تاریخ

ستر کی دہائی، بھٹو اور فلمی صنعت

ٹونی عثمان

ایک پھلتا پھولتا سنیما کلچر ایک ایسے معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے ،جس میں لوگ تفریح کے ذریعے اپنے مسائل، امیدوں اور خواہشات پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ایسا پھلتا پھولتا سنیما کلچر پاکستان میں 70ء کی دہائی میں تھا۔ اس دہائی میں وہ سیاسی بیداری اور سماجی ترقی پسند اقدار واضح تھیں جن کی شروعات 1968 کی عالمی تحریک سے ہوئی تھی۔ اس دہائی میں تاریخ کی سب سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں اور پہلی بار سرکاری سطح پر ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں فلمی صنعت کو باقاعدہ پذیرائی ملی۔ یہ دہائی پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کی دولت لے کر آئی۔ سنگیتا اور شمیم آرا جیسی خاتون ہدایتکاروں نے فلمی صنعت کے تنوع کو وسیع کیا۔ اردو کے جرائد‘مصور’، ‘شمع’، ‘ممتاز’ اور‘دھنک’ نے فلموں کے متعلق پڑھنے کا مواد فلم بینوں تک پہنچایا۔ سنیماکلچر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں تک پھیلنا شروع ہو گیا۔ علاقائی سنیما کلچر کو ایک نیا فروغ ملا اور پاکستان کی پہلی بلوچی، پہلی پشتو، پہلی سرائیکی اور پہلی انگریزی فلم بھی اس دہائی میں تخلیق کی گئی۔ اس دہائی میں فلمسازی میں بہت تخلیقی تجربات کئے گئے ،جس سے فلموں کے تنوع میں دلچسپ اضافہ ہوا۔مثال کے طور پر مغربی جرمنی، اٹلی اور پاکستان کے درمیان مشترکہ پروڈکشن‘ٹائیگر گینگ’تیار کی گئی۔ یہ فلم یورپ میں تیار کردہ جاسوسی فلموں کی ایک صنف‘یوروسپائی’کے طرز کی طرح تھی۔ ہدایتکار ہیرالڈرینل کی اس فلم میں یورپ کے اداکاروں کے علاوہ پاکستان سے محمدعلی، زیبا، علی اعجاز اور قوی خان نے کام کیاتھا۔

اس دہائی کے پہلے سال یعنی 1970 میں ریلیز ہونے والی 130 فلموں میں سے ایک ہدایتکار مسعودپرویز کی پنجابی فلم‘ہیررانجھا’تھی۔ اس فلم نے ریکارڈ توڑ بزنس کیااور اس کے گانے آج بھی سنے جاتے ہیں۔ اسی سال پاکستان میں بنائی گئی پہلی پشتو فلم‘یوسف خان شیر بانو’ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار عزیز تبسم کی اس فلم میں بدرمنیر اور یاسمین خان کو متعارف کروایا گیا اور اسے پشاور میں گولڈن جوبلی کا درجہ حاصل ہوا۔

اُن دنوں ہٹ کی پیمائش کے لئے‘جوبلی’کا پیمانہ استعمال کیاجاتا تھا۔ جب فلم سنیما گھر میں متواتر 25ہفتے یااس سے زائد چلتی تھی تو اسے سلور جوبلی کا درجہ ملتا تھا۔ اسی طرح 50 ہفتے گولڈن جوبلی، 75ہفتے پلاٹینیم جوبلی اور 100 ہفتے چلنے والی فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کہاجاتا تھا۔ فلم سازی کے مختلف زمروں میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے نگار ایوارڈز (نگار انعامات) دیئے جاتے تھے۔ ایوارڈ کا ڈیزائن فلم نیگیٹو میں لپیٹا ہوا عورت کا مجسمہ تھا۔ ان ایوارڈز کا آغاز فلمی صحافی الیاس راشدی، جنہیں بابائے فلمی صحافت کہاجاتا ہے، نے 1957 میں کیا تھا۔

رونالیلیٰ کا گایا ہو ا گیت‘آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے’اب بھی بڑے شوق سے سنا جاتا ہے۔ یہ گیت ہدایتکارحسن طارق کی اردو فلم‘انجمن’کا ہے ،جو 1970 کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ اسی سال بنگالی زبان کی تحریک کے موضوع پر ہدایتکار ظہیر ریحان کی‘جیبوں تھیکے نعیا’آئی۔ حکومت نے پہلے اس پر پابندی لگائی مگر مشرقی پاکستان میں پابندی کے خلاف احتجاج کے بعد بالآخر ریلیز کرنے کی منظوری دے دی۔

ا گلے سال یعنی 1971 میں ملک میں خانہ جنگی اور سماجی افراتفری کے باعث محض 85 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان میں ایک ہدایتکا افتخارخان کی پنجابی فلم‘مستانہ ماہی’ہے۔ یہ وحیدمراد کی پہلی پنجابی فلم تھی اور اسے انہوں نے خود پرڈیوس بھی کیاتھا۔ اسے کامیابی کے لحاظ سے گولڈن جوبلی کادرجہ ملا۔ نورجہاں کی آواز میں عالیہ پر فلمایا گیا گیت‘سیو نی میرا ماہی، میرے پاگ جگاوان آگیا’آج بھی لوگ گنگناتے پھرتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجابی فلم بڑھک بازی، بے تحاشہ تشدد اور اوورایکٹنگ کے بغیر نہیں ہو سکتی انہیں یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔ ہدایتکار ریاض شاہد (اداکار شان کے والد) کی فلم‘امن’اسی سال آئی، یہ کشمیر کی آزادی کے متعلق تھی اور اس کاسکرپٹ بھی ریاض شاہد نے خود لکھا تھا۔ اس میں دکھایا گیا تھاکہ کشمیر صرف کشمیریوں کاہے اور کسی بھی ملک کو اس میں دخل کا کوئی حق نہیں۔ ریاست نے اسے اپنی کشمیر پالیسی کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس پر پابندی لگادی۔ بعد میں اس میں کافی ردوبدل کرواکے اسے‘یہ امن’کے نام سے ریلیز کی اجازت دے دی۔ اس فلم کے تمام نغمے انقلابی شاعر حبیب جالب نے لکھے تھے۔ ان کی نظم‘ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو’کو نور جہاں اور مہدی حسن نے الگ الگ گایا اور اسے سنگیتا اور جمال ہاشمی پر فلمایا گیا۔ فلم کے ہیرو جمال ہاشمی بھارت کی معروف اداکارہ تبو کے والد تھے۔

ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم‘تہذیب’کے ساتھ سنسر والوں نے عجیب مذاق کیا۔ فلم کا ایک گیت‘لگاہے مصر کا بازار دیکھو’جسے مہدی حسن اور نورجہاں نے الگ الگ گایاتھا، کے بول میں‘مصر’کی بجائے‘حسن’لگا کر دوبارہ ریکارڈنگ کی گئی کیونکہ ریاست کو لفظ‘مصر’پر اعتراض تھا۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں آپ کو انٹر نیٹ پر دونوں ورژن مل جائیں گے۔ رجب علی کی آواز میں ایک بہت مشہور قوالی ہے،‘اسیاں قلندر دیوانے لجپال دے’۔ یہ قوالی ہدایتکار اسد بخاری کی سپر ہٹ پنجابی فلم‘آسوُبلا’کی ہے۔ اسی سال یعنی 1971 کی ایک اور سُپر ہٹ فلم ہدایتکار رنگیلہ کی اردو فلم‘دل اور دنیا’ہے۔ ہدایتکار ایس اے بخاری کی اردو فلم‘ آنسو’بھی1971 میں ریلیز ہوئی۔ یہ اداکار شاہد حمید جنہیں محض شاہد کے نام سے جانا جاتا ہے (ٹی وی اینکر کامران شاہد کے والد) کی پہلی فلم تھی۔ اسکا سکرپٹ ریاض شاہد نے لکھا تھا جو ان کے اپنے ہی ناول‘اندھی جوانی’پر مبنی تھا۔ ریاض شاہد ہی کے سکرپٹ پر ہدایتکار ہمایوں مرزا کی اردو فلم‘خاک اور خون’اسی سال ریلیز ہوئی۔ اس میں محمد علی ہیرو اور شمیم آرا ہیروئن تھیں۔ اس فلم نے باکس آفس پر اوسط درجے کی کارکردگی دکھائی مگر قتیل شفائی کا لکھا ہوا دوگانہ ‘زندگی اپنی گزر جائے گی آرام کے ساتھ’نور جہاں اور رجب علی کی آوازوں میں آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ اُسی سال ڈھاکہ میں بنائی گئی ہدایتکار نور الحق کی اردو فلم‘جلتے سورج کے نیچے’ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ندیم نے ٹرپل رول کیا تھا۔ ہدایتکار شریف نیئر کی فلم‘دوستی’بھی اُسی سال ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی شوٹنگ پاکستان کے شمالی علاقوں اور برطانیہ میں ہوئی تھی اور اس اردو فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کادرجہ حاصل کیا۔

بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے بعد بہت سارے بااثر فنکار پاکستان کو چھوڑ کر بنگلہ دیش منتقل ہوگئے اور پاکستان کی ڈھاکہ فلمی صنعت تک رسائی بھی ختم ہوگئی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی پہلی رنگین فلم اور پہلی سنیما سکوپ فلم مشرقی پاکستان میں تخلیق ہوئی تھیں۔ ظہیر ریحان جیسے متعدد باصلاحیت تخلیق کاروں کو کھو جانے اور ایک بڑی مارکیٹ اور پروڈکشن سینٹر سے محروم ہو جانے سے پاکستانی فلموں اور ثقافت کا بہت نقصان ہوا۔ آصف نورانی، جو 1963 سے 1970 تک پاکستان کے سب سے زیادہ چھپنے والے انگریزی فلم میگزین Eastern Films کے مُدیر تھے، کے مطابق پاکستان کی فلمی صنعت کو لگنے والے اس دھچکے پر کبھی تفصیل سے بات نہیں کی گئی۔

مختلف قومی انتظامیہ نے کبھی بھی فلم کی ثقافت کے لئے اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ تاہم، ریاستی اداروں نے ذاتی ایجنڈوں کو حاصل کرنے کے لیے، شعوری اور غیر شعوری طور پر فلم میڈیم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ اس لئے پاکستان کی سنیما انڈسٹری پروڈکشنز اور ان کی نمائش کے لیے ایک پائیدار ماڈل حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بہرحال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چند اہم ثقافتی نوعیت کے اقدامات کئے گئے۔ بھٹو نے وسیع پیمانے پر سوشلسٹ اصلاحات متعارف کرانے اور ملک کو ایک وسیع جمہوری آئین دینے کے لیے اپنی پارٹی کے عزم کا اعادہ کیا تھا اور بھٹو کے ابتدائی چند سالوں میں قوم کا مزاج کامیابی سے بدل گیا تھا، کیونکہ ملک ایک نئے پاکستان کا منتظر تھا۔ 1972 میں بھٹو کی حکومت نے عظیم شاعر فیض احمد فیض، جنہیں ثقافتی شناخت کی علامت سمجھا جاتاہے، کو وزارت ثقافت اور وزرات تعلیم کے لئے خصوصی مشیر مقرر کر کے اُنہیں پاکستان کی پہلی کلچر پالیسی تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ تاکہ نہ صرف ثقافت کے تصور کو واضح کیا جائے بلکہ اسے حاصل کرنے کے لئے ضروری آلات کا مجموعی جائزہ بھی پیش کیا جائے۔ فیض احمد فیض نے ثقافتی پالیسی لکھنے کا ابھی کام شروع کیا ہی تھا کہ انہوں نے اس وقت کے وزیر حفیظ پیرزادہ سے اختلافات کے باعث وزارت تعلیم و ثقافت کے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ بہرحال فیض کی فکر کے مطابق بھٹو کی حکومت نے 1974میں ایک سرکاری ادارہ نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (NAFDEC) کے قیام کا اعلان کیا، جس کے بنیادی مقاصد میں نیشنل فلم اکیڈمی کا قیام، معیاری فلموں کی نمائش، سنیما گھروں کو جدید آلات کی فراہمی، اسٹوریج اور ترسیل، معیاری سنیما گھروں کا قیام اور کراچی میں فلم اسٹوڈیوز کی بحالی کے علاوہ فلم ورکرز کے بنیادی حقوق کا تحفظ شامل تھا۔ لاہور میں الحمراء،جو پاکستان میں ماڈرن تھیٹرکی بنیاد ثابت ہوا، کا قیام بھی اس کلچر پالیسی کے تحت ہوا۔

1972میں 50 پنجابی، 38 اردو، 7 پشتو اور 2 سندھی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ مرزا ہادی روسوا کے ناول‘اُمراؤجان ادا’پر برصغیر میں متعدد فلمیں بنی ہیں۔ ایسی ہی ایک فلم ہدایتکار حسن طارق کی‘اُمراؤجان ادا’1972 میں ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اسی سال ہدایتکار اسلم ڈار کی پنجابی فلم ‘بشیرا’بھی ریلیز ہوئی۔ یہ پنجاب اور سرحد میں ہٹ ہونے کے ساتھ کراچی سرکٹ میں بھی بہت کامیاب ہوئی۔ یہ انتہائی تشدد بھری فلم ،پنجابی فلموں کی تبدیلی کاباعث بنی اور اسے ایک ٹرینڈ میکر فلم سمجھا جاتاہے۔ اس میں ٹائٹل رول کرنے والے سُلطان راہی اتنے کامیاب ہوئے کہ 1996 میں ان کے قتل تک ان کا کوئی ثانی سامنے نہ آیا۔ اسی سال کی ایک اور کامیاب ترین پنجابی فلم ‘ظلم دا بدلہ’تھی۔ اسے ہدایتکار کیفی نے بنایا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ‘مولاجٹ’بنانے کے لئے انسپائریشن تھی۔ 1972 ہی کی ایک سپرہٹ اردو فلم‘بہارو پھول برساؤ’بھی تھی۔ اسے ہدایتکار ایم صادق نے بنایا تھامگر فلم مکمل ہونے سے پہلے وہ فوت ہوگئے ،اس لئے فلم کو ہدایتکار حسن طارق نے مکمل کر کے ریلیز کیا۔ اسی سال نذر الاسلام کی ہدایات میں بنائی گئی اردو فلم‘احساس’ بھی ریلیز ہوئی۔ اسے فلمی صحافی الیاس راشدی(نگار ایوارڈز والے) نے پرڈیوس کیا تھا اور یہ سلور جوبلی ثابت ہوئی اور اسے تین نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ہدایتکار پرویز ملک کی اردو فلم‘میرے ہمسفر’اور ہدایتکار ایس سلیمان کی اردو فلم‘سبق’بھی اسی سال ریلیز ہوئیں اور دونوں نے گولڈن جوبلی کادرجہ حاصل کیا۔

1973 میں متفقہ آئین منظور ہوا۔ آئین اردو کو پاکستان کی قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے صوبوں کو اردو کے ساتھ صوبائی زبانوں کو فروغ دینے کا کہتا ہے۔ اس سال پاکستان کی پہلی سرائیکی زبان میں بنائی گئی فلم ہدایتکار عنائت حُسین بھٹی کی‘دھیاں نمانیاں’ریلیز ہوئی۔ اس کے علاوہ 46 پنجابی، 38 اردو، 7 پشتو اور 3 سندھی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اسی سال کرشن چندر کے مزاحیہ ناول‘ایک گدھے کی سرگزشت’پر مبنی ہدایتکار سید کمال کی اردو فلم‘انسان اور گدھا’پر پابندی لگادی گئی۔ تاہم ایک مہینہ بعد یہ پابندی ختم کردی گئی۔ اس سال کی سپر ہٹ پنجابی فلموں میں ہدایتکار افتخار خان کی‘جیرابلیڈ’، ہدایتکار اقبال کاشمیری کی‘بنارسی ٹھگ’اور‘ضدی’ہیں۔ سپر ہٹ اردو فلموں میں ہدایتکار شباب کیرانوی کی‘دامن اور چنگاری’، ہدایتکار پرویز ملک کی‘انمول’، ہدایتکار کے خورشید کی‘گھرانہ’اور ہدایتکار اقبال اختر کی‘نادان’ہیں۔‘نادان’کا سکرپٹ اداکار رحمان نے لکھا تھا اور اس فلم کی وجہ سے اداکار ندیم کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔

1974 میں کل 115 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ جن میں ہدایتکار اسلم ڈار کی‘دل لگی’، ہدایتکار شباب کیرانوی کی‘آئینہ اور صورت’اور ہدایتکار اقبال اختر کی‘پھول میرے گُلشن کا’جیسی سپر ہٹ فلمیں ہیں۔ 1974 میں ہی ہدایتکار حیدر چوہدری کی پنجابی فلم‘نوکر ووہٹی دا’ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان میں اب تک کی سب سے مشہور فلموں میں سے ایک سمجھاجاتا ہے۔ بھارتی ہدایتکار راجکمار کوہلی نے 1983 میں‘نوکر بیوی کا’کے نام سے اس کا ریمیک بنایا اور دھرمیندر نے منور ظریف والا رول کیا۔ اسی سال یعنی 1974 میں ہدایتکار رحمت علی کی بلیک اینڈ وائٹ پنجابی شہوت انگیز ایکشن فلم‘خطرناک’ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا مرکزی خیال امریکن مصنف زین گرے کے 1914 کے ناول The Lone Star Ranger سے لیاگیا تھا۔ باکس آفس پر کامیاب ہونے کے باوجود شہوت انگیز رقصوں کی وجہ سے اس فلم کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی سال‘مٹی کے پتلے’ریلیز ہوئی ،جس کے ہدایتکار احتشام اور ندیم پروڈیوسر تھے اور دونوں نے مل کر اس کا سکرپٹ لکھا تھا۔ فلم کی کہانی مزدوروں کی جدوجہد اور حقوق کے گرد گھومتی ہے۔ یہ ایک آرٹ فلم تھی اور اسے ماسکو فلمی میلے میں ایوارڈ ملا تھا۔شمیم آرا نے ٹیلی ویژن اشتہارات پر کام کرنے والی بابرہ شریف کو اپنی فلم‘بھول’کے لیے سائن کیا ،جس کے ہدایت کار ایس سلیمان تھے۔ اسی دوران ایس سلیمان نے بابرہ شریف کو اپنی فلم‘انتظار’کے لیے بھی سائن کر لیا، یہ دونوں اردو فلمیں 1974 میں ریلیز ہوئیں۔ بھٹو دور میں قومی ثقافتوں کی طرف خاص توجہ دی گئی اور تخلیق کار عزم اور خلوص کے ساتھ علاقائی اور صوبائی زبانوں کے لئے کام کرتے رہے۔ اس سال 7 پشتو، 3 سندھی، 1 سرائیکی، 1 گجراتی اور ایک ڈبل ورژن پنجابی اور سندھی زبان کی فلم بھی ریلیز ہوئیں۔ اس سال فیض احمد فیض نے ڈھاکہ کا دؤرہ کیا اور واپسی پر اپنی مشہور نظم‘ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد’لکھی۔

1975 میں ریلیز ہونے والی 111 فلموں میں ایک ہدایتکار ممتاز علی خان کی ڈبل ورژن فلم‘دُلہن ایک رات کی’ہے۔ اسے اردو اور پشتو میں بنایا گیا تھا اور یہ اداکار بدرمنیر کی پہلی اردو فلم تھی۔ یہ اس سال کی کامیاب ترین فلموں میں ایک ہے۔ اسی سال اردو کے معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا افسانہ‘گنڈاسا’پر مبنی ہدایتکار حسن عسکری کی پنجابی فلم‘وحشی جٹ’ریلیز ہوئی۔ یہ فلم سلطان راہی کی کامیاب ترین فلموں میں سے ہے۔ سعادت حسن منٹو کے افسانہ‘ممی’پر مبنی ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم‘اک گناہ اور سہی’اور امریکی مصنف ایریک سیگل کے ناول Love Story پر مبنی ہدایتکار شباب کیرانوی کی اردو فلم‘میرا نام ہے محبت’بھی 1975 میں ریلیز ہوئی تھیں۔‘میرا نام ہے محبت’سے پاکستان کو غلام محی الدین جیسا ہیرو مل گیا۔ اس فلم کا مہدی حسن کی آواز میں گیت‘پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے’کو بھارتی ہدایتکار لارنس ڈی سوزا نے 1993 میں اپنی فلم‘دل تیرا عاشق ہے’کے لئے ریکمپوز کروایا۔ اسی سال یعنی 1975 میں ہدایتکار اکرم خان کی پنجابی فلم‘خان زادہ’، ہدایتکار پرویز ملک کی اردو فلم‘پہچان’اور ہدایتکار اقبال کاشمیری کی پنجابی فلم‘شریف بدمعاش’جیسی سپر ہٹ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔

1976 میں ریلیز ہونے والی 108 فلموں میں ہدایتکار نذر شباب کی‘شبانہ’، ہدایتکار ایس سلیمان کی‘آج اور کل’اور ہدایتکار پرویز ملک کی ‘تلاش’ہیں۔ اُسی سال پاکستان میں پہلی بلوچی زبان کی فلم‘عماع ماہ گنج’اسلم بلوچ اور انور اقبال نے بنائی۔ کہاجاتا ہے کہ ثقافتی کارکنوں اور بعض بلوچ راہنماؤں کے اعتراضات کے باعث یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ بہرحال فروری 2017 میں کراچی میں بلوچ کلچر ڈے پر اسے دکھایا گیا۔ انگریزی زبان میں بنائی گئی پاکستان کی پہلی فلم Beyond the Last Mountain بھی اسی سال یعنی 1976 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کاسکرپٹ جاوید جبار نے لکھا تھا اور ہدایات بھی ان کی تھیں اور نیف ڈیک نے پرڈیوس کیاتھا۔ اس فلم کو‘مسافر’کے نام سے اردو میں بھی ریلیز کیا گیا تھا۔ اس سال پاکستانی فلمی صنعت کو دو خاتون ڈائریکٹرز ملیں ،جنہوں نے آگے جاکر پاکستانی سنیما کو بہت تقویت بخشی۔ ہدایتکارہ شمیم آرا کی‘جیو اور جینے دو’بھارتی فلموں‘شعلے’اور‘دیوار’کا مکسچر تھی اور فلم بینوں نے اسے مسترد کر دیا، مگر بعد میں شمیم آرا ء نے بہت کامیاب فلمیں تخلیق کیں۔ سنگیتا کی بطور ہدایتکارہ پہلی فلم‘سوسائٹی گرل’تھی ۔اس میں انہوں نے کام بھی کیاتھا اور یہ فلم کامیاب تھی۔ اسی سال یعنی 1976میں ہدایتکار کیفی کی پنجابی فلم‘جگا گجر’اور امریکی فلم The Godfather اور انڈین فلم‘دھرماتما’کی نقل ہدایتکار اقبال یوسف کی اردو فلم‘انداتا’ریلیز ہوئیں۔ سعادت حسن منٹو کے افسانہ‘لائسنس’سے ماخوز ہدایتکار اسلم ایرانی کی پنجابی فلم‘لائسنس’بھی اسی سال ریلیز ہوئی اور اس کا شمار کامیاب فلموں میں ہوتا ہے۔ منٹو کے اسی افسانے سے انسپائر ہو کر 1957 میں بھی ایک فلم بنائی گئی تھی۔‘The Western’ایک فلمی صنف ہے ،جو خاموش فلموں کے دور سے ہی موجود ہے مگر یہ صنف 1945 اور 1965 کے درمیان اپنے عروج پر پہنچی۔ کہا جاتا ہے کہ اس صنف سے تعلق رکھنے والی فلموں کا ہالی وڈ کے اسٹوڈیوز کی پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ شامل تھا۔ پاکستان میں ہدایتکار ایس اے حفیظ کی ویسٹرن اردو فلم‘آنسو اور شعلے’کے نام سے 1976میں ریلیز ہوئی۔ عام پاکستانی فلموں کے برعکس اس میں صرف ایک گیت تھا۔ اس میں غلام محی الدین اور بابرہ شریف نے کام کیا تھا۔ ان دونوں کی ان دنوں بہت مقبولیت تھی مگر فلم بینوں نے اس فلم کو خاص پسند نہیں کیا تھا۔ اداکار منور ظریف جن کا شمار جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے مزاح نگاروں میں کیا جاتاہے، 1976 میں محض 36 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ یہ فلمی صنعت اور فلم بینوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ اسی سال پاکستان ٹیلی ویژن کی رنگین نشرعات کا آغاز ہوا۔

1977 تک پاکستان میں 700 سنیماگھر اور 8 فلم سٹوڈیوز بن چکے تھے۔ اس سال سارے ملک میں سیاسی بے چینی تھی اور جولائی میں بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کر دیاگیا اور جنرل ضیاء نے مارشل لاء نافذ کر کے کئی بنیادی آزادیوں کو سلب کر کے اسلامائزیشن کا سلسلہ شروع کیا۔اس سماجی اور سیاسی تبدیلی کے اولین متاثرین میں سے ایک فلم انڈسٹری بھی شامل تھی۔ اس سال صرف 80 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی بلاک بسٹر فلم ہدایتکار نذرالاسلام کی‘آئینہ’اس سال مارچ میں ریلیز ہوئی اور 401 ہفتوں تک سنیما گھروں میں متواتر چلتی رہی۔ روبن گھوش کے کمپوز کئے گئے آٹھ دلکش گانوں کی جدت سے کی گئی فلمبندی کو فلم بینوں نے بہت سراہا۔ اس فلم کا ریمیک بھارتی ہدایتکار وجے سدھانا نے‘پیار جھکتا نہیں’کے نام سے بنا کر جنوری 1985 میں ریلیز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ‘آئینہ’خود بھارتی ہدایتکار گلزار کی فلم‘آندھی’کی نکل تھی۔ ہدایتکار حسن عسکری کی پنجابی فلم‘قانون’، ہدایتکار عزیز تبسم کی پشتو فلم‘احساس’اور ہدایتکار کیفی کی اردو فلم‘روٹی کپڑا اور مکان’بھی اسی سال یعنی 1977 میں ریلیز ہوئیں تھیں۔ اسی سال ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم‘بیگم جان’بھی ریلیز ہوئی۔ یہ ان کی اپنی فلم‘نیند’کا ریمیک ہے۔ یہ ایک ایسی غریب پٹھان خاتون کی کہانی ہے جو گھر گھر جاکر کپڑے بیچتی ہے اور شادی کے بغیر ایک بچے کو جنم دیتی ہے۔ سینسر بورڈ نے اس کے کئی مناظر کاٹ دیئے اور اسے بعض علاقوں میں ریلیز ہونے کی اجازت نہ دی۔ 1977 میں ایک بار پھر ویسٹرن فلم بنانے کا تجربہ کیا گیا، مگر ہدایتکار اقبال کاشمیری کی اردو فلم‘شاہین’کو بھی فلم بینوں سے پذیرائی نہ ملی۔ فرانسیسی ادیب وکٹرہیوگو کے مشہور ناول Les Misérables پر مبنی ہدایتکار حسن عسکری کی فلم‘سلاخیں’بھی اسی سال ریلیز ہوئی۔ یہ فلم لاہور کے سرکٹ میں سلور جوبلی اور کراچی کے سرکٹ میں گولڈن جوبلی ثابت ہوئی۔ اس ناول پر بھارت میں 1950 میں ہدایتکار سہراب مودی نے‘کندن’کے نام سے فلم بنائی تھی۔

1978 میں 7 افراد نے مل کر ادکارہ شبنم اور موسیقار روبن گھوش کے گھر پر مسلح ڈکیتی کی اور شبنم کا گینگ ریپ کیا۔ اداکارہ شبنم نے مقدمے میں بااثر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے جن افراد کو نامزد کیا تھا ان میں ایک فاروق بندیال تھے۔ اس وقت کے چیف سیکریٹری پنجاب فتح خان بندیال مُلزم فاروق بندیال کے ماموں اور ان چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے والد تھے ،جن کا عمران خان کو کہا ہوا جملہ‘گڈ ٹو سی یو’بہت مشہور ہوا۔ ملزمان مقامی پولیس پر اثر انداز ہونے میں کامیاب رہے اور ابتدائی رپورٹ میں گینگ ریپ کا ذکر نہ ہونے دیا۔ ملزمان پر خصوصی فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور فاروق بندیال اور دیگر چار افراد کو ڈکیتی کے جرم میں سزائے موت سنائی مگر بعد میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا اور کچھ عرصہ بعد مجرمان کو رہا کر دیاگیا۔ یہ واقع فلمی صنعت کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ فاروق بندیال نے 2018 میں عمران خان کی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن اسی دن سوشل میڈیا پر ڈکیتی اور گینگ ریپ میں ملوث ہونے کی خبریں سامنے آنے کے بعد انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

اسی سال یعنی 1978میں فوجی حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر مبشر حسن کی لکھی ہوئی تمام کالج کی نصابی کتابوں پر پابندی لگا دی اور کتابوں کو بڑی دکانوں سے زبردستی اٹھا لیا۔اس سال 100 فلمیں ریلیز ہوئیں۔جن میں ہدایتکار ظفر شباب کی‘آواز’، ہدایتکار نذر السلام کی‘امبر’اور ہدایتکار پرویز ملک کی‘انتخاب’جیسی کامیاب فلمیں ہیں۔ اس سال گلوکار اے نیر کی آواز میں گانا‘یہ دُنیا ہے اک پلے، میں ہوں پلے بوائے’نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا تھا۔ یہ گانا ہدایتکارہ شمیم آرا کی فلم‘پلے بوائے’کا ہے۔ اس فلم کو شمیم آرا نے پرڈیوس بھی کیا تھا اور اس کی شوٹنگ انگلینڈ میں کی گئی تھی۔ راجندر سنگھ بیدی کو اردو فکشن کے سرکردہ ترقی پسند مصنفین میں سمجھاجاتا ہے۔ ان کے مشہور ناول‘اک چادر میلی سی’پر مبنی ہدایتکارہ سنگیتاکی اردو فلم‘مُٹھی بھر چاول’بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں مشرقی پنجاب کا ماحول دکھایا گیااور سنگیتا نے حقیقت کا رنگ دینے کے لئے فلم کی شوٹنگ کے لئے لاہور کے باری اسٹودیو کے پیچھے خالی زمین پر ایک گاؤں بنوایا۔ یہ فلم معیاری ہونے کے باوجود کاروباری لحاظ سے فلاپ ہوئی تھی، تاہم اسے متعدد نگار ایوارڈز ملے تھے۔ راجندر سنگھ بیدی کے اس ناول پر بھارت میں بھی ہدایتکار سُکھونت ڈھڈا نے‘اک چادرمیلی سی’کے نام سے 1986 میں فلم بنائی تھی۔

جنرل ضیاء کے مارشل لاء نے معاشرے کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی نفسیات پر گہرے داغ چھوڑے۔ سیاسی مواد پر سخت پابندیوں کے علاوہ ادبی جرائد کو بھی برداشت نہیں کیاگیا تھا۔ پنجابی کے معروف شاعر فخر زمان کے اردو ماہنامہ‘بازگشت’اور پنجابی ہفتہ وار‘ونگار’پر بھی فوجی حکومت نے پابندی لگا دی تھی۔ حکومت نے نگار ایوارڈ کے عورت والے مجسمے کے ڈیزائن کو متنی ڈیزائن میں تبدیل کر دیا۔ ایک طرف اسلامائزیشن کی وجہ سے عورتوں کاسنیما گھروں میں جانا معیوب سمجھاجانے لگا اور دوسری طرف وی سی آر کی وجہ سے لوگوں کی سنیماگھروں میں حاضری بہت کم ہو گئی اور فلم پائریسی کی صنعت کا جنم ہوا۔ ساتھ ہی رومانوی فلموں کی جگہ تشدد زدہ فلموں نے لے لی اور‘گنڈاساکلچر’کو پروموٹ کیا گیا۔ بعض سنیمامالکان نے مغربی شہوت انگیز فلموں کے ٹُکڑے چلا کر ناظرین کو سنیماؤں میں لانے کی کوشش کی اور بعض پشتو فلم میکرز نے اپنی فلموں میں سافٹ کور پورنو گرافی کو شامل کیا، جس نے سنیماکلچر کو بہت نقصان پہنچایا۔ 4اپریل1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی۔ اس سال موشن پکچرز آرڈیننس کے ذریعے فلموں پر سنسر شپ کا ایک بہت برا دور شروع ہوا۔ حکومت نے اسلامائزیشن، قومی سلامتی اور عوامی اخلاقیات کے تحفظ کے نام پر فلمی صنعت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فلم کمپنیوں کی رجسٹریشن کے لیے نئے قوانین نافذ بھی کئے اور سنیما گھروں کے لئے ٹیکس کی نئی شرحوں کو لگایا ،جس نے فلم انڈسٹری کو تباہی سے دوچار کیا۔ آئرنی یہ ہے کہ ضیاء خود فلمیں دیکھنے کے شوقین تھے اور بیشتر فلمیں وہ صدارتی محل میں دیکھا کرتے تھے۔ اُن کے دور میں دو بھارتی فلموں‘نورجہاں’اور‘کشش’کو پاکستان میں سنیماؤں میں نمائش کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ بھارتی اداکار شتروگھن سنہا کا جنرل ضیاء کے گھر بہت آناجانا تھا۔

اس سال یعنی 1979 میں کل 99 فلمیں ریلیز ہوئیں، ان میں سے ایک ہدایتکار رنگیلا کی اردو فلم‘عورت راج’تھی۔ صحافی ندیم ایف پراچہ کا روزنامہ‘ ڈان’ میں17 اگست 2014 میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق یہ پاکستان کی پہلی فیمینسٹ فلم تھی۔ اس فلم نے جب سلور جوبلی منالی تو جنرل ضیاء کی حکومت کو خیال آیا کہ یہ فلم تو حقوق نسواں کی حمایت کر رہی ہے ،لہٰذا فلم پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اردو ناول نگار شریف حسین(تخلص نسیم حجازی) نے تاریخی حالات کو اپنے ناولوں کے پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ناول‘خاک اور خون’1947 میں ہند کی تقسیم کے وقت مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان مذہبی کشیدگی کی وجہ سے ہونے والے فسادات کے متعلق ہے۔ہدایتکار مسعود پرویز کی اس ناول پر مبنی ناول کے نام سے ہی بنی فلم 1979 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم پر نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک) نے سرمایہ لگایاتھا۔ اس نے باکس آفس پر اوسط کارکردگی ہی دکھائی مگر اسے 8نگار ایوارڈز ملے تھے۔ ہدایتکار پرویز ملک کی اردو فلم‘پاکیزہ’، ہدایتکار ارشد مرزا کی پنجابی فلم‘جٹ سورما’، ہدایتکارہ شمیم آرا کی اردو فلم‘مس ہانگ کانگ’، ہدایتکار حیدر چوہدری کی پنجابی فلم‘دبئی چلو’، ہدایتکارمنیر ملک کی پشتو فلم‘انجمن’، ہدایتکار ممتاز علی خان کی اردو فلم‘گہرے زخم’اور پاکستان کی سب سے مشہور فلم ہدایتکار یونس ملک کی پنجابی فلم‘مولاجٹ’بھی اسی سال ریلیز ہوئیں۔ ‘مولا جٹ’ میں مرکزی کردار کو ایک ایسے منصف انسان کے طور پر دکھایا گیا جو غریب اورمظلوم عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے پنچایت کے ذریعے بھی انصاف کے لئے آواز بلند کرتا ہے اور ظلم کے خلاف ہتھیار بھی اٹھاتا ہے۔ ولن یعنی‘نوری نت’ کی زندگی کا واحد مقصد طاقت، نفرت اور مارکٹائی کے ذریعے مکمل کنٹرول حاصل کرناہے۔ فلم میں ریاستی ادارے پولیس کو منفی دکھایا گیا۔ ضیاء حکومت نے‘مولا جٹ’ کو ریاست کے خلاف جانا ،لہٰذا ریلیز کے بعد‘جنسی مواد اور تشدد’ کو جواز بنا کر اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ تاہم پروڈیوسر سرور بھٹی اسٹے آرڈر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کچھ دیر بعد حکومت نے بھی اسٹے آرڈر لے لیا اور یہ آنکھ مچولی کا سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا۔ بہرحال اس فلم نے بہت کاروبار کیا اور اڑھائی سال سنیما گھروں میں متواتر چلتی رہی۔ اس کے ڈائیلاگ آج بھی مزے لے کر بولے جاتے ہیں۔ ناصر ادیب کے اس سٹوری پلاٹ پر بھارتی ہدایتکاروں جگجیت گل نے‘پت جٹاں دے’اور راجکمار کوہلی نے‘جینے نہیں دونگا’کے نام سے قسمت آزمائی کی۔ سماجی سائنس کی روشنی میں یہ بہت دلچسپ ہے کہ پنجاب اور دیہی سندھ جہاں بھٹو کی زبردست مقبولیت تھی، وہاں‘مولاجٹ’نے بہت اچھا کاروبار کیا اور کراچی اور بلوچستان جہاں بھٹو غیر مقبول تھے، وہاں یہ فلم بھی غیر مقبول ہوئی۔

(اس مضمون کی تیاری کے لئے مظہر اقبال کامنفرد آن لائن ڈیٹابیس‘‘پاکستان فلم میگزین’’، یاسین گوریجہ کی اردو کتاب‘‘پاکستان کی 100شاہکار فلمیں’’، مشتاق گزدار کی انگریزی کتاب‘‘پاکستان سنیما 1947-1997’’، آن لائن ڈیٹابیس IMDbاور بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فاروق سلہریا کے مختلف مضامین سے حوالہ جات لئے گئے ہیں۔)

Toni Usman
+ posts

ٹونی عثمان اداکار، ہدایت کار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے پرانے ساتھی ہیں اور’مزدور جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔