ہی ملک میں قیام کرتے ہیں۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نظر دوڑائی جائے تو پڑھے لکھے بیوروکریٹ اور پولیس افسر کینیڈا کی امیگریشن اپلائی کر کے ویٹنگ لسٹ میں نمبر آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسمبلی ممبران کی سب سے پہلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح بیرون ملک جانے والے کسی حکومتی وفد کا حصہ بن جائیں تاکہ ان کا یورپ، امریکہ اور کینیڈا کا ویزہ لگ سکے۔مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے نام پر سرکاری خرچ پر یہ غیر ملکی دورے کئے ہی اسی مقصد کیلئے جاتے ہیں کہ ویزے لگ سکیں اور ساتھ اپنے سٹاف کے لوگوں کو لے جایا جائے۔ ان سٹاف کے لوگوں کو یا تو وہیں چھوڑ کر آجاتے ہیں، یا پھر وہ بعد میں انہی ویزوں پر دوبارہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔
سابق صدور اور وزراء اعظم کے اسٹاف کے لوگوں کی معلومات لی جائیں تو ایک بڑی تعداد بیرون ملک محنت مزدوری کرتے ہوئے ملے گی۔ مسلم لیگ ن کی مقامی شاخ کے صدر شاہ غلام قادر نے کچھ روز قبل ایک ’ٹویٹر سپیس‘ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ نوجوانوں کو بیرون ملک جانے کا شوق ہے۔ ان کی وجہ شہرت ہی یہی رہی ہے کہ وہ سپیکر اسمبلی بن کر غیر ملکی دوروں پر سٹاف کے کچھ لوگوں کو ساتھ لے جاتے ہیں اور انہیں بیرون ملک چھوڑ آتے ہیں۔ تاہم اگر وہ قانون سے راستے نکال کر جعل سازی کریں تو درست ہے، البتہ کوئی غریب اگر کسی ایجنٹ کو بھاری رقوم دیکر ایسا ہی حربہ اپنائے تو وہ بہت بڑا ظلم ہے۔
اس فہرست کو جتنا نیچے لاتے جائیں گے حالات جوں کے توں ہی رہیں گے۔ کوئی طالبعلم، بیروزگار یا باروزگار نوجوان، ادھیڑ عمر شخص، مرد یا عورت ایسا نہیں ہے، جو اس ملک میں رہنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی اس ملک سے باہر جانا چاہتا ہے۔ امریکہ پہلی چوائس ہے، کینیڈا دوسری، برطانیہ تیسری اور یورپ چوتھی۔ آسٹریلیا، روس،افریقہ، ملائشیا، کوریا،جاپان سمیت مشرق وسطیٰ کے تمام ملکوں میں اس خطے کے لوگ موجود ہیں۔ تاہم ہر ایک مستقبل بنیادوں پر بیرون ملک سکونت اختیار کرنے کی کوشش میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
یوں جن لوگوں نے اس ملک کو اس قابل بنانا تھا کہ یہاں لوگ اپنی زندگیوں کو محفوظ سمجھ سکیں، اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ جانیں اور اپنے خاندان کی زندگی کی تعمیر کیلئے تگ و دو کرتے ہوئے اس معاشرے میں کارآمد شہری کے طورپر اپنا کردار ادا کریں، وہ سب ذمہ دار جب خود اس ملک کو چھوڑ کر بھاگنے کی تیاریوں میں ہیں، تو پھر نوجوانوں کا کیا قصور ہے کہ وہ ایسی خواہش اور کوشش کر رہے ہیں؟
یہ ’وکٹم بلیمنگ‘ کرنے کا مقصد بھی اصل مسائل اور حقائق سے پردہ پوشی کرنا اور اس بوسیدہ نظام اور ریاست کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ انسانی زندگی کو محض روٹی کی ضرورت تک محدود کر کے پیش کرنا، قناعت کا درس دینا اور روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے والی داستانوں کی ترویج کرنا درحقیقت مسائل سے توجہ ہٹانے کے مختلف حربے ہیں۔
انسان نے جنگلوں سے شروع ہونے والے سفر کو آج کے جدید ترقی یافتہ ترین عہد تک قناعت اور صبر شکر کرنے کی روش اختیار کر کے نہیں پہنچایا ہے۔ نوع انسان کی بہتر سے بہترین کی جستجو، تسخیر کائنات کے بنیادی تضاد اور زندگی کو سہل بنانے کی خواہش نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ اس نے جنگلوں سے اٹھ کر اس کرہ ارض کے دائرے سے کروڑوں میل باہر تک اس کائنات کو مسخر کرنے کی اہلیت اور صلاحیت حاصل کی ہے۔
بنیادی کڑی معاشی مسائل ہی ہیں،جو انسانوں کو ہجرت کرنے، آبائی علاقوں کو چھوڑنے اورنئے علاقوں، شہروں اور ملکوں میں بسیرا کرنے پرمجبور اور آمادہ کرتے ہیں۔ زندگی ایک تسلسل کا نام ہے، آج روٹی مل رہی ہے یا نہیں، اس سے اتنا فرق نہیں پڑتا، کل روٹی ملے گی یا نہیں، یہ بنیادی سوال ہے۔ آج زندہ ہیں، اس پر قناعت تب کی جا سکتی ہے، جب کل بھی زندہ رہیں گے،پر یقین ہوگا۔
جو صدر ریاست 10کروڑ کی گاڑی میں سفر کرتا ہو اور بضد ہو کہ یہ گاڑی سفر کے قابل نہیں ہے، مجھے 20کروڑ والی چاہیے۔ کافی عجیب لگے گا کہ وہی صدر ریاست اگر یہ سوال کرے کہ جس نوجوان کا بھائی یورپ میں تھا، وہ غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کیلئے اپنی جان کیوں قربان کر رہا ہے۔
انسان کو زندگی تعمیر کرنے کیلئے جدید سہولیات سے آراستہ رہائش، بہتر معاشرتی ماحول، جدید انفراسٹرکچر، صحت و تعلیم کی جدید سہولیات، بہتر معیار زندگی، اچھا روزگار اور سب سے بڑھ کر محفوظ مستقبل کا یقین درکار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان جیسے معاشروں میں ان ساری سہولیات میں سے ایک بھی میسر نہیں ہے۔
انفراسٹرکچر بوسیدہ ہے، پہلے سے موجود روزگار ختم ہو رہا ہے۔ کم سے کم تنخواہ بھی نجی اداروں میں ادا نہیں کی جاتی۔مہنگائی اس قدر ہے کہ کم سے کم تنخواہ بھی اگر کسی کو مل رہی ہے تو صرف ایک انسان اس تنخواہ میں مہینہ باعزت صحت بخش خوراک حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں اپنی محنت کا استحصال کروانے کے باوجود روٹی کمانے کیلئے جعل سازی، دو نمبری، جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، ڈاکہ زنی، چوری اور لوٹ مار کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ جمہوری اور شخصی آزادیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک گھر تعمیر کرنے کیلئے نسلوں کو قربان ہونا پڑتا ہے۔ صحت اور تعلیم سے ریاست عملاً دستبردار ہو چکی ہے، جیب میں پیسے ہونے کے باوجود علاج کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔کسی سرکاری محکمے، کسی ادارے سے کسی قسم کی کوئی سروس حاصل کرنے کیلئے رشوت اور سفارش کے باوجود انسانی تذلیل ایک معمول ہے۔ بڑھاپے گزارنے کا کوئی آسرا نہیں ہے۔ سب سے بڑھ زندگی کا عدم تحفظ ہے، زندہ رہنے کی ہی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ کسی بھی وقت کوئی اندھی گولی آپ کو شکار کر سکتی ہے۔گولی سے بچ گئے تو منہ سے نکلی کوئی سچ بات اغواء اور لاپتہ کئے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ آخری تجزیہ میں اس ملک میں زندہ رہنے کیلئے یہی نہیں معلوم کہ ڈاکوؤں، قاتلوں، دہشت گردوں اور لٹیروں سے پناہ مانگنی یا ریاست کے اپنے اداروں سے، کیونکہ مارنے والے سب ہیں،بچانے والا کوئی بھی نہیں۔
مندرجہ بالا وہ تمام مسائل ہیں، جن کی وجہ سے کوئی بھی اس ملک میں رہنا نہیں چاہتا۔ کوئی سیاسی قیادت ایسی نہیں ہے، جو ان مسائل پر عوام کی ترجمانی کر سکے، کوئی سنجیدہ متبادل فراہم کر سکے، جس کی بنیاد پر کوئی آس، کوئی امید ہی قائم ہو اوریہیں زندہ رہنے کی جدوجہد کو وطیرہ بنانے پر انسان راغب ہو سکیں۔ حکمران طبقے کی تمام جماعتیں سامراجی مالیاتی اداروں اور حکمرانوں کے کمیشن ایجنٹ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ پسماندہ اور تاخیر زدہ نظام اپنے تاریخی فرائض یہاں پورے کرنے کے قابل نہ ہونے کے باعث گل سڑ کر مزید بوسیدہ اور تعفن زدہ ہو چکا ہے۔
اس معاشی پستی کی وجہ سے سماجی گھٹن مزید بڑھ رہی ہے۔ طرح طرح کے جرائم اور سماجی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ مجموعی طو رپر یہ معاشرہ انسانی زندگیوں کیلئے ایک جنم زار کی کیفیت اختیار کر چکا ہے۔ ہر انسان اس جنم زار سے فرار اختیار کرنا چاہتا ہے۔
تاہم دنیا کا کوئی ایسا ملک، کوئی خطہ، کوئی براعظم ایسا نہیں ہے، جو اس پورے ملک کو پناہ دے سکے،یا 25کروڑ انسانوں کی زندگیوں کو تحفظ دے سکے۔ فرار کی وجوہات ان گنت ہیں اور اس کا ذمہ دار یہ نظام اور اس کے حاکم ہیں۔ فرار مگر سب کیلئے ممکن نہیں ہے، فرار کی کوشش درحقیقت انفرادی نجات کی کوشش ہے۔انسان ایک سماجی جانور ہے، جس کی بقاء انفرادیت میں نہیں ہے، نہ ہی انفرادی طور پر اس لڑائی کو لڑا اور جیتا جا سکتا ہے۔ اس کوشش میں شاید چند ایک بچنے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن سماجی حالات ترقی یافتہ ملکوں میں بھی محض پاکستانی معاشرے سے بہتر ہیں، سرمائے کا جبر دنیا کے ہر کونے میں پوری آب و تاب سے ہے۔ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز مشرق سے زیادہ مغرب میں تیزی سے جاری ہے۔ انسانوں کو اس انفرادیت میں دھکیلنے کا ذمہ دار بھی یہ نظام ہے، مقابلہ بازی، لالچ، حرص اور انسان کے انسان سے تضاد کو تحریک دینا اس طبقاتی نظام کا بنیادی اصول ہے۔ اسی اصول کی بنیاد پر دنیا کی ایک فیصد آبادی دنیا کی 64فیصد دولت پر قابض ہے، محض 7افراد دنیا میں موجود50فیصد دولت پر قابض ہیں۔ انفرادیت پر مبنی منافعوں اور سرمائے کی لوٹ کی اس ہوس میں ان حکمرانوں نے کرہ ارض پر زندگی کو ہی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
آج نسل انسان کی بقاء اور تحفظ کا دارومدار منافعوں کی ہوس میں کرہ ارض کو برباد کرنے والے ہاتھوں کو روکنے اور اس نظام کو تبدیل کرتے ہوئے پیداوار کے مقاصد کو تبدیل کرنے پر ہے۔ محنت کش طبقے، نوجوانوں اور عام عوام کے پاس انفرادی بقاء اور فرار کی کوششوں کی بجائے اجتماعی بقاء کے اصول پر گامزن ہونے کے علاوہ بقاء کا کوئی راستہ، کوئی وسیلہ موجود نہیں ہے۔