خبریں/تبصرے

یوکرین کے حق خودارادیت اور روسی حملے کے خلاف مزاحمت کا دفاع کرتے ہیں: فورتھ انٹرنیشنل

لاہور(جدوجہد رپورٹ) فورتھ انٹرنیشنل نے یوکرین کے حق خودارادیت اور روس کے حملے کے خلاف مزاحمت کا دفاع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فورتھ انٹرنیشنل کی 18ویں عالمی کانگریس میں بحث کے بعد ایک قرارداد منظور کی گئی ہے۔ یہ کانگریس23سے28فروری تک بلجیم میں منعقد ہوئی ہے۔ اس قرارداد کو سبکدوش ہونے والی آئی سی کی اکثریت نے پیش کیا اور اس کے حق میں 95ووٹ آئے، جبکہ 23نے مخالفت کی،3ووٹر غیر حاضر رہے اور 5ووٹ نہیں آئے۔

قرارداد درج ذیل ہے:

1۔ فروری 2022 میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ملک کو روس کی فرمانبردار ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش میں یوکرین پر مکمل حملے کا آغاز کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں پہلے ہی سینکڑوں ہزاروں ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم ماسکو کی حکومت طویل عرصے سے توسیع پسند عظیم روسی سامراجی نظریے کی خصوصیات رکھتی ہے، جو سپر پاورز کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے کو ہر ممکن طریقے سے بڑھانے، بین الاقوامی قانون کے قائم کردہ اصولوں کو چیلنج کرنے اور سامراجی تقسیم کے ایک نئے دور کو قانونی حیثیت دینے کے حق سے نوازتی ہے۔ اس طرح کریملن کے لیے اس جارحیت کی روزانہ بڑھتی ہوئی انسانی قیمت اسے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اور اس میں مزید شدت یوکرین کے لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے اہم ہے۔
2۔ کچھ دنوں میں کیف حکومت کو گرانے کے لیے ہونے والا ایک ’خصوصی فوجی آپریشن‘تین سال کی مکمل جنگ کی شکل میں موجود ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف پیوٹن کے لیے بلکہ مغربی طاقتوں کے لیے بھی غیر متوقع تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو انخلاء میں مدد کرنے کی پیشکش بھی کی۔ یہ بالکل یوکرین کی مزاحمت کا عزم اور لچک ہے جس نے آج تک پوٹن کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
3۔ یوکرین پر حملہ نہ صرف سرمایہ دارانہ مقابلے میں روس کے کردار کو دوبارہ ثابت کرنے کی ایک کوشش تھی بلکہ روسی معاشرے پر کنٹرول مضبوط کرنے اور تمام اختلاف رائے کو کچلنے کی دانستہ کوشش تھی۔ جنگ مخالف کارکنوں پر مقدمے چلائے گئے اور انہیں طویل قید کی سزا ئیں سنائی گئیں۔ سوشلسٹ تنظیموں، جیسا کہ روسی سوشلسٹ موومنٹ میں ہمارے ساتھیوں کوتحلیل ہونے پر مجبور کیا گیا، اور ان کے اراکین کو بھاگنا پڑا۔ تاہم فیمن اسٹ مسلسل متحرک ہوتی رہتی ہیں، لیکن وہ مسلسل دباؤ کے تحت یہ کام کر رہی ہیں، کیونکہ صرف’جنگ‘ کا لفظ کہنے پر بھی قید کیا جا سکتا ہے۔
4۔ بین الاقوامیت پسندوں کے طور پر ہم یوکرین کے حق خود ارادیت اور حملے کے خلاف مزاحمت کرنے کے حق کا دفاع کرتے ہیں۔ عوامی تحریکیں اس مزاحمت کا ایک لازمی حصہ ہیں، جو دو محاذوں پریعنی قابضین کے خلاف اور زیلنسکی حکومت کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس غیر مساوی لڑائی میں ہم ملک کی دیگر ترقی پسند قوتوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم تمام بین الاقوامی بائیں بازو سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یوکرین میں ٹریڈ یونینوں، حقوق نسواں اور سماجی اور جمہوری کارکنوں کے ساتھ سیاسی اور مادی یکجہتی پیدا کریں۔ بالکل اسی طرح جیسے فوتھ انٹرنیشنل یوکرین کے ساتھ یکجہتی کے یورپی نیٹ ورک (ENSU/RESU) کے فریم ورک کے اندر اور یوکرین کی بائیں بازو کی تنظیم ’سوتسیالنی رخ‘کے ساتھ مل کر جارحیت کے آغاز سے یہ کام کر رہی ہے۔
5۔ ایک بار پھر ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں یوکرین کی حکومت کی نوعیت میں کوئی وہم نہیں ہے۔ حکومت دائیں بازو کی اور نیو لبرل ہے، اور اقتدار میں رہنے کے لیے خوف کو متحرک کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ یہ ملکی سرمایہ داروں کو مطمئن کرنے کی اتنی ہی خواہش مند ہے،جتنا کہ مغربی طاقتوں کو ان کے مطالبات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت کا یقین دلانے کی خواہش مند ہے۔ اس حکومت کی سماج دشمن اور جمہوریت مخالف پالیسیاں یوکرین کے دفاع کے حوالے سے متضاد ہیں۔ یہ (حکمران)محنت کش طبقے کی ضروریات کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی ناراضگی کو ہوا دیتے ہیں، سماجی اعتماد کو مجروح کرتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں حکومت تیزی سے آمرانہ اقدامات پر انحصار کرتی ہے۔ یہ وقت پھر یوکرین کے اجرت کمانے والوں اور ان کی تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہونے کو زیادہ اہم بنا دیتا ہے۔ جب انہیں یکجہتی کی اشد ضرورت ہو تو ہم انہیں نہیں چھوڑ سکتے، خاص طور پر اگر ہماری آزادی کا وژن نیچے سے جدوجہد کا ہے، جہاں لوگ حکومت اور بڑی طاقتوں سے آزاد ہوکر لڑنے کے لیے اٹھتے ہیں۔
6۔ یوکرین پر روس کا حملہ سرمایہ داری کے عالمی بحران، بڑھتی ہوئی بین السامراجی کشیدگی، اور انتہائی دائیں بازو اور عسکریت پسندی کے عروج کا حصہ ہے۔ روسی حکومت یوکرین، آرمینیا، جارجیا اور قازقستان میں مداخلت کر رہی ہے، بشار الاسد کی رجعتی حکومت کی حمایت کر رہی ہے، اور افریقہ میں اپنی مداخلت بڑھا رہی ہے۔ امریکہ جنوبی امریکہ، ایشیا پیسیفک، یورپ اور افریقہ میں چالیں چل رہا ہے، اسرائیل کو مسلح کرتا رہتا ہے اور اس کی تمام جارحیتوں کی حمایت کرتا رہتا ہے۔ فرانس اپنے حصے کے لیے افریقہ میں قائم رہنے کی کوشش کر رہا ہے اور کاناک کی آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کو دبا رہا ہے۔ اس کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح پیوٹن کی جارحیت کی جنگ نے نیٹو کو عام طور پر دوبارہ زندہ کیا، جسے پہلے ’برین ڈیڈ‘ قرار دیا گیا تھا اور بڑی مغربی طاقتوں کو اسے مضبوط اور وسعت دینے کا موقع دیا ہے۔
7۔ روس کوحملے کے لیے اکسا کر مغربی حکومتیں مہنگائی اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے متاثر ہونے والوں کی حمایت کرنے کے لیے بے بس ہونے کا بہانہ کرتی ہیں، اس طرح وہ اس یکجہتی کو کمزور کرتی ہیں جس کی وہ اپیل کرتے ہیں۔ دریں اثنا دائیں بازو کی قوتیں یوکرینی پناہ گزینوں کو تیزی سے نشانہ بنا رہی ہیں یا انہیں دوسرے تارکین وطن کے خلاف کھڑا کر رہی ہیں۔
8۔یقینا امریکہ اور مغربی حکومتیں یوکرین کو جو حمایت دے رہی ہیں، وہ اینٹی کلونیل نقطہ نظر پر مبنی نہیں ہے۔ اسی طرح وہ اسرائیل کے کلونیل ازم پر بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔مغربی سامراجی طاقتیں اس جنگ کو اپنے روسی حریف کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، جبکہ ساتھ ہی ساتھ یوکرین کی امداد کی ضروریات کو اپنے ملکوں پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ تاہم ایسے وقت میں اس طرح کے ذرائع سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جب یوکرین کے لوگ اپنے دفاع کے لیے تمام ضروری وسائل کے مستحق ہیں، ہمارے لیے یہ ان کے رزق کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
9۔ اب یہ بائیں بازو پر منحصر ہے کہ وہ متحرک ہو جائیں اور مطالبہ کریں کہ یوکرین کے عوام کی حمایت غیر مشروط طور پر دی جائے، بجائے اس کے کہ وہ نیو لبرل اقدامات کو لاگو کرنے اور ان کو گہرا کرنے سے منسلک رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یوکرین کے قرضوں کی فوری اور مکمل منسوخی، لیبر قانون کے احترام اور عوامی خدمات کی بحالی، بڑے سرمایہ داروں کی دولت کی ضبطگی، بدعنوانی کے خلاف جنگ، یوکرائنی عوام کی مدد اور سامراجی طاقت کی مخالفت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
10۔ آج کے عالمی سطح پر ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ باہمی سٹریٹجک دوبارہ اسلحہ سازی کے پاگل پروگراموں کے خلاف مہم چلانی چاہیے۔ خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کی تجارت کے خلاف مہم چلانی چاہیے، جس کا رخ اکثر آمریتوں کی طرف ہوتا ہے۔ ہتھیاروں کی صنعت کے جمہوری کنٹرول (نیشنلائزیشن) کے لیے مہم چلانی چاہیے۔اسی طرح ہم نوآبادیات کا شکار لوگوں کے اپنے دفاع، بشمول ہتھیاروں کے ذریعے، کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔
11۔ جب ہم یہ سطریں لکھ رہے ہیں، روس نئے حملے شروع کر رہا ہے۔ پورے شہروں، بنیادی ڈھانچے اور ماحولیاتی نظام کی تباہی عظیم روسی سامراج کو مسلط کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ بچوں کا اغوا اور جلاوطنی، یوکرینی ثقافت کی تباہی، اور مقبوضہ علاقوں میں آزادیوں کو دبانا بھی اس تباہی کا حصہ ہے۔ پیوٹن یوکرین کو سزا دینے کی اپنی ضد پر کھلے عام قائم ہیں۔ وہ اپنے غیر قانونی علاقائی قبضے کو تسلیم کرنے، زیلنسکی کی ’ناجائز اور نازی‘ حکومت کی تبدیلی، یوکرین کی مسلح افواج میں زبردست کمی اور نیٹو کی رکنیت سے اجتناب کے مطالبات پر بھی قائم ہیں۔
12۔ یہ واضح ہے کہ مغرب میں انتہائی دائیں بازو کا ایک حصہ پیوٹن کے ساتھ ایک معاہدے کو ترجیح دے گا جو ان کے مشترکہ انتہائی رد عمل کے ایجنڈے کو بڑھا دے گا، اور یہ یوکرین کو بے اختیار اور منقسم چھوڑ کر روس کی نیو کالونی بن جائے گا۔ چین کی حکومت کریملن کو ٹھوس مدد فراہم کرتی ہے جبکہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے کے مطالبات کو مذاکرات کی تجاویز کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یورپی اور امریکی حکمران طبقے کا ایک حصہ بھی کسی وقت امن کی طرف راغب ہو سکتا ہے جس سے پیوٹن کو کچھ اطمینان تو ہو گا لیکن روس اور چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بحال ہو جائیں گے۔
13۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب یوکرینیوں کو جنگ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کا شکاری، تجارتی موقف، ملک کے معدنی اور نایاب زمین کے وسائل پر قبضے کے ذریعے یوکرین کو ماضی کی امداد کے لیے ’ادائیگی‘کا مطالبہ کرنااس منطق کی خاص طور پر ظالمانہ اور مکروہ مثال ہے۔
14۔خود ساختہ جنگ مخالف بائیں بازو کے حصے اس سے متفق ہیں اور یوکرین کو روس کے مستقل رحم و کرم پر چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی شرائط پر مبنی اور یوکرینی عوام کی مرضی کے خلاف مسلط کوئی بھی ’امن‘ مستقبل میں مزید قبضے اور تشدد کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اب بائیں بازو کے لیے وقت آگیا ہے کہ عوام کی شرکت اور کنٹرول کی بنیاد پر سیکیورٹی کے لیے اپنی قابل اعتماد حکمت عملی تیار کرے۔ یہ ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان ہونے والے بین السامراجی ’سودے‘ کے مقابلے میں پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔

اس جنگ کا واحد پائیدار حل درج ذیل طریقے حاصل کیا جا سکتا ہے:

٭الحاق کو تسلیم نہ کرنا اور روسی فوجیوں کا مکمل انخلا؛
٭کسی بھی سطح کے مذاکرات اور معاہدوں کو عوام کے جمہوری کنٹرول کے تابع کرنا؛ اور
٭مستقبل میں کسی بھی سامراجی تجاوزات کے خلاف اپنے دفاع کے لیے یوکرین کی صلاحیت کو یقینی بنانا۔

پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب اس کی کوئی بنیاد ہو:

٭یوکرین اور اس کی جزوی اقلیتوں کے حق پر کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا تعین کریں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دیں، بیرونی دباؤ، اولیگارچوں کے مفادات، نیو لبرل حکمران حکومتوں یا انتہائی دائیں بازو کے نظریات سے آزاد ہو کر؛
٭سیاسی، سماجی اور مزدوروں کے حقوق کے احترام پر، بشمول ہڑتال، پرامن اسمبلی، اور آزاد انتخابات کا حق؛
٭تمام پناہ گزینوں اور جنگ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کے حق پر کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں یا ان ممالک میں آباد ہوں جہاں وہ اس وقت مقیم ہیں۔
٭پیوٹن کی آمریت کو ختم کرنے اور تمام سیاسی قیدیوں اور جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر۔

ہم یوکرین میں جنگ کے خلاف اپنی لڑائی کو عسکریت پسندی اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جنگ کے خلاف جنگ اور بین الاقوامی یکجہتی کی ضرورت ہے:

٭تمام فوجی بلاکس کو ختم کرنا (نیٹو، سی ایس ٹی او، اوکوس، وغیرہ)؛
٭تمام اقوام کی برابری پر مبنی بین الاقوامی تعلقات کے نظام کا قیام، نیچے سے کنٹرول، کھلی سفارت کاری اور ہر قسم کی سامراجی اور قوم پرست جارحیت کی مذمت؛
٭یوکرین کے قرض کی منسوخی؛ اور
٭تعمیر نو، دفاع اور حالاتِ زندگی کی بہتری کے لیے یوکرین کے شہریوں کے زیرِ کنٹرول فنڈ کی تشکیل، مغربی سرمایہ داروں کے منافع پر غیر معمولی ٹیکسوں کے ذریعے مالی اعانت کی فراہمی،جنہوں نے اپنے روسی ہم منصبوں، ہتھیاروں کی کمپنیوں اور دیگر جنگی منافع خوروں کے منافع کے ساتھ ساتھ روسی اور یوکرینی باشندوں کی خوش قسمتی کے قبضے کے ذریعے کاروبار کیا۔

(بشکریہ: لنکس، ترجمہ: حارث قدیر)

Roznama Jeddojehad
+ posts