طارق علی
(طارق علی کی کتاب’بنیاد پرستیوں کا تصادم‘2023میں شائع ہوئی۔ اس کا ترجمہ درجن بھر زبانوں میں ہوا۔ مسلم دنیا اور سامراج بارے اس کتاب کا اردو ترجمہ فاروق سلہریا نے کیا۔ اس کتاب کا فلسطین بارے ایک باب غزہ میں جاری تازہ اسرائیلی حملے کے پس منظر میں قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔)
1948ء کی نکبۃ کے ہاتھوں فلسطینی قیادت سے محروم ہوگئے اور بکھر کر رہ گئے۔ ان کی زندگیاں صحیح معنوں میں عرب ریاستوں کی کڑی نگرانی میں آگئیں۔ فلسطین محاذ آزادی (پی ایل او) کے قیام پر اتفاق رائے کے لئے عرب لیگ نے پندرہ سال لگا دیئے لیکن پی ایل او کا مطلب یہ تھا کہ فلسطینی دستے بنائے جائیں جو شام، عراق، اردن اور مصر کی فوجوں اندر مد غم ہو جائیں۔ عرب دارالحکومتوں اندر 1956ء کے واقعات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی پولرائزیشن سے متاثر ہوکر ریڈیکل نظریات رکھنے والی نئی فلسطینی نسل اندر ایک نیا شعور جنم لے رہا تھا۔ یہ ایسے نوجوان مرد و خواتین تھے جو 1948 میں ابھی اپنے پیروں چلنا سیکھ رہے تھے او ر اس دور کی نسلی صفائی کا براہ راست تجربہ انہیں بھول چکا تھا۔ یہ وہ نسل تھی جو بربادیوں کی داستان سنتے ہوئے پلی بڑھی تھی اور انکی یاداشت مشترکہ تھی جو شکست کے براہ راست تجربے کی نسبت زیادہ کار گر ہوتی ہے۔
باقی عرب دنیا کی طرح فلسطینی بھی قوم پرستوں اور مارکیسوں میں منقسم تھے البتہ باقی عرب دنیا کے برعکس مذہبی دھارے بہت کمزور تھے۔ یہ وہ دور ہے جب الفتح نے جنم لیا اور اس کے بائیں جانب کھڑا تھا پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین (پی ایف ایل پی) بعد ازاں پاپولر ڈیموکریٹک فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین (پی ڈی ایف ایل پی)۔ اختلافات حکمت عملی کے حوالے سے تھے: الفتح اسرائیل کے خلاف فلسطینی گوریلوں کے براہ راست حملوں کے حق میں تھا، اس کے حریف یہ دلیل دیتے تھے کہ فلسطین کا حصول جب تک ممکن نہیں جب تک عرب ممالک میں سوشلسٹ انقلاب نہیں آتے۔
1965 ء میں الفتح گوریلوں نے شامی بعث کی پشت پناہی کے ساتھ اسرائیل اندر کاروائیاں شروع کر دیں۔ صیہونی رہنماؤں نے جارحانہ ردعمل کا فیصلہ کیا۔ امریکہ اور مغربی جرمنی سے ملنے والی معاشی و فوجی امداد (بشمول کیمیائی ہتھیاروں کے) نے اسرائیل کو اس قابل بنا دیا کہ اس کے پاس خطے کی طاقتور ترین فضائیہ تھی۔آبادی میں جو اضافہ ہوا تو فوج کا حجم بھی بڑھ گیاتھا۔ اعلیٰ سطحی اسرائیلی قیادت کو یقین تھا کہ وہ اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈالے بغیر باقی فلسطین پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں۔ شام، مصر اور اردن نے ایک فوجی معاہدہ کیا جس میں طے پایا کہ وہ ایک دوسرے کے علاقے کا دفاع کریں گے۔
5جون 1967ء کو اسرائیل نے مصر پر حملہ کر دیا اور اس کی فضائیہ تباہ کرکے رکھ دی۔ چھ دن کے اندر اندر اسرائیلی زرہ بکتر اردن سے یروشلم اور مغربی کنارہ چھین چکے تھے، جنوبی شام میں گولان کی پہاڑیوں پر قابض ہو چکے تھے جب کہ مصر اندر وہ نہر سویز تک سینائی پر قبضہ کر چکے تھے۔ یہ ایک بھرپور شکست تھی، نکبتہ ثانی، اور اس کے بہت ہی دور رس اثرات مرتب ہوئے۔
سقوط یروشلم ہو چکاتھا۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے بعض مقدس ترین مقامات اب یہودیوں کے قبضے میں تھے۔ اسرائیل کی فوجی صلاحیتوں کا پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پر زبردست اثر ہوا۔ صیہونی ذات اس خطے میں ان کی سوچوں سے بڑھ کر مستحکم اور مضبوط چوکی ثابت ہوئی۔ اسرائیل— امریکہ تعلقات میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی۔ اسرائیل خطے میں امریکہ کا قابل اعتماد ترین اتحادی بن گیا اور اس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امریکہ کی یہودی آبادی بڑے پیمانے پر اسرائیل کی حامی بن گئی۔
اور فلسطینی؟ اسرائیل کے قبضے کا مطلب تھا کہ آخری فلسطینی برج…… یروشلم، غزہ اور مغربی کنارہ…… بھی اب تل ابیب کے براہ راست قبضے میں تھے۔ برق رفتار فتح حاصل کرنے کے بعد اسرائیلی حکومت کے لئے ممکن تھا کہ وہ آزاد فلسطین پر مبنی حل پیش کرتی مگر وہ تو فتح کے نشے میں دھت تھے۔ دھچکے کے مارے عرب ممالک کا ردعمل یہ تھا کہ انہوں نے قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد شام اور اردن میں راتوں رات بنائے گئے مہاجر کیمپوں میں منتقل ہوگئی۔
1967ء کی جنگ سے ناصر ازم کا مشرق وسطیٰ میں بطور مقبول عام سامراج مخالف قوت خاتمہ ہوگیا۔ مصر کا رد عمل کیا ہونا چاہئے تھا؟ 9جون 1967 ء جب پوری عرب دنیا کو یہ اندازہ ہوا کہ کس بڑے پیمانے کی تباہی ہوئی ہے تو اخوان المسلمین سے متاثر گروہوں نے سویت سفارت خانے کا رُخ کیا۔ وہ تباہی کی ذمہ داری ماسکوپر ڈال رہے تھے۔ سویت سفارت خانے کو نذر آتش کرکے اسے بحالی کا آغاز سمجھا گیا۔ پرانی حکمران اشرافیہ کے ارکان نے کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔وہ اعلیٰ فوجی افسروں سے مل کر سازشیں تیار کرنے لگے۔ دو سال قبل انڈونیشا کی فوج نے بائیں بازو کو شکست دینے کے لئے پورا ماحول تیار کیا تھا۔ غیر کمیونسٹ دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی کو صفحہئ ہستی سے مٹا دیاگیا تھا۔دس لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ اس واقعے پر اسلام پر ستوں اور پوری تیسری دنیا اندر امریکہ کی مقامی ایجنسیوں نے بغلیں بجائی تھیں۔ قاہرہ اندر اخوان المسلمین بدلے کاخواب دیکھ رہی تھی۔ اب وقت آگیا تھا کہ فرعون کاتختہ الٹ کر اس کے حامیوں کوتہ تیغ کر دیا جائے۔ وہ گروہ جو زیادہ روایتی دایاں بازو تھے وہ تو’سوشلزم کے پندرہ سال‘ واپس پلٹ دینا چاہتے تھے۔ انہیں معلوم تھا مغرب سرمائے سے ان کی پشت پناہی کرے گا تاکہ تیل کو پھر سے ’محفوظ‘ بنایا جاسکے، مصر کو واپس لوٹایا جا سکے او رپھر شام اور عراق کو سزا دی جا سکے تا آنکہ وہ راہِ راست پر آ جائیں۔
اس یو م سیاہ کے موقع پر ناصر نے روتے ہوئے ٹیلی ویژن پر مصری عوام سے الوداعی خطاب کیا جسے پوری عرب دنیا میں نشر کیا گیا۔ ناصر ٹوٹ پھوٹ چکا تھا مگر ناصر نے کسی اور کو قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے شکست کی مکمل ذمہ داری قبول کی۔ ناصر کے دشمنوں نے خوشی کے شادیانے بجائے اور تبدیلی کی تیاری شروع کر دی، ان کے خیال میں یہ ممکن نہیں تھا کہ شکست خور دہ لو گ اٹھ کھڑے ہوں گے۔
جو اس کے بعد ہوا اس کی مثال نہیں ملتی، اور یہ محض عرب دنیا کی بات نہیں ہو رہی۔ مصر کے تاریخ دان انور عبد المالک کی شاعرانہ عبارت اندر وہ جولانی موجود ہے جو ناصر کے استعفیٰ پر عرب دنیا کی گلیوں میں ہونے والے رد عمل کا احاطہ کر سکتی ہے:
چند لمحوں کے توقف بعد پورا ملک حرکت میں آگیا: پچیس لاکھ سے زائد لوگ قاہرہ کی سڑکوں پر امڈ آئے۔ ڈیلٹا کے مرکز تنتاہ کی ساری آبادی دارالحکومت کی طرف چل پڑی، پورٹ سید میں بھی یہی ہوا لیکن وہاں سراسیمگی کے عالم میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ شہر خالی نہ کریں، ہر شہر سے، ہرگاؤں سے، اسکندریہ سے اسفان تک، مغربی صحرا سے لیکر سویز تک، پوری کی پوری قوم مارچ کر رہی تھی۔ ان کے نعرے بالکل واضح تھے:
’سامراج نہ ڈالر، نہ کوئی اور لیڈر، صرف ناصر‘ مئی 1967 ء کے بحران دوران قاہرہ اور اسکندریہ کے لوگوں نے جبلی انداز میں انقلاب 1919ء کے مقبول عام رجز دہرانے شروع کر دیئے تھے…… بلادی بلا دی فداک دمی (اے مادر وطن اے مادر وطن! میری رگوں میں لہو تمہارا ہے)…… یہ رجز کسی طوفان کی طرح گرجے اور کسی ڈھال کی طرح سازشوں کے جال کو توڑتے ہوئے قومی نشریاتی اسٹیشن تک جا پہنچے اور مصری قومیت اور قومی فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی……
بے عملی کے دن لد چکے تھے۔ عدم وابستگی کے جذبات مٹ چکے تھے۔ عوام اور مادر وطن کے مابین شناخت کا فقدان مٹ چکا تھا۔(26)
ناصر کو استعفیٰ کی اجازت نہیں ملی مگر ناصر کو معلوم تھا کہ یہ جنگ ایک اہم موڑ تھا۔ بطور عسکری تاریخ دان ناصر کو اندازہ تھا کہ کس پیمانے پر شکست ہوئی ہے۔بطور سیاستدان ناصر کو یہ فہم تھا کہ عرب دنیا میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تین سال بعد وہ فوت ہوگئے۔ کئی ملین لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی اور انہیں کسی حد تک یہ احساس تھا کہ وہ ناصر ہی نہیں بلکہ عرب اتحاد کے لئے ناصر کے خواب کو بھی الوداع کہہ رہے ہیں۔
سوویت یونین نے پھر سے مصر کی فوج اور فضائیہ کو مسلح کیا۔ ناصر کے جانشین انور السادات نے 1973ء میں اسرائیل کو پیچھے ہٹا کر اور اس کی فضائیہ کو بے اثر بنا کر اسے حیران کر ڈالا۔ اسرائیل سنبھل گیا لیکن انور السادات کی کچھ ساکھ بن گئی تھی اور پھر امریکہ اور سویت یونین نے جوں کے توں والی صورتحال مسلط کر دی۔ دونوں بڑی طاقتوں کی کوشش تھی کہ ان کا گھوڑا نہ پٹے۔ عربوں کو نایاب اتحاد اور عارضی تیل بندی سے بھی فائدہ ہوا۔
لیکن بات محض بڑی طاقتوں کے بیچے ہوئے جدید اسلحے کی نہیں تھی۔ ایک اور بنیادی مسئلہ بھی تھا جو عربوں کا اندرونی مسئلہ تھا۔ یہ تھا شام کے عظیم شاعر نزار قبانی کا پیغام جس کی نظمیں گلیوں بازاروں میں جگہ جگہ دہرائی جاتی تھیں۔ اپنی 1956ء کی نظموں میں قبانی نے عام سپاہیوں کی بہادری کو سراہا تھا۔ مصر کی فوجی شکست کے باوجود لوگوں کا موڈ مثبت تھا۔ ایک دہائی بعد صورتحال بدل چکی تھی۔
1967ء جنگ کے فوری بعد ھوامش علی دفتر النکبتہ (کتابِ شکست کے حاشیے) کے عنوان سے قبانی نے بیس شعروں پر مشتمل ایک نظم لکھی، قبانی نے عرب قیادت کی خوب خبر لی، کرنل کو بخشانہ سلطان کو۔ اختلافِ رائے برداشت نہ کرنے والی ثقافتوں میں شاعروں کی سیاسی مداخلت ایسی نایاب بات نہیں لیکن ایسی مثال کم ہی ملتی ہے کہ کسی ایک نظم کا ایسا دھماکہ خیز اثر ہوا ہو۔ 17واں شعر بالخصوص ایسا تھا کہ ریاستی کل پرزے اور ہر عرب دارلحکومت کی خفیہ پولیس اس سے شاکی تھی لیکن پوری عرب دنیا میں یہ شہر پڑھا اور گنگنایا جاتا تھا۔
بایاں بازو بھی تنقید کر رہا تھا اور دایاں بازو بھی مگر شاعر کو کوئی پروا نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا وہ تنہا نہیں ہے۔ وہ مایوسی کا شکار ہوئے بغیر لکھو لکھا لوگوں کی مایوسی بیان کر رہا تھا۔ اسے معلوم تھا مایوسی سے بے عملی جنم لیتی ہے یا بے ادراک تشدد۔ امید، جو ہمیشہ اس کی سیاسی نظموں میں موجود ہوتی ہے، تخلیقی اور متحرک جذبہ ہے۔ قبانی کے تصورات امید ہمیشہ قوی الاثر اور پرشباب ہوتے ہیں اور وہ آنے والی نسلوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے:
1
دوستو
حرفِ کہنہ مرچکا
کہنہ کتب مر چکیں۔
ہمارا دریدہ دامن گفتار مر چکا۔
وجہ شکست جو بنا وہ دماغ مر چکا۔
2
ہماری شاعری ترش ہو چکی۔
گیسو، رات، پردے اور صوفے۔
سب ترش ہو چکا۔
سبھی کچھ ترش ہو چکا۔
3
میرے اداس وطن،
لمحے بھر میں
تو نے محبت کی نظمیں لکھنے والے شاعر کے ہاتھ میں
خنجر تھما دیا ہے۔
4
جو کچھ کہ اس دل پر گزری ہے
مت پوچھو:
ہم اپنی نظموں پر شرمسار ہیں
5
وہ مشرقی عبارت آرائی،
وہ شیخی کہ جس سے کبھی کوئی مکھی بھی نہیں مری،
وہ ڈھول تماشا
یہ تھے ہمارے جنگی ہتھیار
اور جنگ ہم گئے ہار
6
ہماری باتیں ہمارے اعمال سے بڑی ہیں
ہماری تلواریں ہم سے اونچی ہیں
یہ ہے ہمارا المیہ
7
قصہ مختصر
اگرچہ ہمارے تن پر تہذیب کا لبادہئ ہے
مگر ہماری روحیں غاروں کے عہد میں زندہ ہیں
8
جنگ، طاؤس و رباب کے ساتھ
نہیں جیتی جاتی
9
ہماری بے صبری کا نتیجہ
پچاس ہزار نئے خیمے۔
10
تقدیر کو دوش مت دو
اگر تقدیر نے ساتھ نہیں دیا، تو
حالات کو مت کو سو
خدا جسے چاہے فتح دیتا ہے۔
خدا تلواریں ڈھالنے والا لوہار نہیں۔
11
صبح خبریں سننا بوجھل ہے۔
بھونکتے ہوئے کتوں کو سننا بوجھل ہے۔
12
دشمن نے ہماری سرحد نہیں پھلانگی
وہ تو چیونٹی کی طرح ہماری کمزوری کے راستے آیا ہے۔
13
پانچ ہزار سال تک ہم، غاروں میں
اپنی داڑھیاں بڑھاتے رہے
ہمارے سکے کی کوئی شناخت نہیں
ہماری آنکھوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔
دوستو،
دروازے کھولو،
دماغوں پر لگے جالے اتارو
دامن جھاڑو۔
دوستو،
کوئی کتاب پڑھو،
کوئی کتاب لکھو،
الفاظ، انار اور انگور بڑھاؤ،
دھند اور برف کے ملک کا سفر کرو۔
کسے معلوم تم، غاروں میں پڑے ہو۔
تم لوگوں کی نظر میں دوغلی نسل ہو۔
14
ہم لوگ کہ جن کی کھال موٹی ہے
مگر روحیں خالی۔
ہم جادو ٹونے میں دن گزارتے ہیں،
شطرنج کھیلتے ہیں یا خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔
کیا ہم ہیں ’وہ قوم جو اللہ نے انسانیت کو عطا کی؟‘
15
ہمارے صحراؤں کا تیل
آگ اور شعلوں کا خنجر بن سکتا تھا
ہم اپنے آباء کے دامن پر داغ ہیں:
ہمارا تیل فاحشاؤں کے قدموں میں پڑا ہے
16
ہم گلیوں میں دندناے پھرتے ہیں
لوگوں کو رسیوں میں جکڑتے ہیں،
کھڑکیاں اور تالے توڑتے رہتے ہیں۔
ہم مینڈک کی طرح تعریف کے پل باندھتے ہیں،
مینڈک کی طرح قسمیں کھاتے ہیں،
ہم بونوں کو ہیرو،
اور ہیرو کو زیرو بنا دیتے ہیں:
ہمیں سوچنے کی فرصت ہی کہاں ہے۔
مسجدوں میں
ہم بے کار شور مچاتے ہیں،
نعتیں کہتے ہیں،
محاورے بولتے ہیں
دشمن پر فتح کے لیے
خدا سے مدد مانگتے ہیں
17
جان کی امان پا سکتا
اور سلطان سے کہہ سکتا
تو کہتا:
’سلطان‘
تمہارے وحشی کتوں نے میرا لبادہ تار تار کر ڈالا ہے
تمہارے جاسوس میرے پیچھے لگے ہیں
ان کی نظریں مجھے تاڑتی ہیں
ان کے نتھنے مجھے سونگھتے ہیں
ان کے قدم میرے پیچھے لگے ہیں
وہ میری تقدیر بن کر میرے پیچھے لگے ہیں
میری بیوی سے پوچھ گچھ کرتے ہیں
اور میرے دوستوں کے نام پتے درج کرتے پھرتے ہیں۔
سلطان‘
میں آپ کے دروازے پر
اپنا دکھ سنانے آتا ہوں تو،
مجھے رسوا کرتے ہیں۔
سلطان‘
آپ دو جنگیں ہار چکے،
سلطان،
ہمارے لوگوں کا نصف بے زبان ہے،
بے زبان لوگوں کا فائدہ؟
باقی نصف چوہوں اور کیڑوں کی طرح
دیواروں میں قید ہے،
جان کی امان پا سکتا تو کہتا:
آپ دو جنگیں ہار چکے
آپ نسلِ نو سے کٹ چکے،
18
گر اتحاد کو ہم دفنانہ چکے ہوتے
اس کے جواں جسم میں سنگین نہ اُتار چکے ہوتے
اور اگر اتحاد باقی ہوتا
تو دشمن یوں ہمارے خون سے نہ ہولی کھیلتا۔
19
ہمیں طیش سے بھری ایک نسل درکار ہے
جو آسمانوں کو ادھیڑ ڈالے
جو تاریخ کو ہلا دے
جو ہماری سوچوں کو جھنجوڑ ڈالے۔
ہم ایک ایسی نئی نسل کے طلب گار ہیں
جو غلطیاں درگزر نہ کرے
جو گھٹنوں کے بل نہ جھکے۔
ہمیں جنات کی ایک نسل درکار ہے۔
20
عرب بچو!
مستقبل کو بتا دو،
تم ہماری زنجیریں توڑ ڈالو گے۔
ہمارے ذہنوں کی افیون مار ڈالو
سب سراب قتل کر ڈالو۔
عرب بچو!
ہماری گھٹن زدہ نسل بارے مت پڑھو،
ہم سے بہتری کی توقع عبث۔
ہم تربوز کے چھلکے ایسے بے کار لوگ۔
ہمارے بارے مت پڑھو،
ہمارے نقشِ قدم پرمت چلو
ہماری بات مت مانو،
ہمارے خیالات مت مانو،
ہم دغا باز اور تماشا گروں کی قوم ہیں۔
عرب بچو!
ساون کے قطرو،
مستقبل کو بتا دو
تم ہی وہ نسل ہو
جو شکست پر غالب آئے گی۔ (27)
نظم نے پوری عرب دنیا میں طوفان برپا کر دیا۔ حکومت مصر نے گویا قبانی کے نقطہئ نظر کی تصدیق کے لئے ان کی تمام کتابوں پر بھی پابندی لگا دی اور ان نظموں پر بھی جو ام کلثوم نے گائیں تھیں۔ قبانی کے مصر میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ وہ ملک جو زیادہ ہی کاسہ لیس واقع ہوئے تھے وہ تو یہاں تک مطالبہ کر رہے تھے کہ قبانی پر غیر حاضری میں مقدمہ چلایا جائے۔ کچھ ماہ بعد شاعر نے براہ راست ناصر سے اپیل کی۔ تمام پابندیاں ہٹالی گئیں اور یوں یہ معاملہ ختم ہوا۔
شاعر نے البتہ دکھتی رگ چھیڑ دی تھی۔ میں نے پہلی بار 1967 ء میں قبانی بارے سنا جب میں برٹرینڈ رسل پیس فاونڈیشن کے پانچ رکنی وفد کے ہمراہ عمان، بیروت اور دمشق گیا۔ اس سال کے شروع میں میں رسل/ سارتر وار کرائمز ٹربیونل کی طرف سے شمالی ویت نام سے ہو کر آیا تھا۔ جب ٹربیونل کا سٹاک ہوم میں سیشن ہو رہا تھا تب ہمیں خبر ملی کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔
جون میں چھ روزہ جنگ برق آسا کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے دورے کا مقصد تھا فلسطینی کیمپوں کا دورہ، معائنہ اور جائزہ۔ ہم اگست کے مہینے میں اتوار کے روز عمان کے لئے روانہ ہوئے۔ مجھے یاد ہے میں نے ائر پورٹ پر آبزرور اخبار خریدا اور اس میں مارکسی تاریخ دان آئزک ڈشر بارے یہ خبر تھی کہ وہ گزشتہ روز روم میں وفات پاگئے۔ میری ان سے آخری ملاقات سٹاک ہوم میں ہوئی تھی جہاں وہ بھی وار کرائمز ٹربیونل کے جج کے حیثیت سے آئے تھے اور بلا دھیان کہے گئے میرے اس جملے پر میری خوب خبر لی کہ شمالی ویت نام میں امریکہ کی اندھا دھند بمباری نسل پرستی ہے۔ ڈشر کا سوال تھا کہ اگر امریکہ یورپ میں کسی انقلاب کو روکنے کے لئے بمباری کرتا تو کیا مختلف انداز سے بم پھینکتا۔ میرا جواب تھا یورپ کے معاملے میں وہ زیادہ چوکس ہو کر بمباری کرتے۔ وہ تازیانہ زدن تھے اور میں گواہی دادن۔ بعد میں وہ مجھے ایک طرف لے گئے تاکہ میرے پیش کئے گئے ثبوت میں انہوں نے جو قوم پرست بدعت پائی اس کا خاتمہ کر سکیں۔ اب وہ وفات پا چکے تھے۔ 1967ء کی جنگ کاتجزیہ کرنے کے لئے ان کی بے پناہ ذہانت اب کام نہیں آسکتی تھی۔ میں بوجھل دل کے ساتھ عمان کے لئے جہاز پر سوار ہوگیا۔
جنگ کے ہاتھوں تباہ شدہ اردنی دارالحکومت پہنچے تو اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ قبانی کی نظم پر ہنوز گرما گرما بحثیں چل رہی تھیں۔ جن فلسطینیوں سے ہم ملے انہوں نے اس نظم کے کئی اشعار ہمیں سنائے جس پر ہمارے ساتھ موجود سرکاری اہل کاروں کو خاصی خفت اٹھانی پڑتی۔ دمشق اور بیروت میں بھی یہی صورت حال تھی ہاں البتہ ذرا سا فرق تھا: دمشق میں مجھے اس نظم بارے وزرات خارجہ کے موافق الف نے بتایا جنہیں شاعر سے دوستی کا دعویٰ تھا۔ بعث کا سب سے زیادہ ترقی پسند دھڑا برسر اقتدار تھا اور حکومت شام کے وزیر یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ قبانی نے مصرکی صورت حال کو خوب بیان کیا ہے۔
یہ اردن میں قائم کیمپ تھے جہاں میں نے تاریخ فلسطین بارے پہلا سبق حاصل کیا۔ اسی سال میں نے کہیں بڑے پیمانے پر جنگ کا شکار ہونے والے لوگوں کو ویت نام میں دیکھا تھا مگر وہ اپنے ملک میں تھے جہاں ان کے اپنے طبیب ان کا علاج کر رہے تھے اور دنیا بھر سے لوگ انہیں طبی امداد اور مدد بھیج رہے تھے۔ کیمپوں میں بھی میں نے نیپام بم کا شکار ہونے والے بچوں کو دیکھا اور ان کی تصویر یں اتاریں مگر یہ بغیر ملک کے لوگ تھے جنہیں عرب دنیا نے گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔
مغرب میں چند ہی سیاستدان ہوں گے جنہیں خبر تھی یا جنہیں کوئی پرواہ تھی۔ دوسری عالمی جنگ دوران یہودیوں کے قتل عام پر احساس جرم کا شکار یہ لوگ اسرائیلی مظالم سے چشم پوشی کر رہے تھے۔
دمشق کے سول ہسپتال ا ندر میں نے کیمیائی ہتھیاروں کے مزید ثبوت دیکھے۔ کئی مریض تھے جو نیپام بم سے جھلس گئے تھے۔ ہمیں غائب ہو جانے والے پانچ ڈاکٹروں بارے بتایا گیا کہ کس طرح محاذ پر ایک طبی خیمے سے ا سرائیلیوں نے پانچ ڈاکٹروں کو اغوا کرکے گولی مار دی۔ میں نے قنیطرہ کے سترہ سالہ چروا ہے محمد المصطفےٰ کا انٹرویوکیا جس نے مجھے بتایا کہ کس طرح اسرائیلی فوجیوں نے انہیں ریوڑ چراتے ہوئے روک دیا۔ اس کا بارہ سالہ چچا زاد خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھا۔ اس کی پشت میں گولی ماری گئی۔ محمد کو بھی گولی کا نشانہ بنایا۔ وہ طبی امداد کے لئے گڑ گڑاتا رہا مگر اسے وہیں چھوڑ دیا گیاجبکہ اس کے دو چھوٹے بھائیوں کو وہ ساتھ لے گئے۔ کہانیاں تھیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں۔
شام کے وزیر اعظم ڈاکٹر یوسف زویان بھی میری دل جوئی نہیں کرپائے گو انہوں نے وہ سب کچھ کہا جو انسان ان دنوں سننا چاہتا تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور دوران تربیت ویلز اور سکاٹ لینڈکے ہسپتالوں میں کا م کر چکے تھے۔ جس سہ پہر ہماری ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھے کہا کہ شام جلد ہی مشرق وسطیٰ کا کیوبا بن جائے گا، سعودی بادشاہت کے دن گنے جا چکے ہیں، بعث انقلاب کو مزید ترقی دی جائے گی تا آنکہ سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں،‘ انہوں نے کہا ’آپ کو فکر مند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ عرب یمن ہجرت کر کے وہاں خیموں میں جا کر نہیں بسنے لگیں گے۔ ہم اس جارجیت کا مقابلہ کریں گے اور آخری فتح ہماری ہوگی۔ جاپانیوں کے خلاف چین کی مزاحمت سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں قابض قوتوں کے خلاف عوامی جنگ شروع کرنا ہوگی۔ جہاں تک سوال ہے اسلحہ کا تو ہم ان کا یا ان کے لندن اور واشنگٹن میں بیٹھے پشت پناہوں کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے۔ یہ جنگ مہنگے اسلحے سے نہیں صرف اور صرف لوگوں کے ذریعے جیتی جا سکتی ہے۔ یہ ایک لمبی جدوجہد ہوگی……‘ اگلے چند ماہ کے اندر اندر حکومت شام کے ان ’الٹرا ترقی پسندوں‘ کو افلاق کی آشیر باد سے معتدل مزاج دھڑے نے بغیر کسی بہت لمبی جدوجہد کے نکال باہر کیا۔
بیروت میں میری فلسطینی دانش وروں سے پہلی پہلی ملاقاتیں ہوئیں اور ولید خالدی کے پرانے گھر کے باغیچے میں میں نے تاریخ کے مزید سبق پڑھے۔ ان میں سے اکثر شکست کے ہاتھوں لگنے والے دھچکے کاشکار تھے اور مستقبل بارے اپنے خیالات ترتیب نہیں دے پا رہے تھے۔ کچھ وہ تھے جن سے ریستورانوں اور چائے خانوں میں ملاقات ہوئی۔ وہ کچھ زیادہ ہی خود سر واقع ہوئے تھے۔ وہ دوسروں سے سبق سیکھتے ہوئے، کسی کرنل یا سلطان پر بھروسہ کئے بغیر اپنے زور بازو سے لڑائی لڑنے کے حق میں تھے۔اور گفتگو کے بعد یہ سوال تو لازمی پوچھا جاتا کہ آپ نے قبانی کی تازہ نظم سنی ہے؟
لندن واپسی پر میں آئزک ڈشر کی بیوہ تمارا سے اظہار تعزیت کے لئے گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اپنی وفات سے چند ہفتے پہلے ڈشر نے نیو لیفٹ ریویو کوچھ روزہ جنگ پر تفصیلی انٹرویو دیا تھا۔ دونوں میاں بیوی نے یہودیوں کے قتل عام دوران خاندان کے اکثر افراد کھو دیئے تھے۔ ڈشر نے جذبات کو شائد ہی کبھی دلیل پر غالب آنے دیا ہو۔ بہر حال مہاجر پیدا کرنے والی ریاست سے نہ سہی، مہاجروں کی ریاست اسرائیل سے ہمدردی لازمی بات تھی۔ میں انٹرویو سے کچھ زیادہ توقع نہیں کر رہا تھا۔ میں غلطی پر تھا۔ انہوں نے اسرائیلیوں کو ’مشرق وسطیٰ کے پرشیائی‘ قرار دیتے ہوئے سرد اور دور اندیش تنبیہہ کی:
جرمنوں نے اپنے تجربے کو ایک ترش محاورے میں سمو دیا ہے ’تم اپنی قبر کی طرف دوڑ جیت سکتے ہو۔‘ اسرائیلی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ مقبوضات اور اسرائیل میں اس وقت پندرہ لاکھ کے لگ بھگ عرب ہیں جو آبادی کی چالیس فیصد سے تھوڑا زیادہ ہیں۔ کیا مفتوحہ علاقوں پر ’بحفاظت‘ قبضے کے لئے اسرائیل ان عرب عوام کو وہاں سے زبردستی نکال دے گا؟ اس طرح تو مہاجرین کا ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا جو پرانے مسئلے کی نسبت زیادہ بڑا اور خوفناک ہوگا…… جی ہاں! یہ فتح اسرائیل کے لئے شکست سے بھی بری ہے۔ اسرائیل کو سلامتی فراہم کرنے کی بجائے اسرائیل اس کے نتیجے میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ غیر محفوظ ہوگیا ہے۔(28)
جیسا کہ ڈشر نے پیش گوئی کی تھی، 1967ء میں اسرائیلی فتح نے کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ فلسطینی مٹ جانے والی قوم بننے پر تیار نہ ہوئے۔ ایک نئی نسل نے حق خود ارادیت کے لئے پھر سے جدوجہد شروع کر دی اور یہ بیسویں صدی میں حق خود ارادیت کے لئے چلنے والی تحریکوں کے سلسلے کی آخری کڑی تھی۔ موجودہ دنیا میں انیسویں بیسوی صدی کی طرز پر بدستور قائم اسرائیل واحد نو آبادیاتی طاقت ہے۔ اسرائیلی دانش وروں کی ایک جرات مند اقلیت اب اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے۔ عبرانی ہفت روزہ کوئی ہئیر کی یکم فروری 2002 ء کی اشاعت میں عبرانی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے عمرانیات کے پروفیسر بارخ کمرلنگ٭ ’میں الزام لگاتا ہوں‘ کے عنوان سے لکھا مضمون ایملے زوالا کو خرج عقیدت کے طور پر وہ فرد جرم ہے جو مغربی میڈیا میں کبھی جگہ نہیں پاتی:
میرا شیرون پر الزام ہے کہ شیرون نے وہ عمل شروع کر دیا ہے جس کے ذریعے نہ صرف وہ باہمی خون خرابے میں اضافہ کریں گے بلکہ اس طرح ایک علاقائی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے اور یہ راستہ ’سر زمین اسرائیل‘ سے عربوں کی جزوی یا مکمل نسلی صفائی کی طرف جاتا ہے۔ میرا موجودہ حکومت اندر لیبر پارٹی کے تمام وزراء پر الزام ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے لئے رائٹ ونگ انتہا پسند، فسطائی ’وژن‘ کو لاگو کرنے میں ساتھ دیا ہے۔ میں فلسطینی قیادت بالخصوص یاسر عرفات پر الزام لگاتا ہوں کہ انہوں نے ایسی کم عقلی کا مظاہرہ کیا ہے کہ فلسطینی قیادت شیرون کے منصوبوں کا حصہ بن گئی ہے۔ اگر نکبتہ ثانی شروع ہوئی تو اس کی ذمہ داری اس قیادت پر بھی ہوگی۔ میں قومی قیادت پر الزام لگاتا ہوں کہ اس نے مجوزہ پروفیشنل ازم کا لبادہ اوڑھ کر فلسطینیوں کے خلاف رائے عامہ کو بھڑ کایا۔ اسرائیل میں اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی کہ اس بڑی تعداد میں حاضر سروس جرنیلوں، سابق جرنیلوں، خفیہ ایجنسی کے سابق اہل کاروں …… جو بعض اوقات ’عبائے جامعہ‘ زیب تن کئے ہوتے ہیں …… نے اس بڑی تعداد میں عوام کی مغز شوئی میں حصہ لیا ہو۔ جب 2002 ء میں ہونے والی تباہی کی تحقیقات کے لئے عدالتی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے تو سول مجرموں کے ساتھ ساتھ ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
مرحوم فلاسفر یشایا ہو لیبوتز حق بجانب تھے …… قبضے نے ہر اچھی چیز اور اس اخلاقی ڈھانچے کو تباہ کر دیا جس پر اسرائیلی معاشرے کی عمارت استوار ہوئی تھی۔ آیئے احمقوں کی اس پیش قدمی کو روکیں اور معاشرے کو نئے سرے سے تعمیر کریں جس میں لشکر کشی نہ ہو، دوسرے لوگوں پر جبر اور ان کا استحصال یا اس قسم کی بری چیزیں نہ ہوں …… اور میں اپنے آپ پر الزام لگاتا ہوں کہ مجھے یہ سب معلوم تھا مگر اس کے باوجود میں نے آہ و فغاں کم کی اور اکثر چپ سادھے رکھی
داستان فلسطین ہنوز ادھوری ہے۔
Tariq Ali
طارق علی بائیں بازو کے نامور دانشور، لکھاری، تاریخ دان اور سیاسی کارکن ہیں۔