خبریں/تبصرے

توہین مذہب تنازعہ کی خوں آشام تاریخ: عطا انصاری کی کتاب کی پذیرائی

ٹونی عثمان

ناروے کے پاکستانی نژاد صحافی عطاانصاری کی نارویجن زبان میں تحریر کی گئی توہین مذہب کے موضوع پر، تحقیقاتی کتاب کو خُوب پذیرائی مل رہی ہے۔ اس کتاب کے سلسلے میں متعدد تقریبات ہو چکی ہیں اور ناقدین کے دلچسپ جائزے اخبارات میں شائع ہو رہے ہیں۔ یوں اس کتاب کو ایک سیاسی اور سماجی بحث کا ایک اہم حصہ سمجھا جارہاہے۔ کتاب کا نام تو نارویجن میں ہے مگر قارئین کی دلچسپی کے لئے نام کا اردو ترجمہ لکھ رہے ہیں،”توہین مذہب تنازعہ کی خوں آشام تاریخ“۔ نام کا یہ ترجمہ ادیب اور مدیر سید مجاہد علی نے اپنے ایک مقالہ میں تجویز کیا ہے۔

کتاب کے مندرجات کے بارے لکھنے سے پہلے مصنف کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ عطاانصاری نوعمری میں کراچی سے ناروے منتقل ہو گئے۔ وہ ناروے اور پاکستان کی زبانوں اور ثقافتوں کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ ناروے کے سرکاری ٹی وی این آر کے (NRK) سے منسلک ہیں اور گزشتہ 36 سالوں سے صحافت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے متعدد دستاویزی فلمیں بھی بنائی ہیں۔

انہوں نے اپنی کتاب کے ذریعے اُن تنازعات اور واقعات کی تہہ تک جانے کی کوشش کی ہے، جن کی وجہ سے کئی دہائیوں سے اسلامی دُنیا اور مغرب کے تعلقات میں دراڑیں پڑرہی ہیں۔ عطا انصاری نے بلاسفیمی کے نام پر ہونے والے بعض پر تشدد واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے بلاسفیمی اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے مغرب اور مسلم دنیا کے متحارب تصورات پر بحث بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بلاسفیمی سے متعلق قانون کا تاریخی پس منظر بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ برصغیر میں انگریزوں نے یہ قانون نافذ کیا اور بعد میں اس میں مزید شدت جنرل ضیاء کے مارشل لاء دور میں آئی۔ جنرل ضیاء نے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر 11 سال تک اقتدار پر قبضہ رکھا۔ جنرل ضیاء کو سماجی بنیادوں کی ضرورت تھی جو انہیں بنیاد پرستوں کو ساتھ ملانے سے مل گئی اور یوں بنیاد پرست ایک طاقتورعنصر بن گئے۔ عطاانصاری نے گہری تحقیق کے بعد ہر واقعہ کے پس منظر تک جانے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح اکثر اوقات افواہوں کو’ثبوت‘میں بدل دیا جاتا ہے۔

ناروے کے سب سے بڑے اخبار’آفتن پھوستن‘، جسے دائیں بازو کا اخبار تصور کیا جاتاہے، نے اپنے تبصرے میں عطاانصاری کو ایک قابل اور معتبر راہ دکھانے والا قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ بلاسفیمی کے حوالے سے تنازعات کے متعلق کھل کر گفتگو کرنا انتہائی ضروری ہے اور عطا انصاری کی کتاب ایسی گفتگو کا ایک تعمیری آغاز ہے۔

بائیں بازو کے روزنامہ’کھلاسے کھامپن‘(طبقاتی جدوجہد) نے لکھا ہے کہ عطاانصاری کی کتاب سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ پاکستان میں کس طرح توہین مذہب کے الزامات طاقت کا ہتھیار بن چکے ہیں۔

کاروان کے مدیر سید مجاہد علی لکھتے ہیں کہ عطاانصاری نے ایک غیر جانبدار صحافی کے طور پر واقعات کو رپورٹ کرکے ایک توازن تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

اردوٹریبیون کے مدیر محمد زنیر لکھتے ہیں کہ عطاانصاری کتاب کے ذریعے ہر طرح کے نظریات وعقائد رکھنے والوں کو ادب اوراخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔

روزنامہ’وورٹ لان‘(ہمارا مُلک) نے لکھا کہ بلاسفیمی کا تنازعہ عالمی ہے، جہاں یورپ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر مسلم ممالک میں ہوتا ہے اور مسلم دنیا میں ہونے والے واقعات کا اثر یورپ میں ہوتا ہے۔ عطا انصاری نے اسے سمجھنے اور سمجھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ناروے کے پارلیمنٹ کے سابق ڈپٹی اسپیکر اختر چوہدری، جن کا تعلق سوشلسٹ پارٹی (SV)سے ہے، نے کتاب پر تبصرے میں لکھا کہ عطاانصاری نے جس مشقت کے ساتھ کتاب کے لیے تحقیق کی ہے، اور جس دیانتداری کے ساتھ انہوں نے موضوع کا تجزیہ کیا ہے، مختلف مکتب ہائے فکر کے دلائل زیر بحث لائے ہیں، اور جو واضح موقف انہوں نے اختیار کیا ہے، وہ لائق تحسین ہے۔

جس طرح عطا انصاری کی تخلیق کو پذیرائی مل رہی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے سنجیدگی سے بحث کرنے کی کوشش کو نہ صرف سراہا جارہا ہے بلکہ ایک صحت مند سوچ کے عمل کو بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو آسکہاؤگ پبلشنگ ہاؤس، جو ناروے کے بڑے پبلشرز میں شمار ہوتے ہیں، نے شائع کیا ہے۔ کتاب کے آفاقی مواد کی وجہ سے اس کا ترجمہ انگریزی اور اردو میں ہونا چاہیے۔

Toni Usman
+ posts

ٹونی عثمان اداکار، ہدایت کار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے پرانے ساتھی ہیں اور’مزدور جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔