فن و ثقافت

اردو ڈرامہ اور عصری مسائل

بابر پطرس

آج سماج اپنے عہد کی انتہائی پر انتشار کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ہر طرف ایک بے یقینی کے صورت حال ہے۔ بے روز گاری ہے، افلاس ہے،لاعلاجی ہے،رہائش کے مسائل ہیں، خوراک کی اذیت ہے، مستقبل تاریک ہے؛ اور بہ ظاہر نجات کا کوئی رستہ نظر نہیں آتا۔

جب سماج کی بنیاد یعنی معاشی نظام متروک ہو جائیں،تو وہ محض معیشت میں ہی اپنا اظہار نہیں کرتے، بل کہ سماج کا ہر ایک ادارہ تعفن پھیلانے لگتا ہے۔ تاریخ کا دھارا گویا روک سا جاتا ہے۔ تہذیب و ثقافت زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتیہیں۔ رشتوں کا تقدس اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ سماج میں ایک بے گانگی جنم لیتی ہے، جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے لا تعلق کر دیتی ہے۔ یہ انسانوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ ان کے پاس انفرادی بقا کے انتخاب کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچتا، اور انفرادی کام یابی ہی سب سے بڑا مقصد حیات بن جاتی ہے۔ چاہے اس کی قیمت اپنوں کے خون سے ہی کیوں نا چکانی پڑے۔

بے غرض محبت اور احساس جیسی اعلی سماجی قدروں کے جگہ لالچ، فریب اور دھوکا دہی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ ہر جذبہ، ہر خیال، ہر رشتہ اور ہر ایک احساس منڈی کی جنس بن کر آنے، دھلے میں بک جاتا ہے۔ ادب اور فن کی تخلیق، عامیانہ پن کی شکار ہو کر، بے سمت منزلوں کی جانب محو سفر ہو جاتی ہے۔

یہ درست ہے کہ ایک طبقاتی سماج میں ہر شے کی طرح ادب کا کردار بھی طبقاتی حیثیت اختیار کر جاتا ہے، لیکن ایک ایسے وقت میں جب طبقاتی شعور، عمومی شعور کا حصہ بن جائے، یا سماج ایک خاص سطح کی ترقی حاصل کر رہا ہو، یا ایک متروک نظام کے بطن سے کوئی نیا نظام جنم لے رہا ہو، تو ادب کے نئے نمونے تخلیق ہو رہے ہوتے ہیں۔ لہذا آج کے ادب کو،آج کے سماجی ماحول سے کاٹ کر دیکھیں گے،اور اس کا موازنہ ماضی کے ادب سے کریں گے،تو اس صورت میں غلط نتائج برآمد ہوں گے، کیوں کہ ادب اپنے عہد کے پیداواری رشتوں ک اظہار ہوتا ہے۔

ادب میں ڈراما سب سے زیادہ پر اثر صنف ہے۔ اگر موجودہ عہد کے ڈراما کو دیکھا جائے، تو نقادوں کا کہنا ہے کہ ڈراما کی صنف زوال کا شکار ہو گی ہے۔ وجہ یہ کہ اس میں پیش کئے جانے والے حالات و واقعات کا تعلق حقیقت یا زمینی حقائق سے نہیں رہا؛ اور آج کے معروضی موضوعات سے، اس کو کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسے اعتراضات میں کچھ زیادہ صداقت نہیں ہے۔ مثال کے طور سے درج ذیل اقتباس کو پڑھیے!

لڑکی: میں تم سے نکاح نہیں کر سکتی، کیوں کہ میں چاہتی ہوں تم لائف میں تھوڑا سیٹل ہو جاؤ۔

لڑکا: سیٹل؟ اچھا خاصا سیٹل ہوں۔ اچھی جاب ہے میرے پاس۔

لڑکی: دو لاکھ سیلری ہے تمہاری۔ دو لاکھ میں کیا ہوتا ہے؟

یہ مکالمے ایک نجی ٹی۔وی ڈراما ”جلن” کے ہیں۔ اس ڈرامے میں لڑکی اپنی بہن کی شان و شوکت سے متاثر ہو کر، غربت کا رونا روتی نظر آتی ہے؛ جو کسی صورت بھی معروضی حالات سے متصادم نہیں ہے، بل کہ یہ اسی سماج میں بسنے والے طبقہ کی ایک قلیل سی پرت ہے، جن کے لیے دو لاکھ کی تن خواہ کو روزمرہ ضروریات کے لیے ناکافی سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ مکالمے متوسط طبقہ کی ذہنی کیفیت کو بھی عیاں کرتی ہے، جو اجرت کے عوض اپنی محنت کی قوت بیچنے پر مجبور ہوتی ہے، لیکن خود کو کبھی بھی محنت کش تصور نہیں کریں گے، بل کہ خود فریبی کے عالم میں،بورژوا طبقہ کی نقالی کرتے ہیں۔ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ:

” ان کی نگاہیں آسمان پر اور پاوں کیچڑ میں دھنسے ہوتے ہیں۔”

کہا جاتا کہ ماضی میں پاکستان ٹیلی ویژن پر جب ڈرامے کی قسط کو ٹیلی کاسٹ کیا جاتا، تو گلیاں اور سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔

خدا کی بستی، وارث، دھوپ کنارے، تنہائیاں، ان کہی، آنچ، دھواں، یا سونا چاندی ایسے چند یادگار ڈرامے ہیں۔ الف نون، ففٹی ففٹی، عینک والا جن، اور آنگن ٹیڑھا کو دیکھنے والے آج بھی نہیں بھولے۔

ٹی۔وی اسکرینوں پر جلوہ گر ہونیوالے اداکار اس قدر مقبول ہوتے تھے کہ نوجوان ان کے بالوں اور کپڑوں کی تراش خراش اور اسٹائل کو نقل کرنا شروع کر دیتے تھے۔ خواتین اداکاروں کی چوڑیاں، جھمکے اور ملبوسات دکانوں کی زینت بننا شروع ہو جاتے تھے۔

ڈرامے کے ناقدین کا الزام ہے کہ ان ڈراموں نے عروج سے زوال کا سفر بڑی تیزی سے طے کیا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ان میں پیش کئے جانے غیر حقیقی واقعات ہوتے ہیں۔

ایک الزام یہ بھی ہے کہ لوگ ان میں اپنی حقیقی زندگی کا عکس نہیں دیکھ پاتے۔

بڑی بڑی کوٹھیوں میں فارغ بیٹھے لوگ، ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔ ساس بہو کے جھگڑوں، دوسری عورتوں کے خلاف سازشوں اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے علاوہ، ان ڈراموں کے کرداروں کا کوئی اور مقصد حیات نہیں ہوتا۔ عالی شان محلوں میں رہنے والے یہ کردار کام وام کیے بغیر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔

بالخصوص خواتین کا کردار انتہائی دلچسپ ہے، کوئی ڈراما دیکھ لیں۔ اس میں ہر لڑکی کی زندگی کا اولین مقصد کسی دولت مند شخص کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ پھر اس کے لیے کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کرنی پڑیں۔ بقیہ پورا ڈراما اسی ننھی خواہش کے گرد گھومتا نظرآتا ہے۔ مثلاَ ڈراما ’جلن‘ میں لڑکی اپنے رئیس بہنوئی کی دولت سے متاثر ہے اور اس کے حصول کے لیے بہن کی جگہ لینے کی خواہش مند ہے۔

پھر آج کا ہر چینل صرف عشق و محبت کی افسانوی کہانیاں، غیرحقیقی موضوعات کی چادر لپیٹ کر پیش کر رہا ہے۔ غرض اردو ڈراما اخلاقی پستی کا شکار نظر آتا ہے۔ پھر یہ الزام بھی ہے کہ آج کا ٹی۔وی ڈراما مغربی ثقافت زدہ ہے۔

یہ تمام الزامات اپنی جگہ درست ہیں،اور اس وقت زیادہ درست معلوم ہوتے ہیں، جب آج کے ڈرامے کا موازنہ ماضی کے ڈرامے سے کیا جاتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ موازنہ کرتے ہوئے ہم وقت کو کوئی جامد شے تصور کر لیتے ہیں۔ حالاں کہ ہر گزرا ہو لمحہ، آنے والے لمحے سے مختلف ہوتا ہے۔اس لیے ہر عہد کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے، اپنی سچائیاں ہوتی ہیں، اپنی قدریں ہوتی ہیں،جو ماضی کی سچائیوں سے مختلف ہوتی ہیں۔

آج افراتفری کا عالم ہے۔ ایک چیز منظر عام پر آتی ہی ہے کہ اس کی جگہ لینے کو بیسیوں تیار ہوتی ہیں۔ اس لیے پہلی چیز ہماری پختہ یاداشت کا حصہ نہیں بن پاتی، اور عروج کے ساتھ ہی زوال شروع ہو جاتا ہے۔

مثال ”میرے پاس تم ہو” نامی ڈراما ہے کہ وہ اس قدر مقبول ہوا تھا کہ اس کی آخر قسط کو ٹی۔وی کی بجائے سنیما ہال میں بلیک ٹکٹوں کے عوض دکھایا گیا۔ اس ڈراما کے المیہ اختتام پر کئی نوجوانوں نے خود کشی کرنے کی کوششیں کیں۔ لیکن آج وہ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو گیا ہے۔وجہ یہ کہ اس کی جگہ کسی ”التغرل” جیسے ڈرامے نے لے لی تھی۔

پھر یہ کہنا کہ اس میں حقیقی زندگی کا عکس نہیں ہے۔ یہ بھی کوئی معقول الزام نہیں ہے۔ کیا ہمارے سماج میں ایسے کردار موجود نہیں ہیں، جو روزگار کی فکر سے آزاد، بڑے بڑے محلوں میں متذکرہ بالا سازشوں میں مصروف ہوتے ہیں؟

کیا ان ڈراموں میں دکھایا جانے والا خاندان، واقعی میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہے؟

جو اخلاقی گراوٹ، ان ڈراموں میں دکھائی جاتی ہے، کیا ہمارا سماج اس گراوٹ کا شکار نہیں ہے؟

کیا ان میں پیش کئے جانے والے مفاد پر مبنی کردار، ہمارے سماج کے جیتے جاگتے کردار نہیں ہیں؟

کیا بے غرض محبت سے عاری رشتے، اس سماج کی اجتماعی نفسیات کی عکاسی نہیں کرتے؟

کیا دوسروں کے کندھوں پر کھڑے ہو کر، بونے اپنے قدوں کو بڑا نہیں کرتے؟

اگر ان سب کا جواب اثبات میں ہے، تو ماننا ہو گا کہ ڈراما گراوٹ کا شکار نہیں ہوا، بل کہ ڈراما نظام کی گراوٹ کا ادبی اظہار ہے، اور نظام کی متروکیت نے، سماج کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں پستی اس کا مقدر بن گی ہے۔

ہاں یہ بھی سچ ہے کہ یہ ان معروضی صداقتوں کی ترجمانی ہرگز نہیں کر رہا، جن سے اس سماج کی سب سے بڑی پرت کو واسطہ ہے، اور اونچ نیچ کے اس نظام میں ادباء اور شعراء سے کوئی ایسی امید وابسطہ کر لینا ممکن بھی نہیں کہ انسان محض باشعور حیوان ہی نہیں، بل کہ ایک عدد پیٹ کا مالک بھی ہے۔

Babar Patrus
+ posts

بابر پطرس گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا خاص مضمون ہے۔ بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر، اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سیاسی فکر میں کارل مارکس سے متاثر ہیں۔