نقطہ نظر

اسمعیل ہنیہ، ایمان خلیف اور پاکستانی معاشرے کا سرکاری تعفن

فاروق سلہریا

اسمعٰیل ہنیہ کی ایران میں افسوسناک موت پر ایک جانب پاکستانی میڈیا اور یوٹیوبرز ماہرانہ تبصرے کر رہے ہیں۔دوسری جانب، سوشل میڈیا پر اس موت کی ذمہ ادری ایران کے اوپر ڈال کر شدید قسم کی فرقہ واریت پھیلائی جا رہی ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ ایران نے اسمعٰیل ہنیہ کے ساتھ دھوکا کیا، انہیں بطور مہمان بلایا اور جان سے مار ڈالا۔ اس میں شک نہیں کہ پاسداران انقلاب میں موجود بعض افراد کی مدد کے بغیر یہ واردات ممکن نہ تھی لیکن یہ بات قرین قیاس نہیں کہ ایرانی ریاست نے ایسا کیا ہو۔ ایران کے لئے نہ صرف یہ واقعہ شدید سبکی کا سبب بنا ہے کیونکہ اسے دنیا بھر میں اسرائیل کی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اسرائیل نے جب بھی ایران میں اس قسم کی کاروائی کی، اسے قبول نہیں کیا۔ اسمعیل ہنیہ کا ایک اہم سرکاری تقریب کے موقع پر تہران میں یوں مارے جانا ایرانی سیکیورٹی کے منہ پر اسرائیلی طمانچہ ہے۔ ایران کو یہ بات معلوم ہے۔ دنیا بھر میں اس واقعہ کو اِسی طرح دیکھا جا رہا ہے۔

اس واقعہ نے ایران کی خود اعتمادی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب، خطے میں ایران کی پراکسی قیادت (حزب اللہ،حوثی، شام اور عراق کی قیادت)کو اسرائیل نے ایک خوفناک پیغام دیا ہے۔

ایران کے حکمران آیت اللہ بلا کے بے رحم ضرور ہیں مگر اتنے بیوقوف نہیں کہ اسمعٰیل ہنیہ کو گھر بلا کر خود موت کے گھاٹ اتار دیں اور نہ صرف اتنی بڑی بد نامی مول لیں بلکہ اندرون ملک و بیرون ملک مذاق بن کر رہ جائیں۔ انہیں یہاں تک معلوم ہو گا کہ اگر اسمعیل ہنیہ ایران کی سر زمین پر قدرتی موت کی وجہ سے بھی وفات پا جاتے تو ایران کو سبکی اٹھانی پڑتی۔

ان تمام تر حقائق کے باوجود،ابھی اسمعٰیل ہنیہ کاجنازہ بھی ادا نہیں ہوا تھا کہ(پاکستانی) سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ پوسٹس کی بھر مار ہو چکی تھی۔ ریاست نے جس جانفشانی سے فرقہ واریت کو پروان چڑھایا ہے، یہ اس کا ثمر ہے۔ خطر ناک بات یہ ہے کہ جن نفرتوں کا اظہار آن لائن ہوتا ہے، وہ آف لائن بھی موجود ہوتی ہیں۔ یہ نفرت کبھی کرم میں فسادات کی شکل اختیار کرتی ہے تو کبھی کوئی اور۔

اسی اثنا ء میں الجزائر کی باکسر ایمان خلیف دنیا بھر کی شہ سرخیوں میں ابھریں۔ پیرس میں جاری اولمپکس کے دوران،انہوں نے اپنے پہلے مقابلے میں صرف 43 سیکنڈز میں اپنی اطالوی حریف کو ناک آوٹ کر دیا۔کہا جا رہا ہے کہ ہار ماننے کی بجائے،اطالوی باکسر نے الزام لگا دیا کہ ایمان خلیف عورت نہیں،مرد ہے۔ اس واقعہ کے بعد، X کے رائٹ ونگ مالک ایلون مسک سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک، دنیا بھر کی رجعتی قوتوں نے ایمان خلیف کا یہ کہہ کر محاصرہ کر لیا کہ وہ عورت نہیں مرد ہے۔ وہ چار سال پہلے بھی اولمپک کھیل چکی ہیں۔ تب ہار گئیں تو کسی کو ان کا جینڈر یاد نہیں آیا۔ ہوا یہ تھا کہ عالمی باکسنگ چیمپئین شپ میں ان کے جینڈر کو مسئلہ بنایا گیا۔یہ ٹورنامنٹ روس میں ہوا۔ روس کا باکسر ایمان خلیف سے ہار گیا۔ اسے جتوانے کے لئے دھاندلی کی گئی۔ یہ دھاندلی بعد میں بے نقاب ہو گئی اور اس بار پھر اولمپک میں انہوں نے شرکت کی جس کے لئے جینڈر ٹسٹ بھی ہوا۔

اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نہ صرف ایمان خلیف عورت ہیں بلکہ ماضی میں بھی عالمی مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں۔تا دم تحریر، خوشی کی بات یہ ہے کہ تکنیکی اعتبار سے وہ میڈل حاصل کر چکی ہیں۔اولمپک باکسنگ میں سیمی فائنل میں پہنچ کر اگر کوئی باکسر ہار بھی جائے تو اسی کانسی کا تمغہ مل جاتا ہے۔ ہفتے کے روز ایمان خلیف نے کوارٹر فائنل جیت لیا۔ امید ہے وہ فائنل تک جائیں گی۔ راقم کی خواہش ہے کہ وہ گولڈ میڈل جیت کر ٹرمپ سے لے کر ایلون مسک تک،ہر ٹرانس فوبک کے منہ پر طمانچہ رسید کریں۔

جس طرح عورت دشمنی اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں اسی طرح ٹرانس فوبیا اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں۔مزید یہ کہ عالمی کھیلوں میں اکثر غیر سفید فام کھلاڑیوں کو اس قسم کی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امہ کی محبت میں گرفتار الباکستانی ایمان خلیف کے ساتھ کھڑے ہوتے۔مگر نہیں۔ الباکستانی،مڈل کلاس، دایاں بازو۔۔۔مظلوم،کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتے۔سچ اور جھوٹ بھی ان کے لئے اہم نہیں ہوتا۔کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران الباکستانی بھارت اور افغانستان سے اتنی نفرت کا اظہار نہیں کرتے جتنی نفرت کا اظہار پچھلے ہفتے ایمان خلیف سے کیا گیا۔

ایمان خلیف نے تمام ٹرانس فوبک الباکستانیوں کے منہ پر زور دار پنچ مارا ہے! جینڈر کی بناید پر نفرت کا بہترین جواب یہی ہو سکتا تھا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔