قیصر عباس
پاکستان میں تو طنز و مزاح سے ہمیشہ ہی سرکاری اداروں اور سیاسی لیڈروں کا وقار خطرے میں رہتا ہے لیکن اب انڈیا میں بھی ملک کی عدالت عظمیٰ کو ایک کارٹون سے سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم سی پی جے (Committee to Protect Journalists) کے مطابق انڈیا کی سپریم کورٹ نے کارٹونسٹ رچیتہ تنیجا کے خلاف توہین عدالت کی ایک درخواست کوعدالتی کاروائی کے لئے منظور کر لیاہے۔ اگر ان کے خلاف یہ ’جرم‘ ثابت ہوگیا تو کارٹونسٹ کو چھ ماہ قید، دو ہزار بھارتی روپے یا دونوں کی سزا مل سکتی ہے۔
یہ درخواست بر سر اقتدار جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے قانون کے ایک طالب علم نے دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’ملزمہ‘نے ایک کارٹون میں ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجن گوگوئی کو ساز باز کرتے دکھایاہے۔ درخواست میں تین کارٹونوں کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں سے ایک میں وزیراعظم ایودھیا مسجد کے مقدمے کا فیصلہ حکومت کے حق میں کرنے کے عوض سابق چیف جسٹس کوراجیہ سبھا (بھارتی پالیمنٹ) کی نشست پیش کر رہے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ”کارٹون سے سپریم کورٹ کے وجود کوخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔“ دوسرے دو کارٹون حکومت کے حمائت یافتہ ٹی وی اینکر ارنب گوسوامی سے متعلق ہیں جن پر ایک مقدمہ آج کل زیرسماعت ہے۔ تنیجا نے یہ کارٹون اپنے ٹوئٹر کے ذریعے گزشتہ اگست اور نومبرمیں جاری کئے تھے جن کے بائیس ہزار پانچ سو فالوئر ہیں۔
سی پی جے کی ایشیائی امور کی سینئر محقق عالیہ افتخار نے اس خبرپر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ”انڈیا میں، جہاں کہا جاتاہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہے، رچیتہ تنیجا کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی سے سمجھا جائے گا ملک میں کسی قسم کی تنقیدکو برداشت کرنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے۔“
درخواست گزار ادتیہ کشیاپ نے اس سلسلے میں سی پی جے سے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے امتحانات میں مصرو ف ہیں لیکن ایک اخبار’نیو انڈین ایکسپریس‘کو دئے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہاہے کہ ”تنیجا کو عدالت یا حکومت پر تنقید کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن وہ ایک حد سے آگے نہیں جاسکتیں۔“
بر صغیر کے بیشتر ملکوں میں اس سال صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اقدامات، سنسرشپ اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان اور پاکستان میں اظہار رائے پر بڑھتی ہوئی پابندیاں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی پامالی تصور کی جاتی ہیں جو اس خطے میں روزانہ کا معمول بنتی جارہی ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔