تاریخ

احمد سلیم: ’ایک لائبریری چھوڑ گئے، ایک ساتھ لے گئے‘

لاہور(جدوجہد رپورٹ) پنجابی اور اردو کے معروف مصنف، محقق، شاعر، مترجم اور انسانی حقوق کے کارکن احمد سلیم پا گئے ہیں۔ ان کی عمر78برس تھی اور وہ کچھ عرصہ سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے، اسلام آباد میں انہوں نے پیر کے روز آخری سانس لی۔ احمد سلیم کی آخری رسومات گذشتہ روزلاہور میں ادا کی گئیں۔ پیر کی سہ پہر انہیں لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔

احمد سلیم1945میں منڈی بہاؤالدین کے علاقے میانہ گوندل میں پیدا ہوئے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ سیاسی طور پر وابستہ رہے اور 1971میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے کی وجہ سے انہیں جیل بھی جانا پڑا۔

وہ ساری زندگی محنت کش طبقے کی نجات کیلئے مہم چلانے میں مصروف رہے اور مارشل لاء دور کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

احمد سلیم نے تقریباً175کتابوں کی تصنیف و تدوین کی، 40ہزار سے زائد سیاسی و تاریخی دستاویزات مرتب کیں۔ انہوں نے پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی اہم واقعات کی خبروں کے 4جلدوں پر مشتمل مجموعے کی اشاعت بھی کروائی ہے۔

احمد سلیم کی موت پر ملک بھر میں سیاسی کارکنوں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ مختلف شخصیات نے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تحریریں لکھی ہیں۔

سینئر صحافی اسلم ملک نے لکھا کہ ”فیض صاحب (فیض احمد فیض)نے انہیں اپنے لیاری، کراچی والے عبداللہ ہارون کالج داخل کرکے پڑھایا۔شیخ ایاز اور اجمل خٹک کے بہت قریب رہے۔امرتا پریتم بھی بہت عزیز رکھتی تھیں۔وہ مغربی پاکستان کے ان بہت تھوڑے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے یہ آواز اٹھائی کہ بنگالیوں کو جبر سے نہیں محبت سے اپنے ساتھ رکھو،اس پر جیل بھی بھگتی۔بعد میں بنگلہ دیش کی حکومت نے انہیں اعلیٰ شہری اعزاز بنگلہ دیش فریڈم ایوارڈ دیا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے بھی انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دیا گیا، اور بھی بے شمار اعزازات ملے۔“

بائیں بازو کے معروف رہنما عاصم سجاد اختر نے لکھا کہ ”1971میں بنگالی عوام پر جب وحشیانہ فوجی آپریشن ہو رہا تھا تو احمد سلیم ان لوگوں میں سے تھے، جو پنجاب کے اندر انسان دوستی کا علم بلند کر کے فوج کشی کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔۔۔۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہم ان کی انتھک جدوجہد کو آگے بڑھانے کا وعدہ کرتے ہیں۔“

کالم نگار سلمان عابد نے لکھا کہ ”وہ واقعی ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کا حافظہ کمال کا تھا۔ کس کتاب میں کونسی بات اور حوالہ موجود تھا، اس پر ان کو خوب دسترس تھی۔“

شمعون سلیم نے لکھا کہ’’احمد سلیم وی چلاگیا۔ اک کتاب خانہ چھڈ گیا، تے اک کتاب خانہ نال لے گیا۔(احمد سلیم بھی چلے گئے۔ ایک لائبریری چھوڑ گئے اور ایک لائبریری ساتھ لے گئے۔)“

Roznama Jeddojehad
+ posts