پاکستان

پختونخوا: یونیورسٹیاں بیچنے کی تیاری میں رکاوٹ بننے والے اساتذہ انتقام کا نشانہ

حارث قدیر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پختونخوا حکومت نے پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں بیچنے کی تیاریاں تیز تر کر دی ہیں۔ یونیورسٹیوں کو اخراجات پورے کرنے کے لیے فیسوں میں بھاری اضافہ کرنے پر مجبور کرنے سمیت تمام فیصلوں کے اختیارات محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے ذریعے حکومت کو منتقل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ترقی پسند اساتذہ کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔

اس مقصد کے تحت ابتدائی طور پر پشاور یونیورسٹی میں تمام شعبوں کے سربراہان کو عہدوں سے ہٹا کر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئے سربراہان کی تقرریاں کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر 17شعبوں کے سربراہان کو تبدیل کیا گیا ہے۔ عہدوں سے ہٹائے گئے سربراہان میں ایک بڑی تعداد ترقی پسند اساتذہ کی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی میں شعبوں کے سربراہان کی مدت مکمل ہو گئی تھی، جس کے بعد ان کی مدت میں مزید تین سال کی توسیع یا ان کی جگہ نئی تعیناتیاں کی جانی تھیں۔ شعبہ صحافت، بین الاقوامی تعلقات، کیمسٹری اور لاء کالج سمیت کئی شعبوں کے سربراہان کی تبدیلی تو کردی گئی، تاہم قائمقام وائس چانسلر نے تمام قواعد کو نظر انداز کر دیا۔

شعبہ صحافت میں انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سٹڈیز سے ایک روز قبل ٹرانسفر ہونے والی ڈاکٹر مہناز مجید مروت کو اگلے ہی روز چیئرپرسن بنا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مہنازمجید مروت کو حال ہی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ترقی ملی تھی۔ شعبہ کے سربراہ کے طور پر تقرری کے لیے ایسوسی ایٹ پروفیسر یا پروفیسر ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹر فیض اللہ جان شعبہ صحافت میں سینئر موسٹ اور پروفیسر تھے۔ انہیں ترقی پسند اساتذہ کے اتحاد کا حصہ ہونے کی سزا دی گئی اور دوسرے شعبے سے حال ہی میں ترقیاب ہونے والی ڈاکٹر مہناز کو خلاف قواعد چیئرپرسن تعینات کر دیا گیا۔ لاء کالج اور شعبہ کیمسٹری سمیت دیگر شعبوں میں بھی یہی طرز عمل اپنایا گیا ہے۔

یہ اقدام پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بنائی گئی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ترقی پسند اساتذہ تحریک انصاف کی جامعات کو لے کر اپنائی جانے والی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ اس لیے انہیں راستے سے ہی مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سارے منصوبے کو وزیر ہایئر ایجوکیشن کی ایماء پر عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔

پختونخوا میں کل 34پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں ہیں، جن میں سے 24میں مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں کیے گئے ہیں۔ قائمقام وائس چانسلرز پر دباؤ ڈال کر صوبائی حکومت اپنی من پسند پالیسیاں نافذ کروانے میں مصروف عمل ہے۔

حکومت کی کوشش ہے کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی داخلی خودمختاری کو کم سے کم کر کے وزارت کے تابع لایا جائے، اور حکومتی فنڈنگ کا سلسلہ ختم کر کے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں کے اخراجات فیسوں میں سے پورے کرنے کی کوشش کی جائے۔اس طرح بتدریج یونیورسٹیوں کو ناکام اور دیوالیہ ظاہر کر کے فروخت کرنے کی راہ ہموار کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

یونیورسٹی فیسوں میں پہلے ہی تقریباً100فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے اور مزید اضافہ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اساتذہ کی نئی بھرتیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پہلے سے موجود سٹاف کے الاؤنسز کم کر دیے گئے ہیں اور ترقیاں بھی روک دی گئی ہیں۔ نئی ترقیاں یونیورسٹی کی اپنی آمدن سے مشروط کر دی گئی ہیں۔ یعنی ہر وہ اقدام کیا جا رہا ہے، جس پر آگے چلتے ہوئے یونیورسٹیاں ناکام ہوں اور انہیں اونے پونے داموں فروخت کرنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔

حکومت کے اس منصوبے کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سب سے اہم اقدام صوبائی اسمبلی سے ’یونیورسٹی ایکٹ‘ کی منظوری ہے۔ یہ ایکٹ آئندہ چند روز میں نافذ ہو جائے گا۔ اس ایکٹ کے ذریعے پختونخوا کی جامعات میں سنڈیکیٹ کو حکومتی کنٹرول میں لے لیا جائے گا اور اساتذہ کے منتخب نمائندوں کو باہر کر دیا جائے گا۔ یوں یونیورسٹیوں کے فیصلوں میں اساتذہ کی رائے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔

سنڈیکیٹ میں اس سے قبل تمام ڈینز، پرفیسرز،ایسوسی ایٹ پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسرز اور لیکچررز کے ایک ایک منتخب نمائندے سمیت رجسٹرار، خزانچی اور دیگر لوگ موجود ہوتے تھے۔ تاہم یونیورسٹی ایکٹ کے بعد 5ڈین اور 3اساتذہ کے منتخب ممبران کو نکال دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ رجسٹرار اور خزانچی کی تعیناتی بھی اب یونیورسٹی نہیں کر سکے گی، بلکہ یہ تعیناتیاں بھی یونیورسٹی کے باہر سے حکومت کرے گی۔ یوں مجموعی طور پر سنڈیکیٹ میں فیصلہ سازی کے اختیارات بھی صوبائی حکومت کو حاصل ہو جائیں گے۔

یونیورسٹیوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے دعوؤں کے تحت اپنائی جانے والی ان نیو لبرل پالیسیوں کی وجہ سے بتدریج جامعات زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اب یونیورسٹی ایکٹ کے نفاذ کے بعد پبلک سیکٹر جامعات میں بھی تعلیم پرائیویٹ سیکٹر کی جامعات کی طرز پر مہنگی ہو جائے گی۔ ساتھ ہی حکومت کے رحم و کرم پر رکھ کر ان یونیورسٹیوں کی کارکردگی کو مزید خراب کر کے نجکاری کی راہ بھی ہموار کی جائے گی۔

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت غریب عوام سے اعلیٰ تعلیم کے لیے نئے امکانات پیدا کرنے کی بجائے پہلے سے موجود ذرائع بھی چھیننے کی راہ پر گامزن ہے۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی فنڈنگ روک کر پہلے ہی بحران در بحران پیدا کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرریاں نہ کر کے انہیں ناکامی اور تباہی کے دہانے پر پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس عمل میں رکاوٹ بننے والے اور ان پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے ترقی پسند اساتذہ کو بھی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کرپشن اور اقرباء پروری کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ من پسند افراد کی تقرریوں،رجعتی اور دائیں بازو کے رجحانات کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے سمیت بنیاد پرست عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کے تحت بنائی جانے والی پالیسیوں کے ذریعے جدید تعلیم کے ذرائع چھیننے کی ہی منصوبہ بندی بنا لی گئی ہے۔

یونیورسٹیوں کے فنڈز بحال کرنے سمیت جعل سازی کے ذریعے شعبہ جات میں کی جانے والی تقرریوں کے فیصلوں کو فوری طور پر واپس لینے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی ایکٹ کو منسوخ کیا جائے اور یونیورسٹی سنڈیکیٹ کو مزیدمضبوط کرنے کے لیے طلبہ یونین کے انتخابات بھی کروائے جائیں تاکہ اساتذہ اور طلبہ کی شراکت سے اعلیٰ تعلیم کی پالیسیاں بنانے کے حوالے سے فیصلہ سازی کی جا سکے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔