لاہور(جدوجہد رپورٹ) سابق ممبر قومی اسمبلی اور رہنما پی ٹی ایم علی وزیر کی نامعلوم تقریر نوابشاہ میں بھی نامعلوم افراد نے سن لی ہے۔ نامعلوم افراد کی جانب سے تقریر سننا علی وزیر کا جرم قرار دے کر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کا ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔یوں علی وزیر تھانہ نوشہروفیروز میں 5مارچ کو درج کی گئی اسی نوعیت کی ایف آئی آر میں ضمانت حاصل کرنے کے باوجود رہا نہیں ہو سکے۔
جمعرات کو نوشہرو فیروزمیں درج مقدمے میں علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد بھی ان کی رہائی ممکن نہ ہو سکی۔ ان کے ساتھیوں کو بتایا گیا کہ علی وزیر کے خلاف اب نوابشاہ میں مقدمہ درج ہو گیا ہے اور انہیں اس مقدمے کی وجہ سے جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔
نوابشاہ میں درج ایف آئی آر بھی سامنے آگئی ہے۔اے ایس آئی تھانہ ایئرپورٹ نوابشاہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آرنمبر35/2025 مورخہ 11 مارچ 2025کو درج کی گئی۔ اس ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ6اور 7سمیت پاکستان پینل کوڈ کی دفعات123A، 124A اور 124Bبھی شامل کی گئی ہیں۔
سندھی زبان میں تحریر کی گئی اس ایف آئی آر کا متن بھی نوشیرو فیروز کی ایف آئی آر کی طرح دلچسپ ہے۔ متن کے مطابق مدعی اے ایس آئی دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ پٹرولنگ کر رہے تھے، جب انہیں جاسوسی کے طور پر اطلاع ملی کہ 25/20افراد جمع ہیں۔ اطلاع ملنے پر وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ 25/20لوگ وہاں جمع تھے، جن میں سے ایک کے پاس ایک ہاتھ میں ٹیبلٹ اور دوسرے ہاتھ میں لاؤڈ اسپیکر تھا۔
متن کے مطابق ٹیبلٹ پر وہ ریاست کے حساس اداروں،ملکی سالمیت، پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز، گالم گلوچ والی اور بغاوت پیدا کرنے والی تقریر سن رہے تھے۔ تقریر کرنے والے شخص کو تصویر سے پہچانا، جس کا نام علی وزیر ولد مرزا عالم خان تھا۔
متن کے مطابق پولیس اہلکاروں کو دیکھ کر جمع لوگ وہاں سے بھاگ گئے، جن کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن نہیں ملے۔علی وزیر نے اس تقریر کے ذریعے جرائم6/7ATA، 124B، 124A، 123Aکا ارتکاب کیا ہے۔
واضح رہے کہ اسی متن پر 5مارچ کو نوشیرو فیروز تھانے میں اس وقت علی وزیر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، جب دیگر مقدمات میں ضمانت کے بعد ان کے ساتھی اور وکلاء انہیں جیل سے رہا کروانے پہنچے تھے۔ جیل پہنچنے پر وکلاء کو معلوم ہوا تھا کہ علی وزیر ایک اور مقدمے میں مطلوب ہیں، اس لیے انہیں رہا نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ روز بھی جب ان کی ضمانت منظور ہوئی تو معلوم ہوا کہ دو روز قبل ان کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اس ایف آئی آر کے مطابق بھی علی وزیر کی مبینہ تقریر سننے والے ملزمان نامعلوم ہیں اور تقریر کا کوئی ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ محض اے ایس آئی کی درخواست پر یہ مقدمہ درج کر لیا گیا۔
یاد رہے کہ علی وزیر 3اگست2024سے جیل میں ہیں، اور اس دوران ان کی متعدد مقدموں میں ضمانت کی درخواست منظور ہو چکی ہے اور انہیں ہر بار کسی نئے جعلی مقدمے میں دوبارہ گرفتاری ظاہر کر کے جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ علی وزیر نے اپنی آخری تقریر تقریباً 9ماہ پہلے کی تھی اور ریاست بضد ہے کہ آج بھی لوگ مختلف مقامات پر جتھوں کی شکل میں جمع ہو کر لاؤڈ سپیکر پر علی وزیر کی تقاریر لگا کر سن رہے ہیں۔