تاریخ

50 سال پہلے: چلی کی کمیونسٹ حکومت کا 9/11، جو امریکہ نے کروایا

حارث قدیر

حالیہ تاریخ میں 11 ستمبر 2001ء میں امریکہ پر ہونے والے حملوں کی تاریخ کی وجہ سے ’نائن الیون‘ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ امریکہ سمیت دیگر سامراجی ملکوں اور اداروں کی جانب سے ان حملوں کو یاد کرنے اور اپنی ہی پیدا کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تاہم ایک نائن الیون اور بھی ہے، جس کو رونما ہوئے آج 50 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یہ نائن الیون امریکی سامراج کی پشت پناہی میں برپا کیا گیا تھا۔

11 ستمبر 1973ء کو لاطینی امریکی ملک ’چلی‘ میں کمیونسٹ رہنما سلواڈور ایلندے کی منتخب سوشلسٹ حکومت کا تختہ فوجی بغاوت کے ذریعے الٹ دیا گیا تھا۔ چلی میں جمہوری دور کے آغاز کے بعد یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور جنرل آگسٹو پنوشے نے امریکی حمایت سے نیولبرل پالیسیوں کے نفاذ کا آغاز کیا تھا۔ یہ نائن الیون صرف اسی وجہ سے مشہور نہیں ہے کہ اقتدار پر فوجی قبضہ کروایا گیا، بلکہ اس فوجی قبضے اور امریکی مداخلت کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہزاروں انقلابیوں کا قتل عام کیا گیا اور ظلم و جبر کی ایک بھیانک تاریخ مرتب کی گئی۔ یوں یہ نائن الیون 2001ء کے نائن الیون سے زیادہ دہشت ناک، خوانخوار اور بربریت پر مبنی تھا۔

2000ء میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے عام کئے گئے ڈاکومنٹس میں پہلی بار یہ اعتراف کیا کہ 1970ء میں چلی کی فوج کے ایک اعلیٰ جنرل کو سی آئی اے نے محض اس وجہ سے اغوا کروایا تھا، کہ اس نے منتخب صدر سلواڈور ایلندے کو حلف سے روکنے کیلئے فوج استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ ان خفیہ دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدر نکسن، ہنری کسنجر اور امریکی حکومت نے ایلندے کو ایک خطرناک کمیونسٹ قرار دیا تھا۔ وہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور فوجی بغاوت سے بھی آگاہ تھے۔

اقتدار پر فوجی قبضے کے بعد تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں اور بائیں بازوں کی تحریکوں اور تنظیموں، خاص طور پر سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کو بزور طاقت دبا دیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف چلی، سوشلسٹ پارٹی آف چلی سمیت ریوولوشنری لیفٹ موومنٹ (ایم آئی آر) پر پابندی عائد کر دی گئی۔ امریکی انتظامیہ نے فوری طور پر جنرل آگسٹو پنوشے کی قیادت میں قائم ہونے والی اس فوجی حکومت کو تسلیم کیا۔ بغاوت کو سرانجام دینے کیلئے گراؤنڈ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کی گئی۔ اس عمل میں امریکہ کے ساتھ برطانیہ اور آسٹریلیا کی حکومتوں نے بھی حصہ لیا۔

درحقیقت چلی لاطینی امریکہ کا پانچواں ایسا ملک تھا، جس کی حکومت امریکی حمایت یافتہ فوجی بغاوتوں میں الٹ دی گئی تھیں۔ اس سے قبل برازیل، ارجنٹائن، پیرو اور بولیویا کی حکومتیں گرائی گئی تھیں۔ اقتدارپر قبضہ کرنے والی فوجی قیادتوں کو امریکہ سمیت سامراجی مالیاتی اداروں کی جانب سے مالی اور سیاسی حمایت فراہم کی گئی تھی۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کیوبا کے انقلاب کے اثرات لاطینی امریکہ میں پھیلنے کا خدشہ لاحق تھا۔ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں بائیں بازوکی تحریکوں نے امریکہ اور اتحادیوں کو خوفزدہ کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چلی سمیت دیگر لاطینی امریکی ملکوں میں فوجی آمریتوں کے ذریعے تحریکوں کو کچلنے کا راستہ اپنایا گیا۔

چلی کو لاطینی امریکہ میں جمہوریت اور سیاسی استحکام کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ فوجی بغاوت سے پہلے چلی میں 1925ء سے 1973ء تک صدارتی جمہوری دور حکومت رہا۔ اس دوران چلی ایک متوسط ملک کے طور پر جانا جاتا تھا،جس کی تقریباً 30 فیصد سے زائد آبادی متوسط طبقے پر مشتمل تھی۔

چلی میں بائیں بازو کی تحریک ٹراٹسکی کے نظریات سے قریب تر تھی اور انتخابات کے ذریعے سے اقتدار میں آنے والی بائیں بازو کی حکومتوں میں سے ایک تھی۔

سلواڈور ایلندے نے تانبے کی کانوں کو قومیانے سمیت دیگر ایسے اقدامات کئے، جن کی وجہ سے امریکہ سرمایہ کاری پر براۂ راست ضرب لگائی تھی۔ سیاسی طور پر عدم استحکام پیدا کرنے سمیت امریکی حکومت اور سامراجی اداروں نے فوج کو مسلسل اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے اکسانے میں کردار ادا کیا۔ جون 1973ء میں ہونے والی فوجی بغاوت کو عوامی طاقت کے ذریعے سے ناکام بنادیا گیا۔ تاہم ایلندے حکومت نے فوجی افسران کو اقتدار میں حصہ دینے سمیت متعدد ایسے اقدامات کئے، جنہوں نے مستقبل میں دوسری اور کامیابی فوجی بغاوت کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پہلی فوجی بغاوت کے بعد 7 لاکھ سے زائد لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر ایلندے حکومت کی حمایت کی۔ تاہم اس حمایت کو استعمال کرتے ہوئے فوج کو پیچھے دھکیلنے اور کمزور کرنے کی بجائے مزید طاقت فراہم کرنے جیسے اقدامات مہلک ثابت ہوئے۔ یہاں تک کے وزارتوں پر بھی جرنیلوں کی تقرریاں کی گئیں۔ بائیں بازو کی مسلح تحریک ایم آئی آر کو طاقت فراہم کرنے سے غیر معمولی ہچکچاہٹ نے بھی ریگولر فوج کو دوبارہ بغاوت کرنے کا حوصلہ فراہم کیا۔

بالآخر 11 ستمبر 1973ء کو جنرل آگسٹو پنوشے کی قیادت میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ پر اسرار طور پر منتخب صدر سلواڈور ایلندے کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کو خود کشی قرار دے دیا گیا۔ تاہم بعد ازاں منظر عام پر آنے والی دستاویزات نے یہ واضح کیا کہ سلواڈور ایلندے کو قتل کیا گیا تھا۔

پنوشے نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد امریکی حکومت اورسامراجی مالیاتی اداروں کی ایما پر نیو لبرل پالیسیوں کو نافذ کیا، بڑے پیمانے پر نجکاری کو رائج کیا گیا۔ سیاسی عمل پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ بالکل ایسے ہی 1977ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد امریکی حمایت سے جنرل ضیا الحق نے بھی پاکستان میں بھٹو دور میں ہونے والی نیشنلائزیشن کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

نیو لبرل پالیسیوں کا یہ تسلسل پورے لاطینی امریکہ پر بھی اسی طرح سے سامراجی طور پر مسلط کیا گیا۔ یوں لاطینی امریکہ نے اپنی معیشتوں کی نجکاری ہوتے دیکھی اور کچھ ہی عرصہ میں یہ خطہ خام مال کا برآمد کرنے تک ہی محدود ہو گیا۔ دہائیوں کی محنت سے شروع ہونے والی مینوفیکچرنگ کا عمل ختم ہو کر رہ گیا۔

بغاوت کے فوری بعد پنوشے کی قیادت میں فوج نے چلی کے ہزاروں بائیں بازو کے کارکنوں کو ہلاک اور لاپتہ کر دیا۔ چلی کے نیشنل سٹیڈیم میں 40 ہزار سیاسی رہنماؤں کو قید کیا گیا۔ اکتوبر 1973ء میں چلی کے معروف انقلابی نغمہ نگار وکٹر جارا کو 70 دیگر افراد کے ہمراہ ڈیتھ سکواڈ کے ذریعے قتل کر دیا گیا۔

حکومت نے محض تین سال کی مدت میں تقریباً 1 لاکھ 30 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا، جبکہ ابتدائی مہینوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاپتہ ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد کے سالوں میں پنوشے نے تین مہینوں کے دوران 162 افراد کو ہلاک کیا، دسیوں ہزار کو گرفتار کیا اور 40 ہزار سے زائد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کے علاوہ مسلح مزاحمت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس مزاحمت کے دوران بھی متعدد فوجی اور عسکریت پسند کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔

لاطینی امریکی ملکوں میں نیو لبرل پالیسیوں کی تباہیوں کے خلاف پہلا عوامی اظہار 1980ء کی دہائی میں قرضوں کے بحران کے بعد ہوا۔ وینزویلا، میکسیکو، ایکواڈور، بولیویا اور دیگر ملکوں میں بائیں بازو کی قیادتیں دوبارہ ابھرنا شروع ہوئیں۔ ہیوگو شاویز، رافیل کورایا، ایوا مورالس اور دیگر رہنماؤں نے انتخابات میں بھی کامیابیاں حاصل کیں۔

حالیہ عرصہ میں بھی میکسیکو، ارجنٹائن، چلی، کولمبیا اور برازیل میں بائیں بازو کی حکومتوں کی ایک نئی لہر نظر آرہی ہے۔ تاہم یہ حکومتیں ماضی کی نسبت زیادہ اصلاح پسند پروگرام کے تحت سرمایہ دارانہ معاشی ماڈل کے اندر رہ کر اقدامات کرنے کی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ تبدیلیاں بنیادی طور پر اس بات کا اظہار ہیں کہ لاطینی امریکہ میں سرمایہ داری مخالف نظریات سماجی پذیرائی حاصل کر رہے ہیں۔ بائیں بازو کے نظریات کو قبولیت اور مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ تاہم موجودہ حکومتوں کی پالیسیوں کے ذریعے سے کوئی حقیقی تبدیلی لائے جانے کا امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

تاہم بائیں بازو کو ملنے والی انتخابی حمایت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اس خطے میں سرمایہ دارانہ نظام اور نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف رد عمل اور نفرت موجود ہے۔

ماضی کی نسبت موجودہ عہد میں لاطینی امریکہ کے ملکوں کے اندر رابطہ کاری کے تیز ترین ذرائع کی موجودگی میں کسی ایک خطے میں برپا ہونے والی انقلابی تبدیلی پورے لاطینی امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

لاطینی امریکہ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی سامراجی یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے محنت کشوں کے دفاعی اوزار کا کام کر سکتی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔