عمران کامیانہ
سارے لبرل، اصلاح پسندانہ و مرحلہ وارانہ لیفٹ کا خیال ہے کہ حالات کے ستائے کروڑوں لوگ تحریک چلانے سے پہلے اکٹھے ہو کر کسی مستند جوتشی سے تحریک کے مقدر کا حال پیشگی معلوم کریں یا کسی جدید سپر کمپیوٹر میں سارا سماجی، سیاسی، معاشی ڈیٹا ڈال کر مستقبل کا حساب لگائیں کہ آگے حالات اچھے ہوں گے یا برے۔
مسئلہ یہ ہے کہ نہ ایسے کسی جوتشی کا وجود ہے، نہ ایسی کوئی مشین انسان بنا پایا ہے (نہ کبھی بن سکتی ہے)۔ نہ ہی عوام سارا مارکسزم پڑھ کے تحریکوں میں اترتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ٹھوس طبقاتی و سوشلسٹ مطالبات پر بھی کوئی ”خالص“ انقلابی تحریک اٹھے،تو یہی اصلاح پسند اس کے سب سے بڑے دشمن ہوں گے کہ دیکھیں جی ابھی وقت نہیں ہے، ابھی حالات پک کر تیار نہیں ہوئے وغیرہ وغیرہ۔ بالشویک انقلاب سے لے کر آج تک کی تاریخ انہی حیلے بہانوں اور اعتراضات کی تاریخ ہے۔
عوام کو احمق اور بیوقوف سمجھنے کے معاملے میں آپ ان نام نہاد ترقی پسندوں کو فاشسٹوں سے بھی دو ہاتھ آگے پائیں گے۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے”انقلاب روس کی تاریخ“کے پہلے صفحات میں ہی بیان کیا تھا کہ خودرو تحریکیں نہ آپ کی مرضی سے اٹھتی ہیں، نہ آپ کے کہنے پر رکتی ہیں۔ حالات جب عوام کے لئے ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں تو جلد یا بدیر انہیں تاریخ کے میدان میں اترنا ہی ہوتا ہے۔ اس عمل میں پہلے سے موجود ہر چیز (سٹیٹس کو) چیلنج ہو جاتی ہیں۔ ان حالات (جنہیں مروجہ نظام کی سوچ اور نظریات میں قید دماغ کبھی سازش سمجھتے ہیں، کبھی شرارت، کبھی پاگل پن اور کبھی انتشار) میں پھر ہر طرح کے رجحانات اپنے ایجنڈے کیساتھ مداخلت کرتے ہیں۔
تحریکوں میں اتار چڑھاؤ بھی آتے ہیں۔ وہ پسپا اور ناکام بھی ہو جاتی ہیں۔ طاقتوں کے توازن سمیت بے شمار عوامل ان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آج بنگلہ دیش میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ اس سارے عمل سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور کیا سیکھتے ہیں؟
نظریاتی دیوالیے کے شکار اور مرحلہ واریت و”بتدریج ارتقا“کی حماقتوں میں غرق بائیں بازو کے لئے ہم اس سوال کا جواب پورے یقین سے دے سکتے ہیں: صفر۔
یہ لوگ 1968-69ء میں بھی تحریک میں سی آئی اے کی سازش ڈھونڈ رہے تھے۔ آج بھی مصر سے وینزویلا اور بنگلہ دیش تک یہی کر رہے ہیں۔ کمال کی مستقل مزاجی ہے جس میں کوئی بھی تحریک اٹھنے پر حکمران طبقے سے زیادہ ان کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔
تحریکیں چلیں گی۔ ناکام ہوں گی۔ حالات پہلے سے زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔ لوگ سیکھیں گے۔ ناکامی کی صورت میں بھی انقلابی قوتوں کو مقداری و معیاری حوالے سے تعمیر کے مواقع مل سکتے ہیں۔ جزوی یا کلی کامیابیاں بھی ملیں گی۔ تاریخ ایسے ہی آگے بڑھے گی۔ آخری تجزئیے میں انسان ہی تاریخ بناتے ہیں۔ وہ اگر ناکامی کے خوف سے بغاوتیں نہیں کریں گے تو ناکامی سے کہیں پہلے بربریت اور ذلت میں غرق ہو جائیں گے۔ جو کوئی تاریخ کے اس عمل کو سمجھنے سے قاصر ہے یا سمجھنا ہی نہیں چاہتا اس کی مناسب جگہ تاریخ کا کوڑے دان ہی ہے۔