خبریں/تبصرے

ایران، افغانستان اور پاکستان میں خواتین کی جدوجہد سے متعلق ویبینار

لاہور(جدوجہد رپورٹ) روزنامہ’جدوجہد‘ کے زیر اہتمام گزشتہ شام ’امید کا محور: ایران، افغانستان اور پاکستان میں خواتین کی جدوجہد‘ کے عنوان سے ایک عالمی ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔

ویبینار میں پاکستان سے عوامی ورکرز پارٹی پاکستان کی نائب صدر فرزانہ باری، جمعیت انقلابی زنان افغانستان(راوا) کی سابق ترجمان سحر صبا اور ایران سے مترجم اور سیاسی کارکن فریدہ آفرے نے گفتگو کی، جبکہ موڈریٹر کے فرائض فاروق سلہریا(مدیر جدوجہد) نے سرانجام دیئے۔

مقررین نے اس خطے میں خواتین کی جدوجہد پر روشنی ڈالی اور جدوجہد کی بنیاد پر ہی مستقبل میں بہتر زندگی اور سرمایہ دارانہ پدرشاہی کے خاتمے کی امید کا اظہار کیا۔

فریدہ آفرے نے گفتگو کرتے ہوئے ایران میں خواتین کی جدوجہد پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انکا کہنا تھا کہ ایرانی خواتین نے پدرشاہانہ جبر اور رجعت کے خلاف بہادری سے جدوجہد کی ہے اور قربانیاں دی ہیں۔ آج بھی ایرانی خواتین نہ صرف ایرانی سرزمین پر بلکہ عالمی سطح پر حقوق کی جدوجہد میں سرگرم ہیں۔ ایرانی خواتین کی جدوجہد ایران میں رجعتی طاقتوں کی حکمرانی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

سحر صبا نے اپنی گفتگو کا محور افغانستان کو ہی رکھا۔ انکا کہنا تھا کہ افغانستان میں 30سال قبل رجعت کی یلغار ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں خواتین سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا گیا تھا۔ آج 30سال بعد ایک مرتبہ پھر خواتین کو اسی تاریکی کا سامنا ہے۔ اس تاریکی کے ذمہ دار افغان عوام کو قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس کی ذمہ دار عالمی کمیونٹی اور سامراجی طاقتیں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ 20سال قبل سامراجیوں نے افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغان خواتین کو آزاد کروانے آئے ہیں۔ تاہم وہ انہیں تاریک قوتوں کو ایک مرتبہ پھر خواتین کی زندگیاں چھیننے کیلئے ان پر مسلط کر کے جا چکے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ آج افغانستان پر عورت دشمن قوتوں کی حکمرانی ہے۔ آج افغان خواتین سب سے مظلوم ہیں، انہیں زندگی کے تمام شعبوں سے نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جدوجہد ہی وہ راستہ ہے،جو افغان عورت کیلئے اس اندھیرے رات میں روشنی کی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔

فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ پدرشاہی کے عہد میں آج بھی پاکستان کی عورت دوسرے درجے کی شہری ہے۔ تعلیم سے لے کر صحت اور زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے مقابلے میں عورت پسماندہ ہے۔ مرد اگر کسی غیر ملکی عورت سے شادی کرے، وہ تو اس ملک کی شہری بن سکتی ہے۔ تاہم اگر کوئی پاکستانی عورت کسی غیر ملکی شخص سے شادی کرے تو اس کے شوہر کو شہریت نہیں دی جاتی۔

آج بھی فرسودہ رسوم باقی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل ہو، گھریلو تشدد ہو،یا جنسی زیادتی کے واقعات اس خطے کی عورت آج بھی ان مسائل سے نبرد آزما ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سب کے باوجود اب پاکستان میں خواتین جدوجہد کا راستہ اختیار کر رہی ہیں۔ حقوق نسواں کیلئے ایک جدوجہد منظم ہو رہی ہے۔ خواتین اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھا رہی ہیں اور جدوجہد ہی بقاء ہے۔

ویبینار کے ماڈریٹر فاروق سلہریا نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤں ارسلان شانی اور عاصمہ بتول کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات اور عاصمہ بتول کی گرفتاری سے متعلق معلومات فراہم کی اور ویبینار کے شرکاء نے مقدمات ختم کرنے اور عاصمہ بتول کو رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

فاروق سلہریا نے روزنامہ ’جدوجہد‘ کے قیام اور کام کرنے کے طریقہ کار پر بریفنگ دی اور شرکاء وبینارسمیت ناظرین سے اس ترقی پسند اخبار کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھنے اور مزید وسعت دینے کے حوالے سے فنڈکی اپیل بھی کی۔ انکا کہنا تھا کہ سوشلسٹ روایات کے مطابق روزنامہ ’جدوجہد‘ اپنے انقلابی ہمدردوں کی جانب سے دی گئی انفرادی مالی امداد سے چلایا جاتا ہے۔ یہ نہ تو کمرشل اشتہارات پر انحصار کرتا ہے اور نہ ہی کسی ریاستی و غیر ریاستی ادارے سے کسی قسم کی مالی مدد قبول کرتا ہے۔

ویبینار میں شرکاء نے مقررین سے سوالات بھی کئے۔ تینوں مقررین نے شرکاء کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے اختتامی کلمات ادا کئے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts