خبریں/تبصرے

ملک میں جامع انتخابی اصلاحات کی جائیں: ایچ آر سی پی

لاہور (پ ر) ہفتہ کے روز ایک سیمینار میں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ایک مباحثی دستاویز کے مشاہدات پیش کیے، جس میں و سیع انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ”انتخابات کو قابل اعتبار بنانا: انتخابی اصلاحات کی ضرورت“ کے عنوان سے جاری کی گئی دستاویز کا استدلال ہے کہ اگر ریاست انتخابی عمل پر شہریوں کے تیزی سے کم ہوتے اعتماد کو بحال کرنا چاہتی ہے تو اس طرح کی اصلاحات بہت ضروری ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے انتخابات تاریخی طور پر متنازعہ رہے ہیں، غیر جمہوری قوتوں کے کردار کی وجہ سے یہ تنازعات مزید بڑھ گئے ہیں۔ اب انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے اور عمل کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔

چیئر پرسن حنا جیلانی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق انتخابی ماہر اور اس مباحثی دستاویز کے مصنف طاہر مہدی نے اپنے مشاہدات سات اہم شعبوں میں پیش کیے ہیں جن میں ساکھ، حلقے، ووٹر، امیدوار، پولنگ، مخصوص نشستیں اور مالیات شامل ہیں۔ دیگر جمہوریتوں کے تجربات پر روشنی ڈالتے ہوئے، دستاویز میں اس قانونی فریم ورک پر نظرثانی کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو الیکشنز ایکٹ 2017ء سمیت انتخابات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ دستاویز میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے بطور عدلیہ کردار ادا کرنے اور ای سی پی کی آزادی پر اس کے منفی اثرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

یہ استفسار کرتے ہوئے کہ کیا ووٹرز کو یہ انتخاب کرنے کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کس حلقے میں اندراج کرائیں یا اپنا ووٹ ڈالیں، مقالے میں بتایا گیا ہے کہ اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے افراد مؤثر حق رائے دہی سے محروم رہتے ہیں کیونکہ ان کیلئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے قومی شناختی کارڈزپر درج پتے کو اس حلقے کی انتخابی فہرستوں کے مطابق تبدیل کروا سکیں جہاں وہ رہتے ہیں۔ مقالے میں سختی سے استدلال کیا گیا ہے کہ ووٹ کے حق کو قومی شناختی کارڈسے جوڑنے کے باعث ایک بنیادی شہری حق شہری کی ذمہ داری میں تبدیل ہو گیا ہے، یوں ایک کروڑ خواتین سمیت ایک بڑی آبادی کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا گیا ہے۔

اس دستاویز میں خواتین امیدواروں کے لیے مختص 5 فیصد نشستوں کو ظاہری اور مضحکہ خیز قرار دیا گیا ہے اور یہ تجویز کیا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کم از کم 23 فیصد خواتین امیدواروں کو نامزد کرنا چاہیے، اور اس میں وقتاً فوقتاً اضافہ کرنا چاہئے تاکہ برابری کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔

دستاویز میں اٹھایا گیا ایک اہم مسئلہ احمدیہ کمیونٹی کی غیر مساوی صورت حال ہے، جن کا انتخابی فہرستوں میں الگ سیاندراج کیا جاتا ہے، انہیں پولنگ اسٹیشنوں پر اپنی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے (اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے) اور اپنے ووٹ کے حق کومؤثر طور پر استعمال کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اس دستاویزمیں احمدی ووٹرو ں کے لیے علیحدہ ضمنی فہرست کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس میں مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے تصور پر اس بنیاد پر تنقید کی گئی ہے کہ یہ نشستیں ایسے گروہوں کو موثر نمائندگی نہیں دیتیں۔

اس دستاویز میں ان سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مزید اصلاحات کی تجویز دی گئی ہے جو ووٹر کے مینڈیٹ کوکمزور کرتی ہیں، جیسے کہ متعدد نشستوں پر انتخاب لڑنا ور آزاد امیدواروں کا نشستیں حاصل کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں میں شامل ہو جانا۔ مردم شماری اور انتخابی فہرستوں سے لے کر پولنگ دستاویزات اور منتخب نمائندوں کے اثاثوں کے اعلانات تک، ڈیٹا اکٹھا کرنے کے عمل کی تصدیق کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیاپر غلط معلومات کے پھیلاؤکی روک تھام اور تکنیکی حل جیسے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور نتائج کی ترسیل کے نظام کا بھی جائزہ لیا جاناچاہیے۔

یہ رپورٹ اگلے ہفتے کے اوائل میں جاری کی جائے گی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts