لاہور (نامہ نگار) سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ کم از کم 11 جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ گزشتہ 6 سالوں میں ملک بھر میں 22 ہزار سے زائد جنسی زیادتی کے واقعات کی پولیس کے پاس رپورٹ درج کروائی گئی لیکن صرف 77 ملزمان کو ہی مجرم قرار دیا گیا ہے، جو کل تعداد کا 0.3 فیصد بنتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ عرصہ میں جنسی زیادتی کے مجرموں کے خلاف سخت سزائیں متعارف کروائی گئیں، قانون سازی بھی کی گئی لیکن اس سب کے باوجود جنسی زیادتی کے کیسوں میں کمی نہیں ہو سکی ہے۔
غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق پولیس کے پاس رپورٹ ہونیو الے واقعات روز مرہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے بہت زیادہ ہیں لیکن پسماندہ معاشرے کی قدامت پسند روایات اور معاشرے میں عزت و مقام پر حرف آنے کے خدشے کے پیش نظر جنسی زیادتی کے واقعات کی بڑی اکثریت کو دبا دیا جاتا ہے یا پھر خانگی طور پر نمٹا کر ملزم کو چھوٹ دیدی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق پولیس کے نظام میں بہتری کے اعلانات اور قانون سازیوں کے باوجود عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کا اس طرح کے واقعات پر رد عمل بھی شہریوں کو پولیس کے پاس جانے سے روکے رکھتا ہے۔ متاثرین کو پولیس کی جانب سے دادرسی فراہم کرنے کی بجائے الٹا بے عزت کیا جانا اور رقوم حاصل کرنے کے علاوہ اکثر واقعات میں ملزمان کے ساتھ مل کر صلح کیلئے دباؤ ڈالنے جیسے واقعات بھی تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے بھی اس طرح کے واقعات سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا اور جنسی زیادتی کے واقعات کی وجہ پہناوے میں جدت لائے جانے یا پردے اور برقعے کا استعمال نہ ہونا قرار دیکر بالواسطہ طو رپر ملزمان کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دنوں میں دیئے گئے بیان پر بھی ملکی اور عالمی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق جنسی زیادتی جیسے واقعات کے تدارک کیلئے جہاں قانون سازی بہتر ہونا، قانون پر عملدرآمد ہونا اور اداروں کا فعال کردار ضروری ہے وہاں معاشرے میں موجود طبقاتی تفریق اور ناہمواری کی وجہ سے جنم لینے والے مسائل کا تدارک بھی ضروری ہے۔ جب تک معاشرے میں یہ تقسیم اور تفریق موجود ہوگی جنسی زیادتی سمیت دیگر جرائم کیلئے گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی۔